AIOU SOLVED ASSIGNMENT 5615-1

ALLAMA IQBAL OPEN UNIVERSITY ISLAMABAD
Course: اردو ادب کا پاکستانی دور
اسائنمنٹ نمبر:1
کورس کوڈ: 5615
ن
سطح: ایم اے اردو
سمسٹر: بہار 2022
سوال 1- اردو غزل کے دوسرے پاکستانی دور کی تفصیل تحریر کر یں۔
جواب
غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس نے اس کو باقاعدہ رواج دیا تھا۔ وہ ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے۔ مثلاً قلی قطب شاہ نصرتی، غواصی، ملا وجہی لیکن ولی نے پہلی بار غزل میں تہذیبی قدروں کو سمویا۔ اس کے بعد ہمارے سامنے ایہام گو شعرا آتے ہیں۔ جنہوں نے بھی فن اور فکر کے حوالے سے غزل کو تہذیب و روایات سے قریب کیا۔ایہام گوئی کے کی بعد اصلاح زبان اور فکر کی تحریک شروع ہوئی جو مظہر جان جاناں نے شروع کی انہوں نے غزل میں فارسیت کو رواج دیا۔ لیکن وہ مکمل طور پر ہندیت کو غزل سے نکال نہیں سکے۔ لہٰذا اس کے بعدمیر تقی میر او ر سودا کا دور ہمارے سامنے آتا ہے اس میں ہمیں نئی تہذیب اور اسلوب کا سراغ ملتا ہے۔ اس میں ہمیں وہ کلچر نظر آتا ہے جو ہندی ایرانی کلچر ہے۔ وہ اسلوب ہے جس میں فارسی کا غلبہ تو ہے لیکن اندرونی طور پر ہندی ڈکشن کے اثرات ہیں۔ میر اورسودا کا دور غزل کے عہد زریں کا دور ہے۔ جس میں مکمل طور پر کلاسیکی پیمانوں کی پیروی کی گئی ۔
لکھنو میں غزل کا پہلا دور مصحفی، انشاء، رنگین اور جرات کا ہے یہاں پہلی دفعہ کلاسیکی موضوعات پر ضرب پڑتی ہے اور اسلوب اور موضوع کے حوالے سے بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں۔ لکھنؤ کا دوسرا دور جو آتش اور ناسخ کا دور ہے اس میں پچھلے دور کے اقدار کو مزید مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہاں سے محبوب اور اس کی شخصیت تبدیل ہونی شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے جو پاکیزگی کا تصور تھا اس میں دراڑیں پڑتی ہیں۔
اس کے بعد مرزا اسد اللہ خان غالب کا دو رآتا ہے،جس پر لکھنؤ کا اثر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن فکری حوالے سے اس دور میں بڑی تبدیلی نظرآتی ہے۔ یہاں سے ایسی غزل شروع ہوتی ہے جو اپنے دامن میں تفکر کے بہت سے زاویے رکھتے ہی جس میں فلسفہ اور خاص کر خدا، انسان اور کائنات کارشتہ مقرر کرنا جیسے موضوعات غزل میں داخل ہوتے ہیں۔
1857ء کے بعد غزل کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس میں کلاسیکی عمل کے اثرات ہیں۔ یعنی رام پور کا دور۔ اس دور میں نواب مرزا داغ دہلوی،]] امیر، جلال اور تسلیم جیسے شاعر شامل ہیں۔
اس کے بعد صحیح معنوں میں غزل کا جدید دور شروع ہوتا ہے۔ اور وہ ہے الطاف حسین حالی کادور اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی نے جدید غزل کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حالی کی غزل کی بنیاد دراصل مقصدیت پر ہے۔ اس کے بعد جو اہم نام جدید غزل کے حوالے سے ہمارے سامنے آتا ہے وہ اقبال کا ہے۔ وہ حالی کی مقصدیت کو آگے لے کر چلتے ہیں لیکن وسیع معنوں میں۔ اقبال صرف اخلاقیات اور مقصدی مضامین تک محدود نہیں رہے۔ اقبال کی غزل کا مرکزی کردار مکالمے کرتا ہے۔ فطرت سے، کائنات سے اور سب سے بڑھ کر اپنے داخل سے۔ اب غزل ایک نئے تصور کے تحت آگئی ہے۔ انسان، خدا، کائنات اور فطرت کے رشتے اور پھیلی ہوئی کائنات سب اس میں موجود ہیں۔
اقبال کے بعداصغر، فانی بدایونی، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی اور یاس یگانہ چنگیزی جدید معمار ہیں۔ اصغر تصوف کے راستے اور فانی نے موت اور یاسیت کے راستے کائنات کی معنویت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جگر ایک رندی اور سرمستی کے راستے تلاش کرتا ہے۔ جبکہ حسرت موہانی ایک نیا تصورِ عشق سامنے لاتے ہیں۔ انہوں نے غیر مادی تصور عشق کو مٹا کر مادی تصورِعشق دیا۔ اُس نے ایک مادی پیکر محبوب کو دیا جو اسی زمین پر ہمارے درمیان رہتا ہے۔ جبکہ یاس یگانہ چنگیزی حقیقت کے حوالے سے اور ذات کی انانیت کے حوالے سے اہم نام ہے۔
اس کے بعد ہمارے سامنے ترقی پسندوں کا گروپ آتا ہے جس میں بہت سے شاعر ساحر، فیض، مجروح، احمد ندیم قاسمی، عبدالحمید عدم، جانثار اختر وغیر ہ شامل ہیں اور ترقی پسند تحریک تک غزل پہنچتی ہے۔ اس کے بعد 1947ءکے بعد کچھ شاعر ہندوستان میں رہ جاتے ہیں اور کچھ پاکستان میں ۔
غزل اُردو ۔ فارسی یا عربی کی ایک صنفِ سُخن ہے۔جس کے پہلے دو مِصرے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ غزل کے لیے پہلے ریختہ لفظ استعمال میں تھا۔( امیر خسروؒ نے موسیقی کی راگ کو ریختہ نام دیا تھا) ادب کے دیگر اصناف ادب اور فنون لطیفہ میں سب سے زیادہ غزل کو پسند کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ غزل اسٹیج کے علاوہ سخن کا بہترین ذریعہ اظہار بھی ہے۔ کم لفظوں میں مکمل بات کرنے کا ہنر ہے۔ غزل کا سانچا چھوٹا ہوتا ہے اسی لیے جذبے یا خیالات کو پھیلانے کی گنجائش محدود ہوتی ہے۔ اس لیے رمزء ایماتمثیل و استعارہ، پیکر آفرینی اور محاکات اُس کے فنی لوازم بن گئے ہیں۔غزل متنوع موضوعات کا مرکب ہوتی ہے۔اس مقالہ کا بنیادی مقصد قدیم اور جدید غزل کی بدلتی ہئیت اور معنویت کی عکاسی کرنا ہے۔ ہیئت سے مراد ‘اندازِ و بیاں کی وہ صورت جو فنی اور تکنیکی خصوصیات کے سبب شعری تخلیق کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ہم نےموضوع کے تحت اُردوغزل کے آغاز کا جائزہ تاریخی پس منظرمیں لیا ہے ۔ اس صنف کی ہئیت کو مستند اشعار کوثبوت میں پیش کیا ہے۔ تاکہ عنوان کی صحیح معنویت کی وضاحت ہو سکے۔ غزل قصیدے کا جزو تھی، جس کو ’’تشبیب‘‘ کہتے ہیں۔ پھر وہ الگ سے ایک صنفِ شعر بن کرقصیدے کے فارمیٹ میں تبدیل ہو گئی۔ فنی اعتبار سے بحر اور قافیہ ’’بیت‘‘ اور غزل کے لیے یکساں ہے۔ اس مقالہ میں غزل کی بدلتی ہئیت کی داستان کو چار ادوار میں منقسم کیا گیاہے ۔پہلا دکنی غزل ۔ دوسرا اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے انیسویں صدی کے نصف اول تک محیط ہے بلکہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے آخر تک ۔ تیسرا۱۸۵۷ء سے اقبال تک کا جائزہ لیا گیا ہےاور آخری میں اقبال کے بعد جدید دور تک کا احاطہ کیا گیاہے۔ اس کے بعد ترقی پسند(۱۹۳۶ء تا۱۹۵۰ء) کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس عہد میں غزل ہئیت اور معنویت دونوں میں تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو گئ۔ ترقی پسندوں نے بھی غزل کے متعلق اپنی اجدادی وراثت اور روایت سے بےشمار غلط سمجھوتے کیے۔ قدیم روایاتی علامات، استعاروں، تشبیوں، تلمیحات یا کتب وغیرہ کو غیر روایاتی معنیٰ اور ماہیم دینے کی کوشش کی۔ اس طرح قدیم روایت کے ملے جلے اثرات ترقی پسندوں کی روایت شکنی کے اعلانات کے باوجود جدید غزل میں شعوری اور غیر شعوری طور سے سرایت کرتے چلے گئے۔ [2]جدید تحقیق میں اُردو غزل کا پہلا نمونہ امیر خسرؔو کے ہاں ریختہ کی صورت میں ملتا ہے۔ اس کے بغیر بہت سے صوفیائے کرام نے شاعری کو اظہار خیالات کا ذریعہ بنایا لیکن غزل کے ہاں ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ بہمنی سلطنت میں غزل کے نمونے بہت ہیں۔ لیکن گولکنڈہ کی سلطنت کے قطب شاہی اور عادل شاہی حکمران کی شعر و ادب سے دلچسپی کی وجہ سے اردو غزل بہت ترقی کی۔ مقالہ میں غزل کے بدلتی روایت کو نویں صدی کے اواخر میں فارسی غزل سے ترقی کر کے سترویں صدی میں اردو میں منتقل ہونے تک کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ چوں کہ یہ فارسی سے اردو میں آئی تھی۔ اس لیے فارسی کے عصری معنویت اور تاثرات بھی اردو غزل میں کوبہ کو نظر آتے ہیں۔ابتدائی غزلوں میں ماسوائے عشق و محبت کے مضامین باندھنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ کیوں کہ خود غزل کے لغوی معنی بھی عورتوں سے بات چیت کرنے کے ہیں۔ یہاں تک کہ مولانا شبلی نے بھی غزل کو عشق و محبت کے جذبات کی تحریک سمجھا۔لیکن بعد حاؔلی نے مقدمہ شعر و شاعری میں غزل کے ہر مضمون کی گنجائش پیدا کر دی ہے۔جس کے بعد اس صنف میں ہر قسم کے خیالات بیان کئے جارہے ہیں۔اس طرح کی بدلتی ہئیت کو اس کی مناسب معنویت کے ساتھ تحقیقی نقطہ نظر سے بیانیہ انداز میں تاریخی تحقیق کا طریقہ کار میں مقالہ قلم بند کیا گیاہے۔یہ مقالہ طلباء ٹیچر اور شعراء کو اردو غزل کی ہئیت اور مختصر تاریخ کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہوگا۔
کلیدی الفاظ:اُردو غزل،تفہیمِ غزل، غزل کی تاریخ،غزل کی ہئیت اور معنویت۔
- تعارف:
غزلولیت اردو شاعری کی آبرو ہے۔[3] اگر چہ مختلف زمانوں میں شاعر کی بعض دوسری قسمیں بھی اردو میں بہت مقبول رہی ہیں۔ لیکن نہ تو ان کی مقبولیت کا مقابلہ کر سکی نہ ہی اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچا سکی۔ پھر بھی بیسویں صدی کے نصف میں اس صنف کے بہت مخالفین پیدا ہوئے لیکن مقبولیت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
لفظ ’غزل‘ کے سنتےہی حواسِ خمشہ بیدار ہو جاتے ہیں۔یہ صنف ادب و سخن میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے، عام و خاص کی ابتدا د سے ہی دلچسپی کا ذریعہ ہے۔ فنی نقطہ نظر سے بھی اس مقام اعلیٰ ہے۔ عالمی سطح پر سیر و تفریح کرتی ہے۔ یہ ادب بھی ہے اسٹیج بھی ہے۔جذبات و احساسات کا سمندر بھی ہے۔ ناگن سی ناچتی مستی شراب کی لزت بھی اسی میں ہے۔ قوموں ‘ملکوں کے فاصلے مٹانے کا ذریعہ بھی ہے۔میر و غالب ہوئے ‘ حالی درد بیدل اقبال ہوئے یا پھر جگر مومن اور درد آتش ہوئے۔ حسرت اس صنف سے فیضیاب ہوئے تو جرأت نے ایسی داغ بیل ڈالی کے سب ذوق اس کے آگے فانی ہوئے۔ ناطق اپنے جوش وجگر سے بے نظیر ہوئے۔ شاد فرازا و رفراق نے شوق سے غزل کےآرزو مند ہوئے۔ ندا سے اس کی ہر کوئی سر شار ہوئے۔دکن میں قطب، خواجہ ، شوقی، عادل ،نصرتی، میرا ں،غواصی،وجہی سب اس کے جاں نثار ہوئے۔ وہیں ان کے نقش قدم پر وؔلی ، سراج اور صفی بھی متوجہ ہوئے ۔ شمال میں شاہ حاتم ، آبرو، مظہر نے لطف اور مجاز سے کوئی بہادر ہوئے کوئی ظفر ہوئے۔ ایہام گوئی کے آبرو، ناجی، مضمون، یکرنگ، سجاد، یقین، میری ، مرزا سودا، خواجہ میر درد، قائم چاندپوری، میر سوز اس صنف کے عاشق ہوئے۔ دبستان لکھنو میں جرأت،انشاء،مصحفی،رنگین،نسیم ، آتش، ناسخ،تلامذہ اور انیسؔ نے غزل گو ئی کو اپنا خون و جگر دیا۔ وہیں ناؔصر ، ناسخ، نصرتی نے بڑی آرزؤں ‘ آزادخیالی سے اس کے مجروع ہوئے۔ اس طرح سے غزال کو غزل بنانے میں ہر کوئی اپنے اپنے وہت کے ساتھ اس فن کو فروغ دیتے رہے ۔لیکن روایتی طور پر سب اپنی دکھ اور درد کو ہلکا کرنے کا ذریعہ غزل کو ہی تصور کر رکھا تھا ۔ اس کے برعکس مولانا الطاف حسین حالی ؔ نے روایت کے خلاف جنگ چھیڑ دی جس میں انہوں نے عورتوں سے بات کرنے کے بجائے سماج کی باتیں کرڈالی۔خاص طور پر مسدس، مدوجزر اسلام لکھ کر انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی سمت دی اور نئے امکان سے روشناس کیا۔انہیں کی وجہ سے اردو غزل میں نئے رنگ و آہنگ پید اکیا۔ حالاں کہ ان کی غزلیات کا دیوان مختصر ہے لیکن تمام تر منتخبہ ہے۔ثبوت میں ان کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں:
بُری اور بھلی سب گذرجائے گی؛یہ کشتی یوں ہی پار اُتر جائےگی
ملے گا نہ گُلچیں کر گُل پَتا؛ہر ایک پنکھڑی یوں بکھر جائےگی
رہیں گے نہ ملّا یہ دِن سَدا؛ کوئی دن میں گنگا اُتر جائے گی
بناوٹ کی شیخی نہیں رہتی شیخ؛یہ عزّت تو جائے گی پر جائےگی
سنیں گے نہ حاؔلی کی کب تک صدا
یہی ایک دِن کام کر جائےگی
حالی ؔ کی غزل پیش کرنےکا مقصد یہ ہے کہ پچھلی صدیوں سے چلی آرہی روایت سے ہٹ کر غزل گوئی کے ذریعہ اصلاحی معاشرہ کے کام کس طرح لینا ہے یہ ہم حالی سے سیکھتے ہیں۔ اگر ہم اس غزل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے ۔ پہلے شعر میں’ میرے احساسات اور میرے جذبات کو سمجھنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اس دنیا میں کوئی میرا محرم یا رازداں نہیں ہے۔ میری زباں حال کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ میں اس بھری دنیا میں تنہا ہوں۔ دوسرے شعر میں ان کا خیال ہے شاعر خود کو ایک ایسے طاکر سے تشبیہ دیتا ہے جسے چمن سے جد کر کے قفس میں بند کر دیا گیا ہے۔ وہ کوشش کرتاہے کہ کس طرح قفس میں جی بہل جائےکیوں کہ اب ایسی زندگی گزارنی ہے۔ لیکن آشیاں کی یاد اُسے بے چین رکھتی ہے۔ شاعر یاس کے عالم میں کہتا ہے کہ کوئی میرے آشیاں کو آگ لگادے۔ مجھے یقین ہوجائے گا کہ آشیاں جل چکا ہے تو پھر قفس کی زندگی چین سے گزرےگی۔
سوال 2- اردو ہائیکو کے آغاز وارتقا پر تبصرہ کر یں ۔
جواب
اردو ہائیکو کا آغاز و ارتقاء
اردو ہائیکو کہنے کا رواج اس وقت شروع ہوا جب1963ء میں شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ساقی کا ”جاپان نمبر ” شائع کیا۔ اس رسالے میں فضل حق اور تمنائی نے جاپانی ہائیکو کے اردو تراجم پیش کئے
اردو ہائیکو کہنے کا رواج اس وقت شروع ہوا جب1963ء میں شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ساقی کا ’’جاپان نمبر ‘‘ شائع کیا۔ اس رسالے میں فضل حق اور تمنائی نے جاپانی ہائیکو کے اردو تراجم پیش کئے۔ فضل حق کا ترجمہ نثر میں تھا جبکہ تمنائی نے تین مصرعوں میں ترجمہ کیا جس کا حوالہ ڈاکٹر عنوان چشتی کی کتاب ’’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے ‘‘ میں بھی ملتا ہے۔ تمنائی کا ترجمہ یہ ہے۔
یہ دنیا شبنم کے قطرے جیسی ہے
بالکل شبنم کے قطرے جیسی
پھر بھی کوئی حرج نہیں
لیکن تمنائی نے جہاں آہنگ کو پیش نظر رکھا وہیں سترہ صوتی اجزاء کی پابندی کو نظر انداز کر دیا۔ یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ اردو کا پہلا ہائیکو کس نے لکھا۔۔۔۔۔۔؟ یہاں تو صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگرکسی خاص طرز کی پابندی کی جائے یا کسی خاص ہیئت میں نظم لکھنے کی کوشش کی جائے تو فنی لوازمات کو بھی نظر رکھنا چاہیے۔ یہ بات اس لئے کہی گئی کہ اردو میں ہائیکو کے نام سے جو نظمیں ملتی ہیں ان میں تقریباً سبھی نظمیں ایسی ہیں جنہیں ہائیکو کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان میں سترہ صوتی اجزاء کی پابندی اور پانچ سات پانچ کی ترتیب کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہاں ان اصولوں کی پابندی نظر آتی ہے وہاں اردو کے مزاج کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔
ہمسائیہ ملک ہندوستان میں علیم صبا نویدی اور پاکستان میں محمد امین نے ہائیکو کے مجموعے شائع کئے۔ پاکستان میں ’’جاپانی ثقافتی مرکز‘‘ کے زیر اہتمام ’’ہائیکو مشاعرے ‘‘ بھی منعقد ہوئے جن میں جاپانی ہائیکو کے تراجم کے علاوہ شعراء نے طبع زاد ہائیکو بھی سنائے۔ اور ان مشاعروں کے چند گلدستے بھی شائع ہوئے۔
علیم صبا نویدی کے علاوہ قاضی سلیم سے لے کر شارق جمال اور قطب سرشار تک ہائیکو کہنے والوں کا ایک طویل قافلہ نظر آتا ہے لیکن ان تمام میں وہی ایک بات کھٹکتی ہے۔ کہاں ترجمہ پیش کیا گیا وہاں تو خیر ایک جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں شاعر کی اپنی کاوش ہے وہاں یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اس صنف کو اپنانے میں کسی اصول کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ سوائے اس کے کہ تین مصرعے ہوں اور بس! انہیں یا تو سہ سطری نظمیں کہا جا سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ مثلث یا ثلاثی۔۔۔۔
قاضی سلیم بہت اچھے شاعر ہیں اور فنی اعتبارات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ رسالہ تحریک جولائی 1966ء میں ان کی چند مختصر نظمیں شائع ہوئی تھیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ نظمیں ہائیکو کے فارم کی سختی سے پابندی کرتی ہیں بقول ان کے انہوں نے سترہ مسلسل کی پابندی کی ہے اور یہ سترہ صوتی اجزاء ہندی کے لکھے اور گرد ماتراؤں کے اتصال پر مبنی ہیں۔ ان کی ایک نظم پیش ہے۔
عکس جو ڈوب گیا
آئینوں میں نہیں
آنکھوں میں اتر کر دیکھو
اس نظم میں ہندی چھند کے اعتبار سے پہلے مصرعے میں پانچ دوسرے مصرعے میں پانچ اور تیسرے میں سات جڑواں ماترائیں آئی ہیں ۔۔۔۔ اگر عروضی اعتبارسے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پہلے مصرعہ میں تین سبب خفیف ایک سبب ثقیل اور ایک وتد مجموع ہے۔ دوسرے مصرعے میں چار سبب خفیف، اور ایک وتد مجموع آیا ہے۔ تیسرے میں چھ سبب خفیف اور ایک وتد مجموع ہے کیا ہم اسے ہائیکو کہہ سکتے ہیں۔ علیم صبا نوید ی نے ’’ترسیلے ‘‘ کے عنوان سے ہائیکو کا جو مجموعہ شائع کیا اس میں بقول کرامت علی کرامت دو طرح کے ہائیکو ہیں۔
ایک پابند ہائیکو اور دوسرے نثری ہائیکو:
جس نظم کوکرامت علی کرامت نے پابند ہائیکو قرار دیا اس کا ہر مصرع فاعلاتن مفاعلن فعلن کے وزن پر ہے۔ اور پہلے اور تیسرے مصرعے میں قافیہ کی پابندی کی گئی ہے۔ یہ نظم پیش کی جا رہی ہے۔
معتبر منزلوں کا راہی وہ
ہیں سمندر پناہ میں اس کی
ہے صدف آشنا سپاہی وہ
اب حمایت علی شاعر کا ایک ’’ثلاثی ‘‘دیکھئے جس کا عنوان ’’زاویہ نگاہ‘‘ ہے۔
یہ ایک پتھر ہے جو راستے میں پڑا ہوا ہے
اسے محبت تراش لے تو یہی صنم ہے
اسے عقیدت نواز دے تو یہی خدا ہے
اس ثلاثی میں اور علیم صبا نویدی کی نظم میں ہیئت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ بحر البتہ مختلف ہے۔ دونوں میں پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ وہم ردیف ہے اور ہر نظم کے تینوں مصرعے ایک ہی وزن کے ہیں۔ تو پھر علیم صبا نویدی کی نظم کو ثلاثی کیوں نہ کہا جائے۔ ایک ہی ہیئت کے آخر دو نام کیوں ….؟ البتہ اسی کتاب یعنی ترسیلے کے مقدمے میں کرامت علی کرامت نے اپنا بھی ایک ہائیکو پیش کیا ہے جو کہ میرے خیال میں ہائیکو کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ مثال کے طور پر
لمحوں کی تتلی
میرے من کے آنگن میں
جانے کیو ں آئی
اس نظم میں سترہ سبب خفیف 5 7 5کی ترتیب میں استعمال کئے گئے ہیں کرامت علی کرامت نے ’’ترسیلے ‘‘ کے مقدمے میں ایک بڑی خوبصورت بات کہی ہے، جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ کسی زبان کی مخصوص صنف کو دوسری زبان میں برتتے وقت اس کے فارم میں کچھ تبدیلیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں۔
اس بات میں کچھ اضافہ ہو سکتا ہے کہ تبدیلیاں ایسی ہوں جن کے باوجود اس صنف کی انفرادیت باقی رہے اور دوسری اصناف کے ساتھ خلط ملط ہونے کا خدشہ نہ رہے۔ اور ساتھ ہی فنی لوازمات اور زبان کے مزاج کا بھی خیال رکھا جائے ۔۔۔۔۔یعنی ہیئت یا موضوع کے لحاظ سے کوئی بات تو ایسی ہو جس سے صنف کا تعین ہو سکے۔ اگر ہم کسی نظم کو ہائیکو کہیں تو اس کے کچھ اصول ہوں۔ ثلاثی کہیں تو اس کے کچھ ضوابط بنیں اور سہ سطری ہیں تو اس کا تعین بھی کسی قاعدے کی بنیاد پر ہو۔ ورنہ ان تین ناموں کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔.؟ قرعہ ڈال کر کسی ایک نام کا انتخاب کر لیا جائے یہ کیا بات ہوئی کہ جس کے جو جی میں آئے وہی نام استعمال کرے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، جاپانی ہائیکو کی پابندی خصوصیات میں سب سے اہم اختصار ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ صرف سترہ صوتی اجزاء سے پانچ، سات، پانچ کی ترتیب میں تین مصرعے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ اب اردو شاعری جاپانی یا انگریزی شاعری سے مختلف ہے۔ وہاں سلیبل یا صوتی اجزاء کے ذریعے Scanningکی جاتی ہے اور یہاں سبب اور وتد کے ذریعے ارکان بنا کر تقطیع ہوتی ہے۔۔۔۔ تو پھر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ سبب یا وتد کو ہائیکو کے لئے بھی بنیاد بنایا جائے ۔
ذاتی طور پر میرا بھی خیال میں اردو ہائیکو کے لئے بھی یہی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔۔۔۔ یعنی سب سے پہلے تو یہ کہ تین مصرعے ہوں اور دوسری بات یہ کہ5 7 5 کی ترتیب کا خیال رکھا جائے۔ یعنی پہلے مصرعے میں پانچ ہم وزن ٹکڑے دوسرے میں سات اور تیسرے میں پانچ ٹکڑے استعمال کئے جائیں۔ یہ ہم وزن ٹکڑے سبب خفیف یا وتد مجموع کے ہو سکتے ہیں۔ البتہ قافیہ اور ردیف کی قید کو ضروری نہ رکھا جائے۔۔۔۔ کیوں کہ جاپانی میں بھی یہ قید نہیں ہے۔ ویسے اگر مزید حسن پیدا کرنے کے لئے پہلے اور تیسرے مصرعے ہم قافیہ ہوں تو اور بھی بہتر ہو گا۔
سوال 3- اردو میں نعت گوئی کی پختہ روایت موجود ہے۔ تبصرہ کر ہیں۔
جواب
نعت گوئی میں نہ صرف زبان دیکھی جاتی ہے اور نہ بیان پر نظر جاتی ہے، نہ فنی نکات تلاش کئے جاتے ہیں ۔ اس کی روح صرف اخلاص اور محبت رسولؐ ہے۔ اگر بات دل سے نکلی ہے تو دلوں پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور بارگاہِ رسالت مآب میں وہ نذرانہ عقیدت اور محبت قبول ہوجائے تو اشعار کو حیات جاویدانی نصیب ہوجاتی ہے
نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی تعریف و توصیف کے ہیں لیکن عربی ،فارسی،اردو اور مسلمانوں کی دوسری زبانوں میں لفظ نعت صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف اور مدح کے لئے مخصوص ہوگیا ہے۔اب جب بھی ہم نعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ پارۂ شاعری ہے جس میں سرور کونین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات کی توصیف و مدح کی گئی ہو۔
نعت کے لئے کوئی مخصوص ہیئت مقرر نہیں ہے۔یہ کسی بھی صنف سخن کی ہیئت میں لکھی جا سکتی ہے۔یہ صنف سخن قصیدہ اور مثنوی بھی ہوسکتی ہے ۔غزل،قطعہ،رباعی یا کوئی اور صنف سخن بھی ہوسکتی ہے۔
نبی کریم کی ذات و صفات کے منظوم اظہار کا نام نعت ضرور ہے اور بادی النظر میں بہت آسان بھی ہے لیکن حقیقتاً یہ مشکل اور نازک ہے۔ سہل اس اعتبار سے کہ سرکار دوعالم سے خلوص و محبت کے نتیجے میں ہونے والے جذبات و احساسات کو شاعر کسی بھی صنف شاعری میں نظم کرسکتا ہے لیکن نازک اور مشکل اس لحاظ سے ہے کہ شاعر کو تخلیقی عمل کی تکمیل تک بہت محتاط رہنا پڑتا ہے کیوں کہ خالق کائنات کی حمد و ثنا ہو یا مدحت رسول ،دونوں اصناف سخن مسلمانوں کے نزدیک عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
نعت گوئی کا آغاز سب سے پہلے عربی زبان میں ہوا اور عربی سے اس کا رواج فارسی ،اردواور دیگر دوسری زبانوں میں ہوا۔دیگر اصناف شاعری میں بحر و اوزان کے مختلف ضحافوں میں لفظوں کے دروبست سے کام چل جاتا ہے لیکن نعت واحد موضوع ہے جو اپنے دامن پر ذرہ برابر دھبہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔سخنوروں کو دوران تخلیق دماغ کی ساری چولیں ہلانا پڑتی ہیں۔ ان کی ذرا سی بے احتیاطی تمام ریاض و کاوش کا خون کرسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو کی نعتیہ شاعری کو ہر دور میں حسان بن ثابت،خاقانی،فردوسی،سعدی،نظامی،قدسی،عرفی،جامی اور رومی جیسے عظیم المرتبت شاعروں کی تلاش رہی ہے کہ انھوں نے سرکار دوعالم کی عقیدت و محبت میں جنم لینے والے پاکیزہ خیالات و افکار کو تخلیقی عمل کی تکمیل تک معبود و عبد ،وحدانیت و عبودیت ،خلاقیت،بشریت اور فطرت و نفسیات آدمیت میں فرق، توازن، رتبے اور مقام کا ہر لحظہ خیال رکھا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں سماجی زندگی میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ -ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی )
اردو شاعری کے تقریباً تمام ادوار میں شعرا نے نعت کو موضوع فکر بنایا۔غزل کی ہیئت ہو یا نظم کی کوئی بھی خارجی شکل،نعت کا موضوع اپنے مکمل خد و خال کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔تاہم ایسی نعتوں کی اردو شاعری میں ہمیشہ کمی رہی جن میں خالق و مخلوق ،آقا و بندے کے مرتبے اور درجے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اظہار عقیدت کیا گیاہو۔گویا اس امر کا بہت کم خیال رکھا گیا ہے کہ نعت اور حمد کی حدود ایک نہ ہونے پائیں۔اس افراط و تفریط کا ایک سبب تو یہ ہے کہ نعت گو حضرات کا ایک محدود حلقہ جو نعت کے فن سے اصلاح معاشرہ کا کام لینے کا قائل ہے،سرکار دوعالم کی سیرت نگاری پر اپنے نعتیہ کلام کی عمارت استوار رکھتا ہے اور دوسرے طبقے کی اکثریت سراپا نگاری کو فن کی بنیاد بنائے ہوئے ہے۔اس طرح نعت نگاروں کے امور ذہنیہ واردات قلبیہ کی بہت سی سمتیں اور الگ الگ جہتیں ،بیک وقت ہمارے تجربات و مشاہدات کا حصہ بن جاتی ہیں۔
جہاں تک نعت گوئی سے معاشرہ کی اصلاح ،تہذیب معاشرت،سماجی برائیوں کے انسداد،عظمت انسانیت کا فروغ اور اشاعت و تبلیغ دین کا کام لینے کا تعلق ہے ،اس بارے میں اردو نعت نگاروں کا وہ طبقہ قابل صد تحسین بھی ہے اور قابل پزیرائی بھی ،جن کی مذہبی و دینی موضوعات پر مشتمل فکری کاوشیں بالخصوص نعتیں مذکورہ بالا افادی تقاضوں کی مکمل طور پر آئینہ دار ہیں اور جو سردار انبیاء کے اسوۂ حسنہ اور سیرت طیبہ کو اپنی نعتیہ شاعری کا بنیاد ی مو ضوع بنائے ہوئے ہیں۔نعتیہ شاعری ،مذہبی شاعری کے اولیات میں شامل ہے جس کا تعلق دینی احساس ،عشق رسول اور صدق و اخلاص سے ہے۔قرآن و حدیث ،مضامین نعت کے بنیادی مآخذ ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ نے’’خلق محمدی‘‘ کی تعریف میں ’’خلقہ القرآن ‘‘ کہہ کر پوری آسمانی کتاب کو نعت کے موضوع سے متعلق کر دیا۔
نعت گوئی اردو شاعری کی اعلیٰ ترین قدروں میں شمار ہوتی ہے۔اس کا تعلق چونکہ اس ذات اقدس سے ہے جس ذات اقدس نے صدیوں کی تاریک دنیا کو انسانیت اور تہذیب کے سورج کا اجالا بانٹا جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے : ’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔‘‘ نعت گوئی یوں تو بہت آسان لگتی ہے لیکن غور سے جسم و دل وا کرکے دیکھئے تو بہت مشکل کام ہے ۔چونکہ شاعر کو نعت کہتے وقت اس کا پاس و لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے کہ آداب شریعت بھی اس کے ہاتھ سے نہ چھوٹیں اور آداب عشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کے دل و دماغ مامور ہوں۔
دیگر زبانوں کی طرح اردو شاعری کو بھی نعت گوئی میں ممتاز مقام حاصل ہے اور اردو شعرا ء نے اس صنف میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔بقول مولانا سید ابو الحسن علی ندوی :
’’نعت گوئی عشق رسول اور شوق مدینہ ہندوستانی شعراء کا محبوب موضوع رہاہے اور فارسی شاعری کے بعد سب سے بہتر اور سب سے موثر نعتیں اردو ہی میں ملتی ہیں۔‘‘ (سید ابو الحسن علی ندوی، کاروان مدینہ،مجلس تحقیقات ونشریات اسلام،ندوہ لکھنؤ؛ صفحہ: ۱۷۶)
نعت گوئی میں نہ صرف زبان دیکھی جاتی ہے اور نہ بیان پر نظر جاتی ہے ،نہ فنی نکات تلاش کئے جاتے ہیں ،اس کی روح صرف اخلاص اور محبت رسول ہے۔اگر بات دل سے نکلی ہے تو دلوں پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور بارگاہ رسالت مآب میں وہ نذرانۂ عقیدت اور محبت قبول ہوجائے تو اشعار کو حیات جاویدانی نصیب ہوجاتی ہے جیسے فارسی میں سعدی، شیرازی، عبد الرحمٰن جامی،محمد جان قدسی وغیرہ کی بعض نعتیں اس کی شہادت دے رہی ہیں۔
نعت کو عام طور پر دیگر اصناف سخن ( مثلاً حمد،منقبت اور مدح وغیرہ) کے ہم معنی خیال کیا جاتا ہے ۔جہاں لغوی طور پر ان کے مطالب میں اختلاف پایاجاتا ہے وہیں نعت کو (ماسوائے حمد) ان سب اصناف پر برتری حاصل ہے۔نعت کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کے ذریعے سے اللہ کی رضا حاصل کرنا اور اشاعت دین کا کام لینا ہے۔بقول ارشاد شاکر اعوان : ’’ نعت کا مقصود اصلی ثنائے رسول کے حوالے سے محاسن دین کا بیان (نشر و اشاعت) اور تقرب الٰہی کا حصول ہے۔‘‘ (ارشاد شاکر اعوان،عہد رسالت میں نعت،صفحہ ۲۳)
نعت گوئی کا اولین محرک مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ آنحضرت کا ذکر کرنا،آپ کی سیرت و شخصیت سے عوام کو روشناس کرانا،آپ کی پیروی و تقلید کی ترغیب دینا اور آپ پر درود وسلام بھیجنا کار ثواب اور ذریعۂ نجات ہے۔ مسلمان چھٹی صدی عیسوی میں اپنے انقلاب آفریں عقائد کے ساتھ عرب کی سرزمین سے نکل کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوئے اور توحید و رسالت کا آفاقی پیغام دیتے رہے۔عربی فارسی اور دیگر زبانوں کا شاید ہی کوئی مسلمان شاعر ایسا ہو جس نے نعت کی صورت میں حضور سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار نہ کیا ہوبلکہ اکثر غیر مسلم شعرا نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔نعتوں کا جتنا بڑا ذخیرہ عربی فارسی اور اردو میں موجود ہے وہ کسی اور زبان میں نظر نہیں آتا۔یہ بات بھی اہم ہے کہ نعت کا لفظ شاعری کی کسی مخصوص ہیئت کی طرف نہیں بلکہ موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یعنی شاعری کی ہئیتوں مثلاً غزل ،قصیدہ، مثنوی،رباعی،قطعہ ،مسدس،مخمس،نظم آزاد،نظم معریٰ،سانیٹ،ہائیکو اور دوہے وغیرہ میں نعتیں کہنے کی سعادت ہمارے شعرا نے حاصل کی ہے۔
جہاں تک روایتی نعتیہ شاعری کے موضوعات کا تعلق ہے ان میں آنحضرت کی حیات طیبہ اورسیرت کے توسط سے انسانی زندگی کے تمام اخلاقی،مذہبی،تہذیبی،معاشرتی،معاشی اور سیاسی مباحث بھی شامل کئے گئے ہیں۔حضور کے حلیۂ اقدس ،معجزات،واقعہ معراج کے ساتھ ساتھ آپ کے فضائل،سیرت،معمولات،عبادات،آداب مجالس اوردیگر اوصاف حسنہ،غرض آپ کی حیات کے ہر پہلو پر بڑی عقیدت و محبت سے معمور ہوکر قلم اٹھایا گیا ہے۔
نعت گوئی کا سفر عرب سے ایران اور پھر ہندوستان تک پہنچا۔حضرت امیر خسرو،حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز، قلی قطب شاہ،ولی دکنی،سراج اورنگ آبادی،امیر مینائی اور محسن کاکوروی سے لیکر الطاف حسین حالی ، علامہ اقبال،احمد رضا خان بریلوی،مولانا ظفر علی خان،محمد علی جوہر،حفیظ جالندھری اور ماہر القادری تک نے نعت نگاری میں نئے نئے مضامین کا اضافہ کیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں سب سے پہلے جس نے زبان کھولی وہ آنحضرت کے مربی و محسن عم نامدار ابو طالب ہیں۔سیرت النبی میں ابن ہشام نے ایک قصیدہ کے سات شعر نقل کئے ہیں جس میں ابوطالب نے پرجوش اشعار میں نبی کریم کی مدح کی اور اپنے خاندان (بنو ہاشم) کی خصوصیات کا ذکر کیا۔اردو عربی کے ممتاز ادیب و ناقد اور دارالعلوم ندوہ العلما کے سابق معتمد التعلیم مولانا عبد اللہ عباس ندوی نے اپنی کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام‘‘ میں دنیائے ادب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ ابوطالب وہ پہلے شخص ہیں جن کی زبان مبارکہ سے سب سے پہلے آپ کے لئے مدحیہ اشعار نکلے۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی سے نعت گوئی کا رواج شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور پھیلتا چلا گیا۔پہلے نعت گو شاعر آنحضرت کے صحابی ،حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔اسی سلسلے میں ایک اور نام کعب بن زھیر کا ہے جنھوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیااور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں نعتیہ قصیدہ پیش کیا۔عربی نعت گوئی میں ایک بہت اہم اور ممتاز نام ساتویں صدی ہجری کے محمد بن سعید بوصیری کا ہے جن کا ’قصیدہ بردہ‘ ساری دنیائے اسلام میں آج بھی مخصوص محفلوں میں عقیدت و محبت سے سنایا جاتا ہے اور جس کے سیکڑوں تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔نعت گوئی کا یہ سلسلہ آج بھی عربی شاعری میں جاری ہے۔عربی نعت کے زیر اثر فارسی زبان میں بھی نعت گوئی کا آغاز ہوا۔فردوسی کے شاہنامہ میں نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ابو سعید ابو الخیرکی رباعیات میں نعتیہ کلام موجود ہے۔ان کے علاوہ حکیم سنائی،فرید الدین عطار،نظامی،مولانا روم ، سعدی شیرازی ،امیر خسرو،مولانا جامی،عرفی اور قدسی وغیرہ فارسی نعت گو شعرا ہیں۔
امیر خسرو برعظیم ہند و پاک کی وہ عظیم اور زندۂ جاوید شخصیت ہیںجن کا نام ہمارے خون کے ساتھ گردش کر رہا ہے۔ ان کی نعتیں آج بھی محفل حال و قال اور محفل میلاد میں شوق سے سنی جاتی ہیں۔ان کا یہ شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے :
آفاق ہا گردیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام اما تو چیزے دیگری
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
حضرت امیر خسرو کے بعد مولانا جامی ،عرفی اور قدسی کے نام نامی آتے ہیںجن کا کلام آج بھی محفل سماع و میلاد میں سن کر عاشقان رسول اشک بار ہوجاتے ہیں۔حضرت قدسی کی وہ غزل ،جس کا مطلع :
مرحبا سیدی مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہے۔
عربی و فارسی شاعری کی اس عظیم روایت نے اردو نعت گوئی کو بھی شدت سے متاثر کیا اور جب سے اردو شاعری کا آغاز ہوا ،نعتیہ شاعری کسی نہ کسی صورت میں ہمیں ملتی ہے۔نعتیہ اشعار حسن شوقی کے ہاں بھی ملتے ہیں اور قلی قطب شاہ کے ہاں بھی۔ملا وجہی اور نصرتی کے ہاں بھی ملتے ہیںاور ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کے ہاں بھی۔گذشتہ چار پانچ سوسال کے عرصے میں لکھے جانے والے معراج نامے،نور نامے،تولد نامے ،وفات نامے آج بھی کثیر تعداد میں مختلف کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔نعتیہ شاعری سوداؔ و میر دردؔ کے کے ہاں بھی اپنا رنگ دکھاتی اور دلوں کو گرماتی ہے اور نظیرؔ اکبرآبادی اور غالبؔ کے ہاں بھی ۔لیکن وہ شعرا جنھوں نے خصوصیت کے ساتھ نعت گوئی کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ بنایا ان میں کرامت علی خان شہیدی کا نام نعت گوئی کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا ہے :
خدا منھ چوم لیتا ہے شہیدیؔ کس محبت سے
زباں پر میری جس دم نام آتا ہے محمد کا
کم و بیش اسی دور کا ایک اور نام مولوی غلام امام شہید کا ہے۔شہید سراپا عشق تھے اور انھوں نے مختلف اصناف سخن مثلاً قصیدہ،غزل،مثنوی،خمسہ،ترجیع بند میں صرف اور صرف نعتیہ کلام لکھا۔جذب و شوق اور قدرت اظہار نے ان کی شاعری کو پر اثر بنا دیا ہے۔ شہید نے میلاد بھی لکھا تھاجو میلاد شہید کے نام سے آج بھی محفل میلاد میں پڑھا جاتا ہے۔ان کے یہ دو شعر ملاحظہ کریں :
سوال 4- علامہ اقبال نے اردو نظم میں کیا اختراعات کیں ؟ تفصیل تحریر کریں۔
جواب
ڈاکٹر سرمحمد علامہ اقبالؔ اردو کے عظیم فلسفی شاعر ہیں۔ اقبالؔ شاعری نے اردو زبان و ادب میں ایک الگ مقام پیدا کیا ہے اس بات میں دورائے نہیں ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں علامہ اقبالؔ کا بہت بڑا حصّہ رہا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اردو کا شعری ادب علامہ اقبالؔ کے بناا دھورا ہے علامہ اقبالؔ پر جتنی تحقیقات ہوئی ہیں، جتنے سمینار اور کتابیں شائع ہوئی ہیں آج تک اردو کے کسی بھی شاعر یا ادیب پر ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
اردو زبان کے یہ عظیم شاعر پنجاب میں پیدا ہوئے ان کی مادری زبان پنجابی تھی۔ ساری عمر وہ اپنے اہل خاندان اور خاص احباب سے پنجابی میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ جن لوگوں کو پنجابی سمجھ میں نہیں آتی صرف ان لوگوں سے اردو میں گفتگو کرتے تھے۔ اقبالؔ اپنے فلسفیانہ خیالات اور تخلیقی اظہار کے لیے اردو اور فارسی زبان کا استعمال کرتے تھے پنجابی مادری زبان والے اقبالؔ نے اوائل عمر ہی سے اردو اور فارسی دونوں زبانیں سیکھنا شروع کیں اور ان میں درجہ کمال حاصل کیا کہ مذکورہ دونوں زبانوں کے مایہ ناز شاعر اور دانشور کی حیثیت اختیار کر لی۔
پنجاب کی علاقائی اردو کا اپنا ایک مزاج ہے یہاں کے شہری علاقوں میں اردو بہت کچھ بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ پنجابی علاقائی اردو اور معیاری اردو سے بڑی حد تک مختلف ہے اس کے باوجود پنجاب میں نصابی اور تدریسی زبان معیاری اردو رہی ہے۔ یعنی بچّے گھر میں اور دوستوں بلکہ استادوں سے بھی پنجابی میں بات کرتے اور کتابیں پڑھتے تو معیاری اردو کی اور لکھتے تو بھی معاری اردولکھنے کی کوشش کرتے علامہ اقبالؔ بھی اسی ماحول میں پھلے بڑھے تھے اور ان کی ابتدائی تعلیم اردو زبان میں ہوئی تھی اقبالؔ کو نہایت ہی کم عمری سے اردو سے ایک خاص قسم کی محبت اور اس سے شغف ہو گیا تھا چھ سات سال کی عمر میں ان کو اردو زبان میں بچّوں کی کہانیاں پڑھنے اور پڑھ کر سنانے کا شوق پیدا ہوا۔ جب وہ چھٹی جماعت میں پہنچے تو اسکول کی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کر دیا جماعت میں اردو بیت بازی اور اسکول میں تقریری مقابلوں میں شریک ہوتے ہے۔
اردو زبان و ادب اور شاعری کے غیر معمولی شوق نے علامہ اقبالؔ کو ادبی مجلسوں میں شرکت کرنے پر مجبور کر دیا۔ جب وہ آٹھویں جماعت میں پہنچے تو سیالکوٹ کی شعری محفلوں میں شرکت کرنے لگے تھے اس وقت علامہ اقبالؔ کی عمر محض بارہ سال تھی علامہ اقبالؔ کی اس وقت کی اردو شعری تخلیقات دستیاب نہیں ہیں۔ سولہ سال کی عمر میں علامہ اقبالؔ کی پہلی غزل دہلی کے رسالہ’’ زبان‘‘ میں شائع ہوئی اس غزل کے اشعار کچھ اس طرح سے تھے۔
آبِ تیغِ یار تھوڑا سانہ لے کر رکھ دیا
باغ جنت میں خدا نے آبِ کوثر رکھ دیا
آنکھ میں ہے جوشِ اشک اور سینے میں سوزاں ہے دل
یاں سمندر رکھ دیا اورواں سمندر رکھ دیا
سولہ سال کی عمر میں کہی گئی اقبالؔ کی اس غزل میں زبان نہایت صاف ہے۔ اس غزل کے مطالعہ سے اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبالؔ نے اردو شاعری کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اردو ہندوستان بھر میں بحیثیت زبان ہر طرف پھل پھول رہی تھی جنوبی ہند میں مدراس، بنگلور جیسے شہروں میں اردو اپنا سکہ جما رہی تھی۔ اردو زبان کی نشو نما کے اس مرحلے میں علامہ اقبالؔ نے شعر گوئی کا آغاز کیا۔ تاہم غالبؔ کا اثر ان پر بہت نمایاں ہے۔ اقبالؔ کے اردو زبان کے اندازِ بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ابتداہی سے ان کو زبان لکھنؤ کا چسکا تھا۔ اردو زبان کے عظیم الشان شعری سر مائے کے مقابل اپنی بے بضاعتی کا اقبالؔ کو صحیح اندازہ تھا۔ اسی لیے اردو زبان سیکھنے کا اپنا سفر جاری رکھا۔ اقبالؔ اپنا کلام داغؔ جیسے ملک الشعرا کے پاس لاہور سے حیدر آباد بھیجتے رہے اس طرح سے وہ داغؔ کی شاگردی میں داخل ہو گئے۔
لڑکپن ہی سے اقبال کاکلام مختلف رسالوں میں شائع ہونے لگاتھا۔ وہ انیسؔ کی شعری زبان سے بے حد متاثر تھے اقبالؔ کا یہ خیال تھا کہ ’’ میرانیسؔ نے اردو زبان کو حدِ کمال تک پہنچایا‘‘ اردو زبان سے غیر معمولی دلچسپی رکھنے والے اقبالؔ جب ایم۔ اے کے طالب علم تھے اس وقت تک اردو زبان پر خاصہ عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس دور ان غزلوں کے علاوہ اردو میں کئی نظمیں، قطعات، مسدس اور مختصر مثنویاں لکھ چکے تھے۔ ان سب میں ان کی زبان دانی اور ہنر مندی کی کوشش نمایاں تھی اس وقت کے اقبالؔ کے غزلوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبالؔ اردو زبان سیکھنے اور شاعری میں آگے بڑھنے کے لیے کس تند ہی سے لگے تھے اور اس میں وہ آگے بڑھ رہے تھے اور ان کی زبان پر کئی اساتذہ کا اثر ہے اقبال کے اوّلین غزل کا ایک مقطع ملاحظہ فرمائیے
نسیمؔ و تشنہؔ ہی اقبالؔ کچھ نازاں نہیں اس پر
مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغؔ سخن داں کا
۱۹۰۰ ء کے بعد سے اقبالؔ کو فنِ شعر اور اپنی زبان دانی دونوں پر اعتماد حاصل ہو چکا تھا۔ چنانچہ اسی دور سے انھوں نے اپنا کلام ’ بانگ درا‘ میں شامل کیا۔ زبان کے لحاظ سے اقبالؔ کی جو زبان ۱۹۰۰ ء تک بن چکی تھی اب وہی اردو زبان ایک پختہ شکل اختیار کر رہی تھی۔ پنجابی مادری زبان والے علامہ اقبالؔ کے اردو اشعار پر تنقید و اعتراض کرنے والے لوگ بھی تھے پنجابیوں کی ہنسی اڑانے والے اور اقبالؔ کی زبان پر ٹوکنے والوں کو وہ نہایت انکساری کے ساتھ اس کا مدلل جواب دیتے تھے۔ اکتوبر ۱۹۰۲ ء میں شائع کیا گیا رسالہ ’’ مخزن ‘‘ میں علامہ اقبالؔ نے ’ اردو زبان پنجاب میں ‘ ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’ آج کل بعض اخباروں اور رسالوں میں اہل پنجاب کی اردو پر بڑی لے دے ہو رہی ہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس بحث کے فریق زیادہ تر ہمارے نئے تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ادھر ایک صاحب’ تنقید ہم درد‘جو اخلاقی جرأت کی کمی یا کسی نا معلوم مصلحت کے خیال سے اپنے نام کو اس کی نقاب میں پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ناظرؔ و اقبالؔ کے اشعار پر اعتراض کرتے ہوئے پنجابیوں کی ہنسی اڑاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے دوست ’’ تنقید ہم درد‘‘ اس پر مصر ہیں کہ پنجاب میں غلط اردو کے مروج ہونے سے یہی بہتر ہے کہ اس صوبے میں اس زبان کا رواج ہی نہ ہو۔ لیکن نہیں بتاتے کہ غلط اور صحیح کا معیار کیاہے۔ جو زبان بہمہ وجوہ کا مل ہو اور ہر قسم کے ادائے مطالب پر قادر ہو۔ اس کے محاورات و الفاظ کی نسبت تو اس قسم کا معیار خود بخود قائم ہو جات ہے۔ لیکن جو زبان ابھی زبان بن رہی ہے اور جس کے محاورات اور چند جدید ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اختراع کیے جا رہے ہوں اس کے محاورات و غیرہ کی صحت و عدم صحت کا معیار قائم کرنا میری رائے میں محالات میں سے ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ اردو زبان جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں تک محدود تھی مگر چونکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے اس میں بڑھنے کا مادہ تھا۔ اس واسطے اس بولی نے ہندوستان کے دیگر حصوں کو بھی تسخیر کرنا شروع کیا اور کیا تعجب نہیں ہے کہ کبھی تمام ملک ہندوستان اس کے زیر نگیں ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مضمون کا مقصدان اعتراضات کا جواب دینا ہے جو ’ تنقید ہم درد‘ صاحب نے میرے اور ناظرؔ کے اشعار پر کیے ہیں میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحبِ تنقید نے میرے یا میرے دوست حضرت ناظرؔ کے کلام کو اپنی نکتہ چینی کی آماجگاہ بنایا ہے بلکہ میری غرض صرف یہی ہے کہ ایک منصف مزاج پنجابی کی حیثیت سے ان غلطیاں کا ازالہ کروں جو عدم تحقیق کی وجہ سے اہل پنجاب کی اردو کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اقبالؔ کی اردو ذوق وشوق کو مدّ نظر رکھتے ہوئے رسالہ’’ مخزن‘‘ کے ایڈیٹر نے ڈاکٹر وائٹ برجنٹ صاحب کا اردو زبان پر لکھا ہوا مختصرسا انگریزی مضمون ترجمہ کرکے بھیجنے کی درخواست کی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنا انگریزی مضمون اقبالؔ کو تحفت ًدیاتھا۔ ستمبر ۱۹۰۴ ء کے رسالہ ’’ مخزن‘‘ میں علامہ اقبالؔ کا ترجمہ کیا گیا یہ مضمون ’ زبان اردو‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔
۱۹۰۵ ء تا ۱۹۰۸ ء کا دور علامہ اقبالؔ نے یوروپ میں گزارے ۱۹۰۸ ء میں جب اقبالؔ ہندوستان واپس آئے تو اس وقت ان کا میلان زیادہ اردو نظم گوئی کی طرف تھا اور اردو کے شعری سرمائے کے مطالعہ کا سلسلہ جاری تھا۔ غالباً اس وقت انھیں ایک ایسی نظم کہنے کا خیال آیا جسے کہہ کر وہ سارے ہندوستان کو چونکا سکیں چنانچہ انھوں نے اسی سانچے پر اپنی دونوں نظمیں ’شکوہ‘ اور ’ جواب شکوہ‘ لکھیں جنھوں نے ہندوستان بھر میں اردو پڑھنے والوں میں ہل چل مچا دی۔ اس طرح سے اقبالؔ نے اردو کی شعری زبان کو جس مقام پر پہنچایا ہے اس میں اور اردو کی روایتی شاعری میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔
علامہ اقبالؔ کے اس دور میں اردو ہندوستان کی سب سے مقبول اور رابطہء عامہ کی زبان تھی، اب لسانی تعصب کے بوجھ تلے دبائی جا رہی تھی۔ انگریزوں کی طرف سے اردو کے خلاف ہندی کو ہندومذہب کی علامت کے طور پر ترقی دینے کے منصوبے بنائے جا چکے تھے اور اس طرح اردو کے خلاف جو ایک مشترکہ تہذیب کی نشانی تھی ایک سیاسی اور لسانی سازش رچی گئی تھی اور اردو جو ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ میراث تھی اسے دو فرقوں کے درمیان تقسیم کیا جا رہا تھا او یہ بات تحریک آزادی کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ اس پس منظر میں مہاتما گاندھی نے اردو اور ہندی کے مسئلہ کو ہندوستانی کے تصوّر کے ذریعہ حل کرنے کوشش کی علامہ اقبالؔ اتحادِ وطن کی خطر ہی نہیں بلکہ تمام تر لسانی ادراک و شعور کے ساتھ اردو ہندی کے جھگڑے کو نا پسند کرتے تھے اردو اور ہندی کے اس جھگڑ کے بارے میں اقبالؔ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح اشارہ کیا ہے۔
یا با ہم پیار کے جلسے تھے دستور محبت قائم تھا
یا بحث میں اردو ہندی ہے یا قربانی یا جھٹکا ہے
اردو ہندی کے مسئلہ پر علامہ اقبالؔ گاندھی جی کے نظریہ کے مساوی اپنا نظریہ قائم کر چکے تھے اردو ہندی اور قومی زبان کے تعلق سے جو افکار اقبالؔ نے پیش کیے ہیں ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ گاندھی جی کے بر عکس جو اس مسئلہ کو سیاسی نوعیت سے دیکھ رہے تھے، اقبالؔ کی نظر ایک ماہر زبان کی حیثیت سے تھی۔ اقبالؔ اردو کو تعصب کے بنا پر دبائے جانے خلاف تھے سیاست سے اقبالؔ کا رشتہ کمزور سا تھا اور وہ مسلم لیگی تھے اور مسلم لیگ اپنی سیاسی اہمیت کے پس پشت ’’ اردو‘‘ کی بقاء اور اس کی اہمیت کے پیش نظر آواز اٹھا رہی تھی چنانچہ کہ محب وطن شاعر علامہ اقبال’’ سارے جہاں سے اچّھا ہندوستاں ہمارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ کے خالق بھی اس سے پرے نہ تھے۔ لیکن اقبالؔ اردو کے معاملے میں جذباتی نہیں تھے بجائے جوش کے ہوش سے کام لینے کے خواہش مند تھے، اسی لیے انھوں نے نظریہ زبان پر اپنا ایک الگ فلسفہ پیش کیا۔ اقبالؔ نے زبانوں کی اہمیت اور لفظ و معنی کے رشتے کو جس زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے وہ سیاسی نظریہ سے بالکل مختلف تھا۔
اقبالؔ زبان کو اظہار اور بلاغ کا ذریعہ سمجھتے تھے نہ کہ کوئی بت جس کی پرستش کی جائے سردار عبد الرب نشتر کے نام ایک خط میں مورخہ ۱۹؍ اگست ۱۹۲۳ ء زبان کے بارے میں اپنا نظریہ اس طرح پیش کرتے ہیں:
’’ زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطلب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کواب ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔ ‘‘
انجمن ترقی اردو (ہند) سے وابستہ رہنے والے علامہ اقبالؔ ہندوستان کے مختلف صوبوں کے سفر کیے انھوں نے جنوبی ہند کا دورہ بھی کیا۔ اقبالؔ کا جنوبی ہند کا سفر ان کی زندگی کا ایک غیر معمولی سفر تھا۔ اس سفر کی علمی افادیت غیر معمولی تھی۔ مدراس کے اس سفر کے دوران ان انھیں مختلف انجمنوں نے مدعو کیا۔ انجمن ترقی اردو مدراس اور ہندی پر چار سبھا مدراس نے اقبالؔ کے اعزاز میں ایک جلسہ کا اہتمام بھی کیا۔ جلسے میں انجمن ترقی اردو مدراس کے صدر حاجی جلال عبد الکریم صاحب نے اقبالؔ کو خوش آمدید کیا۔ بعد میں انجمن کے اعزازی سیکریٹری جناب عبدالحمید حسن سیٹھ، علامہ اقبالؔ کی خدمت سپاس نامہ پڑھا۔ دیو ناگری رسم الخط میں ہندی پر چار سبھانے علامہ اقبالؔ کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا۔ انجمن ترقی اردو مدراس کے سپاس نامہ سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں :
’’ جناب عالی! ہم اراکین انجمن ترقی اردو مدراس اپنی طرف سے اور نیز مسلمانوں کی طرف سے کمالِ جوش مسرت اور انتہائی جذبات و انبساط اور محبت کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کرتے ہوئے خلوص دل اور انشراحِ صدر سے اس نامر کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آپ کے ورودِ مسعود سے جو ہمارے تاریخی شہر مدراس میں ہوا ہے اس ایک سرے سے دوسرے سرے تک خوشی وخرمی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مدراس کے اردو علم و ادب کی تاریخ میں آج کا دن وہ مبارک دن ہے کہ ہم ایک ایسی اولولعزم ہستی کو مخاطب کر رہے ہیں جو بلحاظ علوم جدیدہ اور علوم قدیمہ ایک بے مثل اور قابلِ رشک ہستی ہے کیوں نہ ہو جب کہ اردو ادب آپ کے نام نامی اور اسم گرامی پر ناز کر رہا ہے اور جب کہ آپ کی فلسفیانہ اور فطری شاعری علم و ادب کے مردہ قالب میں نئی جان ڈال رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے اردو ادب کی آبرو بڑھائی ہے اور اردو شاعری کو ترقی کے زینہ پر چڑھادیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درحقیقت زبان اردو ایک ایسی زبان ہے جس کی بدولت مختلف مقاموں کے لوگوں میں میل ملاپ قائم ہو سکتا ہے اور آپس میں محبت، اتحاد، یک جہتی اور باہمی ہمدردی کے اعلی جوہر پیدا ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
سپاس ناموں کے جواب میں علامہ اقبالؔ کی یاد گار تقریر فلسفہ زبان اور اردو کے بارے میں تھی علامہ اقبال کا یہ تاریخی خطبہ ۶؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو مدراس گو گھلے ہال میں پیش کیا گیا تھا سپاس ناموں کے جواب میں علامہ اقبالؔ کی یاد گار تقریر سے چند اقتباسات درج ذیل ہیں :
’’ جس تلطّف آمیز انداز میں آپ نے اپنے ایڈریس میں میری خدمات کا ذکر فرمایا ہے اس کے لیے آپ حضرات کا دل سے ممنون ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرات ! مجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ آپ اردو زبان کی اشاعت و ترقی کے لیے سرگرم سعی ہیں اور آؔپ کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ زبانِ اردو کو فروغ دیے بغیر جنوبی ہند کی سوشیل، تعلیمی وتمدّنی مشکلات حل نہیں ہو سکتیں۔ مگر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ زبان کا مسئلہ ایک ٹیڑھا مسئلہ ہے، زبان احساس زندگی کی معنوی حقیقت کی مظہر ہے۔ جس طرح زندگی میں پیہم کشمکش ہے، اسی طرح انسانی خیالات و افکار میں ہر گھڑی کشمکش کا سلسلہ جاری ہے۔ زبان ہماری زندگی کی معنویت کی عکسی تصویر ہے الفاظ کو دیکھیے تراکیب پر غور فرمائیے۔ کئی الفاظ متروک ہو جاتے ہیں ان کی جگہ نئے الفاظ مروّج ہو جاتے ہیں، ہر زندہ زبان میں الفاظ تراکیب کی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ زندگی کی پوری تصویر الفاظ کی کشمکش میں موجود ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عربی خاص قسم کی زبان ہے اور ان زبانوں میں سے ہے جس کو Syntheticزبانیں کہتے ہیں۔ اسی طرح سنسکرت بھی Syntheticزبان ہے ان زبانوں میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر نئے الفاظ وضع کر لیتی ہے اور نئی تراکیب پیدا کر لیتی ہے اردو زبان نئے خیالات و افکار کی خاطر تراکیب و اصطلاحات عربی سے مستعارلیتی ہے اس لیے خود اردو Syntheticزبان نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی زبان کو قومی زبان اختیار کرنے سے پہلے یہ سوچنا پڑیگا کہ زبان کا انحصار کن باتوں پرہے۔ جنوبی ہند کے لیے اس امر پر سوچنا اور بھی ضروری ہے کیوں کہ آپ کے یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اردو زبان ہندوستان میں اب ترقی کی اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ اس میں موجودہ زمانے کے علوم کا بہت ساذ خیرہ جمع ہو گیا ہے۔
میں اراکین ہندی پر چار سبھا کا بھی ممنوں ہوں کہ انھوں نے مجھے ایڈریس دیا ہے۔ ان کا ایڈریس سن کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حقیقت میں انھیں مجھ کو علیحدہ ایڈریس دینے کی ضرورت نہ تھی خود ان کا ایڈریس اس بات کا ثبوت ہے کہ ارد اور ہندی میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں ایڈریسوں کی زبان دیکھنے میں تو ان زبانوں میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھتا اور تاریخی اعتبار سے بھی دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں اردو زبان میں مرورِ زمانہ سے کچھ الفاظ داخل ہو گئے ہیں مسلمانوں نے قدرتاً عربی اور فارسی زبان کو اردو میں داخل کیا اسی طرح ہندوعالموں نے سنسکرت کے الفاظ کو۔ اردو زبان میں نہ عربی کے غیر مانوس الفاظ کو شامل کرنا چاہیے اور نہ سنسکرت کے غیر مانوس الفاظ کو ہندی میں شامل کرنا چاہیے سیدھی سادی زبان لکھنی چاہیے۔ اردو اورہندی کا جھگڑا محض تعصب اور تنگ دلی کا نتیجہ ہے ہاں رسم الخط کی بات اور ہے۔ ہندی پرمحض رسم الخط کی وجہ سے زور دینا ٹھیک نہیں اور نہ رسم الخط کا معاملہ اتنا تکلیف دہ ہے رسم الخط لکھنے کے طریق کا نام ہے ایسی بحثیں غیر ضروری اور اس لیے بھی کہ نہ مسلمان عربی رسم الخط کو کوئی ایک دوسرے پر رسم الخط کو جبراً عاید نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر نیت میں اخلاص ہے تو کیا عربی رسم الخط، کیا ہندی رسم الخط کیا شمالی ہند اور کیا جنوبی ہند میں اپنے دوستوں سے کیوں کہا کہ وہ ہندوستان کی اصلی مشکلات پر غور کریں۔ اگر ہندوستان زندہ قوموں میں شمار ہونا چاہتا ہے تو اسے ایک زندہ وسعت پذیر زبان پیدا کرنا ہوگی مجھے مسرت ہے کہ یہاں اردو والوں اور ہندی والوں میں باہم اتفاق ہے اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی اختلاف کی وجہ بھی نہیں۔ ‘‘
اقبالؔ نے اپنی تقریر میں زبان اور قومی زبان کے مسئلے پر وضاحت کے ساتھ اظہار کیا۔ اقبالؔ اردو کو ہندوستان کی سب سے بڑی رابطہ کی زبان کہا ہے اردواور ہندوستانی اقبالؔ کے یہاں مترادفات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں اور وہ جنوبی ہندوستان کی سماجی، تعلیمی اور تمدنی مشکلات کا واحد اردو ہی کو سمجھتے تھے۔
مدراس کے دورے کے بعد علامہ اقبالؔ شہر بنگلور کی طرف روانہ ہوئے۔ اردو کی ترقی و ترویج میں ہندوستان کے مختلف شہروں کا حصّہ بہت ہی اہم رہا ہے۔ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ جنوب میں اردو کی ترقی و ترویج میں شہر بنگلور کا بہت ہی اہم رول رہا ہے ۹؍ مئی ۱۹۱۲ء کو قائم شدہ مسلم لائبریری نے اردو کے لیے بے حد خدمت انجام دیں ہیں ۴؍ جنوری ۱۹۲۸ ء کو اس لائبریری کا الحاق انجمن ترقی اردو اور نگ آباد سے ہوا۔ یعنی زیر اہتمام مسلم لائبریری انجمن ترقی اردو کی ایک شاخ بنگلور میں قائم ہوئی علامہ اقبالؔ کی بنگلور تشریف آوری اسی مسلم لائبریری میں ہوئی۔
۹؍ جنوری ۱۹۲۹ ء کو بنگلور کا دورہ کرنے والے شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبالؔ کی خدمت میں اراکین مسلم لائبریری و انجمن ترقی اردو بنگلور کی جانب سے سپاس نامہ پیش کیا گیا جس کے چند اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں۔
’’جناب عالی ! ہم راکین مسلم لائبریری اور انجمن ترقی اردو بنگلور نہایت اخلاص سے آپ کی اس تشریف آوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہاں اس خوشی میں کل مسلمانان بنگلور شامل ہیں۔ آنجناب جس شہر میں تشریف فرماہیں اس کا دوسرا نام ’دارالسرور‘ ہے جو ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے یہ وہ شہر ہے جو علماء ادباء شعراء کا مخزن رہا ہے غدر دہلی کے بعد ہندوستان میں جو دو تین اردو اخبار نکلے ان میں بنگلور کا ایک اخبار بھی شامل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جناب عالی ! بنگلور بلکہ کل ریاست میسور کے مسلمانوں کی مادری زبان اردو ہے جو ہندوستان بھر کے قومی زبان کہلائے جانے کی مستحق ہے اس وقت اردو میں وسعت و ترقی کی گنجائش کا کسی کو انکار نہ ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شمالی ہند کے اکثر حصّوں میں ہند اور مسلم کی یہ مرعوب زبان رہی ہے، اردو کے چاہنے والے اقبالؔ ونیرنگؔ کے ساتھ طالبؔ وسرورؔ کو نہیں بھول سکتے لیکن افسوس ہے کہ چنددن سے ایک کڑی کو جو تمام اقوام ہند کو متحیرر رکھنے کی اہلیت رکھتی ہے توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے کہیں ’ ہندی‘ کو ’ اردو ‘ کا مترادف بتایا جا رہا ہے۔
بنگلور کے گلوب تھیڑ اوپیراہاؤز میں منعقدہ جلسے میں امین الملک مرزا اسماعیل صاحب بالقاب دیوان ریاست میسور کے زیر صدارت اراکین مسلم لائبریری و انجمن ترقی اردو نے سپاس نامہ پیش کیا تھا۔ اس جلسہ میں علامہ اقبالؔ نے اپنی جوابی تقریر میں اردو زبان کی اہمیت اور ترقی کو مدنظر رکھتے ہو کہا کہ:
’’جنوبی ہندکے سفر میں مجھے اس امر کا اندازہ ہو چکا ہے کہ یہاں اردو زبان کی وسعت اور اس کے استحکام کے لیے ایک احساس پیدا ہو چکا ہے۔ آپ کو یہ بات بخوبی معلوم کر لینی چاہیے کہ قومی ترقی کا دارومدارقوم کی وسعت زبان پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے لیے اردو زبان نہایت ضروری ہے مسلمانوں کے نقطہء خیال سے اردو زبا ن ہی ایک عالم گیر زبان ہے جس میں مغربی کتابوں کا کثرت کے ساتھ ترجمہ ہو چکا ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس میں وسعت کی کوشش نہیں کی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مذہبی اور دینی باتوں سے پوری طرح محروم ہو جائیں گے۔ زبان کیا ہے وہ خیالات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے زبان ہی کے ذریعے بولنے والے کی روحانی حالت کا اندازہ ہوتا ہے اگر زبان درست نہ ہوگی تو اس کے خیالات بھی اچھے نہ ہوں گے اس لیے ہمیں اس کی کوشش کرنا چاہیے کہ اردو زبان کی بخوبی ترقی ہو جائے اور مسلمانوں کو اس پر اچھی طرح عبور حاصل ہو جائے مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ یہاں مسلمان اس خیال سے غافل نہیں ہیں۔ ‘‘
علامہ اقبالؔ کی اپنی زبان اردو نہ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اردو کی گہرائی میں جاکر اس زبان کی چاشنی حاصل کرلی۔ اقبالؔ نے تمام ہندوستانیوں پر اردو سیکھنے کے لیے زور ڈالا ۱۹۲۹ ء میں انھوں نے اردو کی تدریس کے لیے ’ اردو کورس‘ کے نام سے پانچویں تا آٹھویں جماعت تک کے لیے درسی کتابیں بھی مرتب کیں جسے پنجاب ٹکسٹ بک کمیٹی کی ’ اردو ادب کمیٹی‘ کے لیے شائع کیا تھا۔ گویا کہ ہر لحاظ سے علامہ اقبالؔ اردو کی آبیاری کی جو کہ ہندوستان کی اپنی میراث ہے۔
اقبالؔ نے اپنے ہم وطنوں سے پنجابی اور اردو میں گفتگو کرنا پسند کرتے تھے۔ اگر کوئی ہم وطن مسلسل انگریزی میں گفتگو کرتے تو اقبالؔ اسے ناپسند کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دو کشمیری نوجوان ان سے ملنے کے لیے آئے۔ دونوں انگریزی میں گفتگو کرنے لگے کچھ دیر علامہ نے انھیں برداشت کیا اور پھر اردو میں بات کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہم اردو نہیں جانتے ہیں اس پر اقبالؔ نے پوچھا کہ آپ کو کشمیری زبان آتی ہے؟ اس کا جواب بھی انھوں نے نفی میں دیا۔ اس پر علامہ کو سخت غصّہ آیا اور علی بخش سے کہا کہ ’’ ان دونوں کو باہر چھوڑ آؤ‘‘ اقبالؔ کے لیے یہ بات نا قابل برداشت تھی کہ کوئی شخص اپنی زبان سے نا واقفیت کا اظہار کرے۔
علامہ اقبالؔ کو ہمیشہ اردو زبان سے عشق کی حد تک لگاؤ رہا ہے زندگی کے آخری ایام میں وہ ایک خادم کی حیثیت سے اردو کی خدمت کرنا اپنا مقدس فرض سمجھتے تھے۔ علامہ اقبالؔ اس بات کے آرز ومند تھے کہ اردو ساری دنیا میں پھیلے انجمن ترقی اردو کے روح رواں مولوی عبد الحق اردو کے مستقبل کے لیے جو جدو جہد کر رہے تھے اقبالؔ اس پر نازاں تھے اور دل کی گہرائیوں سے اس معاملے میں ان کی قدر کرتے تھے مولوی عبد الحق نے اقبالؔ کے کہنے پر ہی انجمن ترقی اردو دفتر حیدر آباد سے دہلی منتقل کیا تھا مولوی عبد الحق نے انھیں دنوں علی گڈھ میں اردو کانفرنس کا اجلاس بلایا تھا۔ علامہ اقبالؔ بھی مدعو کیے گئے تھے اس زمانے میں وہ علیل تھے اور شرکت کرنے کا وعدہ کیا تھا چنانچہ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۳۶ ء کو مولوی عبد الحق کو ارسال کردہ خط میں علامہ اقبالؔ اس طرح سے رقم طراز ہیں :
’’اگر اردو کانفرنسوں کی تاریخوں تک میں سفر کے لائق ہو گیا تو انشا اللہ ضرور حاضر ہوں گا۔ لیکن اگر حاضر نہ بھی ہو سکا تو یقین جانیے کہ اس معاملے میں کلیتہً آپ کے ساتھ ہوں، اگر چہ میں اردو زبان کی بحیثیت زبان خدمت کرنے کی اہمیت نہیں رکھتا تاہم میری عصبیت دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح مولوی عبد الحق صاحب کی قدر کرتے ہوئے ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۳۶ ء میں مولوی صاحب کو ارسال کردہ خط میں علامہ اقبالؔ لکھتے ہیں :
’’ آپ کی تحریر سے ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ اہمیت کے اعتبار سے ہے تحریک اس تحریک سے کسی طرح کم نہیں جس کی ابتدا سر سیّد نے کی تھی۔‘‘
بابائے اردو مولوی عبدالحق کی طرح ہی علامہ اقبالؔ کا بھی اردو کی ترقی و ترویج میں بہت بڑا حصّہ رہا ہے اقبالؔ نے اردو زبان کو جس بلند پر پہچایا وہ اقبالؔ سے قبل کسی شاعر کے بس کی بات نہیں تھی۔ اردو زبان و ادب کیے سرمایہ میں اقبالؔ کے حصّہ کی برابری کو ئی نہیں کر سکتا۔ بے شک اردو زبان میں علامہ اقبالؔ نے نئی روح پھونکی ہے اور یہ زبان ہمیشہ اقبالؔ کی مرہون منت رہے گی۔ اقبالؔ کی بدولت اردو زبان تاقیامت زندہ رہے گی۔
سوال 5–
قیام پاکستان کے بعد اردو نظم نگاری کا حال قلم بند کر یں
جواب
جہاں تک نظم کی ارتقاءکا تعلق ہے تو نظم کی ترقی کا دور 1857ءکے بعد شروع ہوا لیکن اس سے پہلے بھی نظم ہمیں ملتی ہے۔ مثلا جعفر زٹلی اور اور شاہ حاتم وغیرہ کے ہاں موضوعاتی نظمیں ملتی ہیں۔ لیکن ہم جس نظم کی بات کر رہے ہیں اس کا صحیح معنوں میں نمائندہ شاعر نظیر اکبر آباد ی ہے۔ نظیر کا دور غزل کا دور تھا لیکن اُس نے نظم کہنے کو ترجیح دی اور عوام کا نمائندہ شاعر کہلایا۔ اُس نے پہلی دفعہ نظم میں روٹی کپڑ ا اور مکان کی بات کی اور عام شخص کے معاشی مسائل کو شعر میں جگہ دی۔ اُن کے بعد 57 تک کوئی قابل ذکر نام نہیں لیکن 57 کے بعد انگریزی ادب کا اثر ہمارے ادب پر بہت زیادہ پڑا اور اس طرح انجمن پنجاب کے زیر اثر موضوعاتی نظموں کا رواج پڑا۔ آزاد اور حالی جیسے لوگ سامنے آئے نظم کو سرسید تحریک نے مزید آگے بڑھایا لیکن اس نظم کا دائرہ محدود تھا۔ موضوعات لگے بندھے اور ہیئت پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ ہاں اس دور میں ہیئت کے حوالے سے ا سماعیل میرٹھی اور عبدالحلیم شرر نے تجربات کیے لیکن انھیں اتنی زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ اکبر الہ آبادی اور اسماعیل میرٹھی کے ہاں مقصدیت کا سلسلہ چلتا رہا
لیکن علامہ اقبال نے نظم کہہ کر امکانات کو وسیع تر کر دیا اُس نے ہیئت کا تو کوئی تجربہ نہیں کیا لیکن اُس نے نظم کی مدد سے انسان خدا اور کائنات کے مابین رشتہ متعین کرنے کی کوشش کی اور اس طرح اس فلسفے سے نئی راہیں کھلیں انھوں غیر مادی اور مابعد الطبعیاتی سوالات اُٹھائے جس کی وجہ سے نظم میں موضوع کے حوالے سے نئے راستوں کا تعین ہوا۔ اس کے بعد رومانیت پسند وں کے ہاں نظم آئی جن میں اختر شیرانی، جوش ،حفیظ اور عظمت اللہ خان شامل ہیں لیکن وہ اقبال کی نظم کو آگے نہ بڑھا سکے اور محدود اور عمومی سطح کی داخلیت تک نظم کو ان لوگوں نے محدود کر دیا ۔
وسیع تر مفہوم میں نظم سے مراد پوری شاعری ہے۔ لیکن شاعری کے باب میں غزل کے ماسوا تمام اصناف شعر کو نظم کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے مثنوی، قصیدہ، مرثیہ بھی نظم کے دائرے میں آتی ہیں ۔چونکہ ان اصناف کی اپنی علاحدہ شناخت قائم ہے اس لیے ہم انہیں اسی اعتبار سے پہچانتے ہیں ۔ ان اصناف کے علاوہ بھی ہمیں ایسی نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں کسی موضوع پر تسلسل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ ان کا ایک مرکزی خیال بھی ہے۔ یہ نظمیں مختلف ہیئتوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں نظم سے مراد اسی طرز کی شاعری سے ہے۔سب سے پہلے نظم کی یہ نمایاں شکل نظیراکبرآبادی کے یہاں پورے آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔ نظیر نے اردو نظم کو واضح شناخت عطا کی۔
اردو نظم کا ابتدائی دور
اردو نظم نگاری کا ابتدا دکن میں ہوئی۔ مذہبی اور صوفیانہ نظموں کی شکل میں اردو نظم کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ دکن کی بہمنی سلطنت نے اردو ادب کی خاصی پزیرائی کی ۔ عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں نے اردو ادب کے فروغ میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ قلی قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ، ملا وجہی،غواصی، ابنِ نشاطی وغیرہ دکن کے مشہور شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان شاعروں اور ادیبوں کو اس عہد کے حکمرانوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ خود بادشاہ بھی شعر و شاعری کاذوق رکھتے تھے۔ ابتدا میں میں مذہبی اور صوفیانہ نظمیں بیشتر شعرا کی تخلیقات میں مثنوی کی شکل نظر آتی ہیں۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ابتدائی دور کے اہم شاعر ہیں۔ انھوں نے تصوف کے کچھ رسالے اور نظمیں تخلیق کیں۔ ’چکی نامہ‘ ان کی مشہور نظموں میں شمار کی جاتی ہے۔
عادل شاہی عہد میں تصوف مذہبی اور اخلاقی مضامین شاعری میں غالب نظر آتے ہیں۔ برہان الدین جانم کی نظموں میں مذہبی تعلیمات اور تصوف کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ حجت البقا، وصیت الہادی، بشارت الذکر ان کی اہم نظمیں ہیں۔ برہان الدین جانم کے مرید شیخ غلام محمد داول کے یہاں تصوف اور اخلاقی مضامین کی کئی نظمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ چہار شہادت، کشف الانوار اور کشف الوجود میں تصوف کے مسائل بیان کیے ہیں۔
سلطان قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ نے غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی اور نظم میں طبع آزمائی کی۔ ان کے فکر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان کے کلام میں مختلف موضوعات پر نظمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ شب برات، عید، بسنت، برسات، اور حسن و عشق وغیرہ کا بیان بڑے دلکش اندازمیں کیا ہے۔ ان کی یہ نظم دیکھیے:
میری سانولی من کو پیاری دِسے
کہ رنگ روپ میں کونلی ناری دِسے
سہے سب سہیلیاں میں بالی عجب
سر و قد ناری او تاری دِسے
سکیاں میں ڈولے نیہہ بازی سوں جب
او مکھ جوت تھے چندکی خواری دِسے
تو سب میں اتم ناری تج سم نہیں
کوئل تیری بولاں سے ہاری دِسے
تیری چال نیکی سب ہی من کو بھاے
سکیاں میں توں جوںپھل بہاری دِسے
بہوت رنگ سوں آپ رنگیاں کیاں
ولے کاں ترے رنگ کی ناری دِسے
نبی صدقے قطبا پیاری سدا
سہیلیاں میں زیبا تماری دِسے
دکن کے شعرا میں قلی قطب شاہ کی شاعری اپنے موضوعات کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات اور عنوانات عوامی زندگی سے بہت قریب نظرآتے ہیں۔
جب ہم نظم نگاری کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو اس دور کی نظموں میں موضوعات کے لحاظ سے بڑا تنوع نظر آتا ہے۔ مذہبی خیالات، تصوف کے مسائل، حسن و عشق کا بیان، قدرتی مناظر، اور سماجی زندگی کے رسومات، میلے‘ تہوار وغیرہ کو شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس عہد کی دکن کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب اور طرزِ معاشرت کی بھرپور عکاسی نظر آتی ہے۔
شمالی ہند میں نظم نگاری
شمالی ہند میں اردو نظم نگاری کا ابتدا سترہویں صدی میں ہوئی۔ محمد افضل افضل اور جعفر زٹلی کے یہاں اردو نظم کے ابتدائی نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔اس عہد کی ایک اہم تصنیف محمد افضل افضل کی ’بکٹ کہانی، ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔’بکٹ کہانی‘ کوبارہ ماسا کی روایت میں اہم مقام حاصلہے۔ افضل نے ایک عورت کی زبانی اس کے ہجر کی کیفیات کی تصویر کشی موثر انداز میںکی ہے۔ اس نظم میں مکمل تسلسل، اثر آفرینی اور بیان میں روانی موجود ہے۔ نظم کا یہ حصہ دیکھیے:
کریں عشرت پیا سنگ ناریاں سب
میں ہی کانپوں اکیلی ہائے یارب
اجی ملّا مرا ٹک حال دیکھو
پیارے کے ملن کی فال دیکھو
لکھو تصویر چی آوے ہمارا
وگرنہ جائے ہے جیوڑا بچارا
رے سیانو تمھیں ٹونا پڑھواے
پیا کے وصل کی دعوت پڑھواے
ارے گھر آ اگھن میری بجھاوے
اری سکھیو کہاں لگ دکھ کہوں اے
کہ بے جاں ہورہی جاکر خبر سے
کہ نک ہوجا، دوانی کو صبر دے
(بکٹ کہانی)
میرجعفر زٹلی اس عہد کا اہم شاعر ہے۔ جعفر زٹلی اپنے پھکڑپن اور فحش کلامی کی و جہ سے مشہور ہے لیکن انھوں نے اپنے عہد کے حقائق کو ایک مخصوص انداز میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے۔ مغلیہ حکومت کے زوال اور دہلی کی تباہی و بدحالی کی تصویر ان کی شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔ انھوں نے ظالم حاکموں، جا بر حکمرانوں، بے ایمان وزیروں کو ہدفِ ملامت بنایا ہے۔ جعفر زٹلی نے طنزیہ اور ہجویہ شاعری کی ایک روایت قائم کی۔ اس عہد کے زوال اور انحطاط کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس عہد میں نوکری کی صورتِ حال کا بیان دیکھیے:
صاحب عجب بیداد ہے، محنت ہمہ برباد ہے
اے دوستاں فریاد ہے، یہ نوکری کا خطر ہے
ہم نام کیوں اسوار ہیں، روزگار سیں بیزاری ہے
یارو ہمیشہ خوار ہیں، یہ نوکری کا خطر ہے
نوکر فدائی خاں کے، محتاج آدھے نان کے
تابع ہیں بے ایمان کے، یہ نوکری کا خطر ہے
(نوکری)
اٹھارویں صدی میں اردو شاعری کا ایک اہم دور شروع ہوتا ہے۔ نواب صدرالدین محمد خاں فائز اور شاہ ظہورالدین حاتم کے دور میں اردو نظم کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ ان شعرا کے یہاں غزلو ںکے ساتھ مسلسل نظمیں بھی بہت ہیں۔ فائز کے یہاں مختلف عنوانات کی نظمیں ہیں۔
اس عہد کے شعرا میں شاہ ظہورالدین حاتم کا مرثیہ بہت بلند ہے۔ ان کے یہاں کثیر تعداد میں نظمیںموجود ہیں۔ ان کے موضوعات میں بڑی وسعت اور رنگارنگی ہے۔ ان کی نظموںمیں حمد ونعت، حقہ، قہوہ، نیرنگیِ زمانہ، حال دل وغیرہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ سید احتشام حسین فائز اور حاتم کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ایک حقیقت ہے کہ ولی کے ابتدائی دور میں جو نظمیں لکھی گئیں۔ وہ مثنوی کے اندازمیں بیانیہ قصے نہیں ہیں بلکہ مختلف خارجی اور داخلی موضوعات کے شاعرانہ بیان پر حاوی ہیں۔ اگر فائز کے موضوعات زیادہ تر حسن اور اس کے تاثرات سے تعلق رکھتے ہیں تو حاتم فلسفیانہ اور مفکرانہ موضوعات کاانتخاب بھی کرتے ہیں۔ فائز زیادہ تر داخلی اور رومانوی تاثرات کا ذکر کرتے ہیں تو حاتم خارجی حالات اور زندگی پراثر کرنے والے مسائل بھی پیش کرتے ہیں۔ فائز زیادہ تر مثنوی کی ہیئت سے کام لیتے ہیں تو حاتم ان میں بھی تجربے کرتے ہیں چنانچہ انھوں نے مخمس سے بھی کام لیا ہے۔‘‘ (جدید ادب منظر پس منظر: احتشام حسین)
اس عہد میں بعض دوسرے شاعروں کے یہاں بھی نظم کے نمونے ملتے ہیں جس سے ان کی قادرالکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس دورکے بعد اردو شاعری کا وہ دور آتا ہے جسے ہم میر و سودا کا دور کہتے ہیں۔ گوکہ میر و سودا کی حیثیت نظم نگارکی نہیں ہے لیکن ان کی مثنویوں، قطعات، ہجو اور شہر آشوب کو ان کے روایتی مفہوم سے الگ کرکے دیکھیں تو اس عہد کے مسائل اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی کشمکش کاا ندازہ ہوتا ہے۔ میر کی مختصر مثنویاں، مخمس، مسدس اور شکارنامے میں اس عہد کے سیاسی اور معاشرتی انحطاط اور اخلاقی قدروں کے زوال کی تصویر نمایاں نظر آتی ہے۔ ان تخلیقات کو نظم کے زمرے میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ سودا کے شہر آشوب اور ہجو میں نظم کی صفات موجود ہیں۔ سودا کا شہر آشوب اس عہد کا آئینہ ہے۔ سودا نے سیاسی سماجی معاشی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر کشی کی ہے۔ میر و سودا کے یہاں نظم جس صورت میں موجود ہے انھیں نظم کے دائرے میں خارج نہیں کرسکتے۔ یہی دور مرثیہ نگاری کے عروج کا بھی ہے۔ انیس و دبیر کے مرثیے میں بھی نظم نگاری کی خوبیاں موجود ہیں۔ میر ، سودا، انیس و دبیر کے یہاں گرچہ ہماری زندگی اور اس عہد کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے لیکن ان شاعروں کے یہاں خالص نظم نگاری کی طرف رجحان نظر نہیں آتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ان کے یہاں نظم اپنی الگ شناخت قائم نہیں کرتی۔
اس عہد میں نظم کے حوالے سے نظیر اکبرآبادی کا کوئی مدمقابل نظر نہیں آتا۔ نظیر کی شاعری اس عہد کے مجموعی مزاج سے بالکل الگ ایک نئی روایت قائم کرتی ہے۔ نظیراگرچہ غزل کے بھی شاعر تھے لیکن نظم ان کے اظہار کا بہترین ذریعہ بنی۔تنوع اور رنگارنگی کے لحاظ سے نظیر کا کلام آج بھی بے مثال ہے۔ ان کی نظموں کے مطالعہ سے ہم زندگی کے گوناگوں مشاہدات سے دوچار ہوتے ہیں۔ سماجی زندگی کے مختلف پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ رسم و رواج، کھیل کود، تہوا ر، بچپن، جوانی، گرمی، برسات، جاڑا، چرند و پرند، غرضیکہ ہم جس فضاا ور ماحول میں سانس لیتے ہیں اس کی جیتی جاگتی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ نظیر کی نظمیں اس عہد کے زندہ مسائل سے گہرا سروکار رکھتی ہیں۔ معاشی مسائل ہوں یا سماجی اور اخلاقی ہر موضوع پر ان کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے انھوں نے اپنے گرد و پیش زندگی کو جس رنگ میں دیکھا اس پر نظمیں تخلیق کیں چنانچہ ہولی، دیوالی، عید، بسنت، برسات، جاڑا، بچپن، جوانی، بڑھاپا، تل کے للو، بلدیوجی کا میلہ، آٹا، دال پر نظمیں موجود ہیں۔