بابا فرید کا فیض اور رواداری کا پیغام

بابا فرید کا فیض اور رواداری کا پیغام

بابا فرید گنج شکرؒ کا عرس شروع ہو چکا ہے۔ بہشتی دروازہ (باب جنت) بھی کُھل چکا ہے۔ آپ کا پورا نام شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ ہے۔ پاکستان میں صوفیا کرام کے قافلہ سالار حضرت بابا فرید گنج شکرؒ ہیں، جن کی زندگی اور پیغام میں ہماری مشکلات کا حل نظر آتا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے معاشرے میں جنم لیا جو کثیر المذاہب، کثیر القومی، کثیر السانی اور توہمات کی زد میں تھا۔ انسانی زندگی کی کوئی وقعت نہ تھی۔ بادشاہی نظام کو لوٹ کھسوٹ اور جنگ و جدل میں انسانی ایندھن بلادریغ استعمال ہوتا تھا۔ ان حالات میں بابا فرید نے اعلیٰ مقاصد کی تعلیم دی۔ رواداری کا کلچر پیدا کیا۔ علم و حکمت کی طرف لوگوں کو مائل کیا۔ دھرتی سے پیار کرنے اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا درس دیا۔ ایک اللہ کی عبادت کی تلقین کر کے فرسودہ رسومات کو ترک کرنے کی تلقین کی تاکہ عام آدمی استحصال سے نجات پا سکے اور متوازن معاشرہ قائم کرنے کی بنیاد ڈالی جا سکے۔

1989ءمیں لاہور کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں بابا فریدؒ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی صدارت اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی۔ کانفرنس کی انتظامی کمیٹی کا میں بھی ممبر تھا۔ بے نظیر بھٹو نے صدارتی خطاب میں کہا ”آج کے اس دور میں حضرت بابا فریدؒ جیسے صوفیا کرام ہی کی ضرورت ہے۔ ایسے صوفیا کی جو اپنے اخلاص، عمل اور پیار سے لوگوں کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔ حقیقی درویش اور صوفی وہ ہوتا ہے جو تخت و تاج کا طلب گار نہ ہو۔ جسے کرسی اور حکومت کی چاہت نہیں ہوتی حضرت بابا فریدؒ کی تمام زندگی انسانیت کی خدمت اور انسانیت سے محبت کی زندگی ہے۔ انہوں نے مجبور انسانوں کو محبت اور پیار کا درس دیا۔ وہ ٹوٹے ہوئے دلوںکو جوڑنے والے ولی اور صوفی ہیں۔ آئیں عہد کریں کہ ہم بھی انسانیت کی خدمت کریں گے اور بابا فریدؒ کے نقش قدم پر چلیں گے“

حضرت بابا فرید مسعود گنج شکرؒ برصغیر کی ان معدودے چند بزرگ ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے رواداری اور انسان دوستی کا پیغام دیا۔ بابا جی نے اپنی تعلیمات اور عمل سے اجودھن کو پاک پتن بنا دیا۔ یعنی پاک بستی۔ یہ ان کی رواداری اور انسان دوستی ہی کا نتیجہ تھا کہ جو ق در جوق لوگ ان کے پاس آتے اور ان کے کردار و گفتار سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرتے اور بھائی چارے کا درس دیتے۔ بابا جی کا شلوک ہے

فرید بُرے دا بھلا کر غصہ من دا ہنڈا

دیہی روگ نہ لگ ای پلِّے سبھ کجھ پاء

مطلب یہ کہ اے فرید! جو تجھ سے برائی بھی کرے تو اس کا بھلا کر اور اپنے دل میں غصہ نہ آنے دے (اس کا نتیجہ یہ ہو گا) کہ تمہارے جسم کو کوئی روگ نہیں لگے گا (اس کے علاوہ تم دیکھو گے کہ اس سے تم پر روحانی برکتیں نازل ہونے لگیں گی) تم ان سب کو سمیٹ لو (یہ تمہارا حصہ ہیں) دشمنوں اور بُرے لوگوں سے بھلائی برتنے رہنا دل میں اطمینان پیدا کرتا ہے اور یہ ایک سچائی ہے کہ مطمئن دل جسم کو روگ نہیں لگنے دیتا۔ صحت مند جسم ایک نعمت ہے ہی لیکن جو روحانی برکتیں اس کے علاوہ ملتی ہیں، وہ الگ ہیں۔ برا کون ہے؟ جو لوگوں سے برا سلوک کرے۔ منافق، بددیانت، بے دین، گمراہ، حد سے گزرنے والا، لاقانونیت کی علامت، اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے والا اور اپنے محدود اختیار میں جبر کرنے والا، عقیدے کا اختلاف غیر اخلاقی حد تک رکھنے والا۔ بابا فرید کا مسئلہ یہ نہیں کہ اس برے کی برائی کریں، اسے من ہی من میں ناقابل برداشت قرار دیں اور اگر کبھی اقتدار حاصل ہو جائے تو اس برے کو جسمانی طور پر صاف کر دیں۔ بابا فرید کا نظریہ طریقہ، طرزِ حیات اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ برے کو بھی ناقابل برداشت قرار نہیں دیتے۔ اس کا بھی بھلا چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کی ذات کے اندر ایک مثبت پہلو کے تار کو اپنے عمل سے چھیڑ کر یہ چاہتے ہیں کہ اس کی برائی پر اس کی اچھائی غالب آ جائے۔ نفی پر اثبات کو برتری حاصل ہو جائے۔

بابا فرید کی زندگی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ کسی مرید نے ان کو قینچی نذر کی۔ بابا جی نے کہا کہ قینچی کا کام کاٹنا ہے۔ مجھے سوئی دھاگا لا کر دو۔ میں لوگوں کو محبت کے رشتوں میں جوڑنے کے لیے آیا ہوں۔ بابا جی نے اس رجحان کی نفی کی کہ درویشوں کو بھی دولت کے ذریعے خریدا جا سکتا ہے۔ آپ نے اشرافیہ کا مرشد بننے کے بجائے اجلافیہ (اشرافیہ کی ضد اجلافیہ ہے) کے درمیان رہتے ہوئے ان جیسی زندگی گزار کر انہی محرومین کا مرشد اور پیر طریقت بننا قبول کیا تا کہ عملی طور پر آپ انسانوں میں طبقاتی تقسیم کی نفی کریں اور ثابت کریں کہ معاشرہ میں زیادہ حقدارمحرومین کا طبقہ ہے۔ آپ کے استغنا نے اہل ثروت پر واضح کر دیا کہ دعا اور ہدایت کے لی…
[07:12, 01/12/2022] +92 343 4842144: پنجابی زبان کی ابتداء اور تاریخ .

پنجابی زبان کی ابتداء اور تاریخ .سنسکرت کو برصغیر کی قدیم ترین زبان تسلیم کیا جاتا ہے اس لیے محققین کا عام نظریہ یہی ہے کہ برصغیر میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی طرح پنجابی زبان کی ابتداء بھی سنسکرت سے ہوئی۔ 1500 سال قبل مسیح میں برصغیر اور اس کے گرد و نواح میں آریا سماج کے باشندے آئے اور کئی سال تک ان کی آمد کا سلسہ جاری رہا۔

آریاؤں نے اس دور میں چار وید لکھے۔ یہ وید جس زبان میں تحریر کیے گئے تھے اسے ویدک سنسکرت زبان کہا جاتا تھا۔ یہ دراصل ویدوں کی زبان تھی جسے عام لفظوں میں ابتدائی سنسکرت کہا جا سکتا ہے۔

400 سال قبل مسیح میں پانتی رشی نام کے ایک محقق اور مفکر نے سنسکرت زبان کی گرائمر کو ترتیب دیا۔ اس میں سنسکرت میں کچھ نئے الفاظ کا اضافہ ہوا اور سنسکرت کو مزید وسعت ملی۔ رفتہ رفتہ سنسکرت زبان میں تبدیلیاں آئیں تو سنسک…
[07:12, 01/12/2022] +92 343 4842144: پنجابی زبان

پنجابی(شاہ مکھی: پنجابی، گرمکھی: ਪੰਜਾਬੀ) ایک ہند یورپی زبان ہے جو باشندگانِ خطۂ پنجاب میں مروّج ہے۔ پنجابی بولنے والوں میں ہندو مت، سکھ مت، اسلام، اور مسیحیت کے پیروکار شامل ہیں۔ اول الذکر مذہب کے علاوہ باقی تینوں مذاہب میں اس زبان کو خاص حیثیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں کیے گیے مردم شماریوں کے مطابق دنیا میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد 15 سے 17 کروڑ سے زائد ہے ۔ اس زبان کے بہت سے لہجے ہیں جن میں سے ماجھی لہجے کو ٹکسالی مانا جاتا ہے۔ یہ لہجہ پاکستان میں لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ کے اطراف میں جبکہ ہندوستان میں امرتسر اور گرداسپور کے اضلاع میں مستعمل ہے۔ ایس۔آئی۔ایل۔ نژادیہ کے 1999ء کی شماریات کے مطابق پنجابی اور ہندی دُنیا میں گیارویں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے۔

فہرست
1 اسم پنجابی کا ارتقاء
2 جغرافیائی وسعت
3 تاریخ
4 پنجابی…

Leave a Reply

Ad Blocker Detected

Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by disabling your ad blocker.

Refresh
Scan the code