aiou course code 6509-2 solved assignment autumn 2022

کورس: تدریسات اردو                                                                             سمسٹر خزاں 2022

سطح: ایم اے

 

 

امتحانی مشق نمبر 2

 

 

سوال نمبر 1: ادبی اور غیر ادبی نثر کا موازنہ کریں نیز ادبی نثر کی اصلاح کے لیے تجاویز دیں؟

ادبی اور غیر ادبی تحریروں میں فرق:
ادب کسی بھی زبان کا تحریری سرمایہ ہوتا ہے لیکن ہر تحریر ادب کے زمرے میں نہیں آتی۔ ادب کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، جب تک وہ کسی تحریر میں موجود نہ ہوں۔ ان کو ادب کے دائرۂ کار میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ ابو الاثر حفیظ صدیقی ادبی اور غیر ادبی تحریروں کے چند امتیازات بتاتے ہیں جن کی بدولت ادبی اور غیر ادبی تحریروں میں تفریق کی جا سکتی ہے۔ وہ امتیازات درج ذیل ہیں:
1۔ غیر ادبی تحریروں میں اظہارِ محض مقصود ہوتا ہے جبکہ ادبی تحریروں کو حسنِ اظہار سے بھی دلچسپی ہے۔
2۔ غیر ادبی تحریروں کے برعکس ادبی تحریروں میں مصنف کے اسلوب کے ذریعے اس کی ذات بھی اظہار پاتی ہے۔ اس کے ذریعے ہم جان لیتے ہیں کہ یہ شعر میرؔ کا ہے یا غالبؔ کا، یعنی مصنف کی ذات اس کی تخلیق میں شامل ہوتی ہے۔
3۔ادبی تحریروں کا مواد عام انسانی دلچسپی پر مشتمل ہوتا ہے اور غیر ادبی تحریر کے لئے یہ شرط ضروری نہیں۔ جغرافیے یا سائنس کی کتاب کا دلچسپ ہونا ضروری نہیں۔ لیکن کسی افسانے یا ناول کو دلچسپ ہونا چاہئے۔
4۔ غیر ادبی تحریر کسی ہیئت کی پابند نہیں جبکہ ادبی تحریر کے لئے یہ پابندی ضروری ہے۔
5۔ ادبی تحریر میں مصنف تخیل سے کام لیتا ہے جبکہ غیر ادبی تحریر حقائق پر مشتمل ہوتی ہے۔
6۔ ادبی تحریر میں جذبے کی اہمیت مسلّم ہے۔ جبکہ غیر ادبی تحریر جذبات و احساسات سے بے تعلق ہوتی ہے۔
7۔ ادبی تحریر کا مقصد مسرت بخشی اور حسن آفرینی ہے جبکہ غیر ادبی تحریر میں معلومات کی ترسیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

 

ادب کے تین بنیادی مقاصد ہیں:
1۔ پہلا مقصد جمالیاتی مسرت بہم پہنچانا۔
2۔ جمالیاتی مسرت کے ساتھ ساتھ حیات و کائنات اور فرد کی ذات کے بارے میں ایسی آگہی بخشنا جس سے اس کے قلب و ذہن کو جلا ملے۔
3۔ قارئین کو کوئی خاص طرزِ عمل یا زاویۂ نظر اختیار کرنے کی ترغیب دینا۔​

 

بہرحال جس تحریر میں احساس، جذبے، تاثر اور تخیل کی کارفرمائی کے ساتھ ساتھ اسلوب کی خوبصورتی بھی موجود ہو تو ایسی تحریر ادب کے زمرے میں آئے گی۔​

 

 

سوال نمبر 2: اپنی پسند کی نظم منتخب کیجیئے اور اس کی تدریس کے مراحل کی وضاحت کے لیے مرحلہ وار سبق خاکہ تحریر کیجیئے؟

تدریسی اصولوں کا موثراستعمال:۔تدریس ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ ایک فن ہے۔ پیشہ وارانہ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے لئے استاد کا فن تدریس کے اصول و ضوابط سے کم حقہ واقف ہوناضروری ہے۔ ایک باکمال استاد موضوع کو معیاری انداز میں طلبہ کے ذہنی اور نفسیاتی تقاضوں کے عین مطابق پیش کرنے کے فن سے آگاہ ہوتا ہے۔ معیاری اور نفسیاتی انداز میں نفس مضمون کو پیش کر نا ہی تدریس ہے۔ موثر تدریس کے لئے ،کسی بھی موضوع کی تدریس سیقبل، استاد کا موضوع سے متعلق اپنی سابقہ معلومات کا تشفی بخش اعادہ ا ور جائزہ بے حد ضروری ہے۔ سابقہ معلومات کے اعادہ و جائزہ کے علاوہ موضوع سے متعلق جدید تحقیقات و رجحانات سے لیس ہوکر اساتذہ اپنی شخصیت کو باکمال اور تدریس کو بااثر بنا سکتے ہیں۔ موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کا تدریسی مقاصد سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعے اساتذہ مقاصد تعلیم کی جانب کامیاب پیش رفت کر سکتے ہیں۔ موثر تدریس اورتعلیمی مقاصد کے حصول میں تدریسی اصول نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔تدریسی اصولوں سے اساتذہ کیوں، کب اور کیسے پڑھانے کا فن سیکھتے ہیں۔تدریسیاصولوں کا علم اساتذہ کو تدریسی لائحہ عمل کی ترتیب اور منظم منصوبہ بندی کا عادی بناتا ہے۔کیوں، کب ، اورکیسے پڑھا نے کااصو ل اساتذہ کی مسلسل رہنمائی کے علاوہ تدریسی باریکیوں کی جانکاری بھی فراہم کرتا ہے ۔ تدریسی اصولو ں پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ موثر اور عملی تدریس کو ممکن بناسکتے ہیں۔تدریسی اصول بامقصد تدریس،نئے تعلیمی رجحانات ، تجزیہ و تنقید، مطالعہ و مشاہدہ ،شعور اور دلچسپی کو فروغ دیتے ہیں۔ تدریسی اصولوں پر قائم تعلیمی نظام نتیجہ خیز اور ثمر آورثابت ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پرکاربند استا د معلم سے زیادہ، ایک رہنما اور رہبرکے فرائض انجام دیتاہے۔ جدید تعلیمینظریات کی روشنی میں استاد ایک مدرس اور معلم ہی نہیں بلکہ ایک رہبر اور رہنما بھی ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے عدم آگہی کی وجہ سے ہم اس نظریہ تعلیم کو جدیدیت سے تعبیر کر رہے ہیں جب کہ یہ ایک قدیم اسلامی تعلیمی نظریہ ہے جہا ں استاد کو معلومات کی منتقلی کے ایک وسیلے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک مونس مشفق مربی رہنما اور رہبر کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ تدریسی اصولوں سے باخبر استاد بنیادی تدریسی و نفسیاتی اصولوں کی یکجائی سے تعلیم و اکتساب کو طلبہ مرکوز بنادیتا ہے۔ذیل میں اہمیت کے حامل چند نمایاں تدریسی اصولوں کو بیان کیا جارہاہے ۔
(1) ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کیئے بغیر موثر تدریس کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میلان ترغیب و تحریک کے مرہون منت جاگزیں ہوتاہے۔ حصول علم، پائیدار اکتساب اور علم سے کسب فیض حاصل کرنے کے لئے طلبہمیں دلچسپی اور تحریک پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔فعال و ثمر آور اکتساب ترغیب و تحریک کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔تدریس میں ہر مقام پر طلبہ میں محرکہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بغیر محرکہ پیدا کیئے کامیاب اکتساب ممکن ہی نہیں ہے۔اکتسابی دلچسپیوں کی برقراری کے لئے محرکہ بہت اہم ہے۔محرکہ کی وجہ سے طلبہ میں اکتساب کی تمنا انگڑائی لیتی ہے۔
(2)درس و تدریس استاد اور طالب علم پر مبنی ایک دوطرفہ عمل ہے۔موثر تدریس اور کامیاب اکتساب کے لئے تعلیمی عمل میں استاد اور شاگرد دونوں کی سرگرم شرکت لازمی تصور کی جاتی ہے۔تعلیمی سرگرمیوں کے بغیر تدریسی عمل بے کیف اور عدم دلچسپ بن جاتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی نمو ،فروغ اور برقراری میں تعلیمی سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کامیاب اکتساب اور موثر تدریس میں محرکہ کے بعد سب سے نمایاں مقام سرگرمیوں پر مبنی تدریس و اکتساب (Activity Based Teaching)کو حاصل ہے۔ سرگرمیوں پر مبنیتدریس طلبہ میں تعلیم سے دلچسپی ،شوق و ذوق پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔سرگرمیوں کے زیر اثر طلبہ میں نصابی مہارتیں فروغ پانے لگتی ہیں۔سرگرمیوں کے زیر اثر انجام پانے والی تدریس اور اکتساب موثر اور پائیدار واقع ہوتے ہیں۔سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ میں عملی اکتساب (Practical Learning)فروغ پاتی ہے۔تدریسی اصولوں میں سرگرمیوں پر مبنی تدریس کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لئے اساتذہ اپنی تدریس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے سرگرمیوں(activities)کو اپنی تدریس کا لازمی جزو بنا لیں۔
(3)دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا طریقہ تدریس کہتے ہیں۔تدریسی طریقہ کار معلومات کی منتقلی اورطلبہ میں علم سے محبت و دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔تدریس دراصل معلومات کی منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو پیدا کرنے کا نام ہے۔ طلبہ میں علم کا ذوق و شو ق اگر پیدا کردیا جائے تب اپنی منزلیں وہ خود تلاش کرلیتے ہیں۔ایک کامیاب استاد اپنے طریقہ تدریس سے طلبہ میں معلومات کی منتقلی سے زیادہ شوق و ذوق کی بیداری کو اہمیت دیتا ہے۔وہ تدریسی حکمت عملی اور طریقہ کار کامیاب کہلاتا ہے جو بچوں میں اکتساب کی دلچسپی کو برقرار رکھے ۔اساتذہ طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی برقراری کے لئے تدریسی معاون اشیاء(چارٹ،نقشے،خاکے،تصاویر،قصے ،کہانیوں،دلچسپ مکالموں اور فقروں) کو اپنی تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔
(4)اختیار کردہ تعلیمی پروگرام اور سرگرمیوں کے پہلے سے طئے شدہ مقاصد ہونے چاہیئے۔ اور ان مقاصد کے حصول کے لئے مناسب لائحہ عمل کے تحت اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مبنی بر مقاصد تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور بامعنی اکتساب میں بہت معاون ہوتی ہیں۔تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی مقاصد سے مربوط ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد کا حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ناممکن ہوجاتے ہیں۔
(5)اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں تدریس کے دوران انھیں ایک بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور یہ توجہ تدریس کا سب سے اہم اصول ہے اور وہ ہے بچہ کی انفرادیت کا احترام ۔بچے کی انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریسی خدمات انجام دینی چاہیئے۔دوران تدریس بچے کی انفرادیت اور اس کے اکتسابی تنوع (Learning Diversities)کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ ہر بچے کی ذہنی صلاحیت ، ذہانت ، جذباتیت، احساس دلچسپی اور ضروریا ت میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو تدریسی فرائض انجام دینا ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تب استاد اور شاگرد میں ایک اٹوٹ وابستگی پیدا ہوجاتی ہے اور کند ذہن سے کند ذہن طالب علم بھی تعلیم میں دلچسپی لینے لگتا ہے ۔طلبہ کی انفرادیت اور اکتسابی تنوع کا خیال رکھنے سے ایک بہت ہی خوش گوار تدریسی اور اکتسابی فضا جنم لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہر بچہ خود کو نہایت اہم اور خاص تصور کرنے لگتا ہے۔ تعلیمی و تدریسی حکمت عملی اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع اور انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں ۔
(6)موثر تدریس ،بہتر اکتساب اور طلبہ میں تخلیقیت اور اختراعی صلاحیتوں کی نمو و فروغ کے لئے اساتذہ تخلیقی اور اختراعی طریقہ ہائے تدریس کو بروئے کار لائیں۔ طلبہ میں ہر قسم کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا ہے اور تخلیقی تدریس اس اہم کام کی تکمیل میٖں ایک اہم عنصر تصور کی جاتی ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے والی تدریسی اقداربامقصد اور ثمر آور اکتساب میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔
(7)سابقہ معلومات کا موجودہ علم سے ارتباط،نامعلوم کو معلوم سے مربوط کرنا،معلومات زندگی کو عملی زندگی سے جوڑنا ہی علم ارتباط (principal of correlation)کہلاتا ہے۔علم ارتباط کو فن تدریس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے جس کی بغیر علم بے مقصد اور فضول شئے بن جاتا ہے۔علم ارتباط کے ذریعہ معلومات ،دانشوری میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور علم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔علم ارتباط کی وجہ سے معلومات(علم ) نہ صرف محفوظ ہوجاتے ہیں بلکہ وقت ضرورت معلومات کو بازیاب (Retention and Retreival)کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
(8)تدریس کو معقول موثر اور طلبہ کے لئے دلچسپ بنانے کے لئے اساتذہ ، بہتر سے بہتر طریقہ تدریس(Teaching methods)،تدریسی حکمت عملی(teaching strategies)،تعلیمی معاون اشیاء (Teadching aids)اور دیگر وسائل کا بر موقع استعمال کرنے میں غایت درجہ کی احتیاط سے کام لیں۔موثر تدریس مناسب طریقہ تدریس کے انتخاب کا دوسرا نام ہے۔ اسی لئے اساتذہ کمرۂ جماعت ،طلبہ کی استعداد، اور ذہنی تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے تدریسی طریقوں کا انتخاب کریں ۔
(9)تعلیم و تدریس کا اہم مقصد طلبہ میں صحت مند اقدار کی منتقلی ،صحت مند رویوں ، عادات کی تشکیل و استحکام،نظم و ضبط(discipline) کا فروغ ،کردار سازی، زندگی میں معاون مہارتوں اور عزت نفس کا فروغ ہے۔وہ تعلیم بامقصد اور کارآمد تصور کی جاتی ہے جو ہر طالب علم کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ایک بامقصد اور کارآمد زندگی کے لئے کو تیار کیا جاتا ہے ۔مذکورہ مقاصد کے پیش نظر درس و تدریس کو طلبہ کی شخصی ترقی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا گیا ہے۔ اساتذہ ایسی تدریسی حکمت عملی اور طریقوں کو بروئے کار لائیں جو طلبہ کی شخصی ترقی اور استحکام کا باعث بنے۔
(10)اعادہ (Recapitulation)اور تعین قدر ،جانچ (Evaluation)کے ذریعے اکتساب کی ترقی اور تدریس کی تاثیر کا پتا چلتا ہے۔ اسی لئے ایسی تدریس کامیاب تصور کی جاتی ہے جس میں طلبہ کی مسلسل جانچ اور اعادہ کی کنجائش فراہم کی جاتی ہے۔ اساتذہ موثر تدریس اور مستحکم اکتساب کے لئے اپنی تدریسی حکمت عملی میں جانچ (تعین قدر) اور اعادہ (Recapitualation)کو لازما جگہ دیں۔مسلسل جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی کی جانچ و پیمائش کو انجام دیتا ہے ۔جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی میں مانع عوامل سے واقف ہوتا ہے۔ جانچ و تعین قدر ہی اساتذہ کو اصلاحی تدریس کے طریقے وضع کرنے میں مددفراہم کرتا ہے۔اساتذہ طلبہ کی جانچ و پیمائش کے بعد اصلاحی تدریس کے ذریعہ اکتسابی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں میں طلبہ کی مسلسل جامع جانچ ،اکتسابی ، اخلاقی اور برتاؤ کی ترقی کے لئے مکمل گنجائش اور مواقع فراہم کریں۔
(11) طلبہ میں خوش گوار اکتساب کے فروغ کے لئے مختلف اوقات اور مراحل میں طلبہ کی نفسیات اور اپنی تدریسی سطح پر اساتذہ کا نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔نفسیاتی اور ذہنی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھ کر اساتذہ طریقہ تدریس کو اپنائیں تاکہ تدریس کو طلبہ مرکوز بنایا جاسکے۔وہ تدریس بہتر مانی جاتی ہے جس میں نفسیاتی عوامل پر توجہمرکوز کی جاتی ہے اور نفساتی تقاضوں کے عین مطابق طریقہ تدریس اور تدریسی حکمت عملی وضع واختیار کی جاتی ہے۔
(12) تدریس عمل کو جدید تکنیکی و تخلیقی نظریات سیہم آہنگ کرتے ہوئیمزید بہتر اورعصری تقاضوں کے عین مطابق بنایا جاسکتا ہے۔اساتذہ نئے تعلیمی رجحانات اور اختراعی و تکنیکی وسائل سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اکتساب کے عمل کو پر کیف ،پائیدار،موثر اور یاد گار عمل بنا سکتے ہیں۔تجربوں اور تجزیات پر مبنی تدریس نہ صرف موثر بلکہ پائیدار بھی ہوتی ہے۔تعلیمی دنیا میں وقوع پذیر تبدیلیوں سے اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ اساتذہ اپنی صلاحیتوں کو عصری تقاضوں کے عین مطابق بناکر طلبہ کو تعلیمی عمل میں مزید فعال اور سرگرم بناسکتے ہیں۔عصری تقاضوں سے نا واقف اساتذہ معلومات میں اضافہ تو کجا طلبہ کی رہی سہی صلاحیتوں کے بے دردانہ قتل کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ایک بہتر استاد تدریس کے اساسی پہلوؤں سے سرموئے انحراف کیئے بغیر نئے تدریسی تجربات و طریقوں کو ایجاد و اختیار کرتا ہے۔
تدریسی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے استاد نہ صرف اپنی تدریسی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے بلکہ معیاری اکتساب کو پروان چڑھانے میں کامیابی بھی حاصل کرتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعہ مشکل اور گنجلک تدریسی مسائل آسان اور سہل ہوجاتے ہیں۔ تدریسی اصول کے ذریعے نہ صرف استاد الجھن اور پریشانی سے محفوظ رہتا ہے بلکہ طلبہ بھی تشکیک اور تشویش سے مامون رہتے ہیں۔استاد کا میکانکی انداز میں سبق پڑھا نا طلبہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ زمانے قدیم سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ طلبہ میں علم حاصل کرنے کے لئے شوق و ذوق بہت ضروری ہے۔ میری نظر میں جس طرح حصول علم کے لئے طلبہ میں شو ق و ذوق ضروری ہے بالکل اسی طرح موثر تدریس کے لئے استا د میں بھی تدریس افعال کی انجام دہی کے لئے شوق و ذوق اور جوش و جذبے کا پا یا جا نا نہایت ضروری ہے۔طالب علم کی ذہنی استعداد کی طرح معلم کی تدریسی لیاقت بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔اکثر و بیشتر طلبہ ہی امتحان اور آزمائش کے نام پر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ بہت ہی کم یا نہیں کے برابر اساتذہ کی تدریسی لیاقت اور استعداد کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ اکتساب کے زوال یاماند پڑھنے پر عموما طلبہ کو لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت کم اساتذہ کی تدریسی لغزشوں کی طرف نگاہ کی جاتی ہے ۔اس حقیقت سے مجھے کوئی انکار نہیں ہے کہ فروغ علم اور اکتساب کے زوال میں طلبہ کی غفلت شامل حال ہے لیکن بد کو بدتر بنانے میں اساتذہ کا بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے۔ اساتذہ کامیاب طلبہ کو جس شان سے اپنی کارکردگی کا نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں اسی طرح ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اکتساب کی ماندگی کے اسباب تلاش کرنے کیعلاوہ اپنے تدریسی طریقہ کارکی خامیوں کا بھی جائزہ لیں۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں مجھے یہ بات کہتے کوئی عار محسوس نہیں ہورہاہے کہ اساتذہ اپنی تدریسی جہالت کی بناء پر بچوں کی صلاحیتوں کا قتل کر رہے ہیں۔حروف کی ترتیب و صوتیات سے واقف فرد استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ استاد طلبہ کے نفسیاتی ،معاشرتی مسائل کا ادراک رکھتا ہے ان کی سابقہ معلومات اور ذہنی صلاحیتوں اور استعداد کو ملحوظ رکھ کر اپنی تدریسی حکمت عملی وضع کرتا ہے۔بہتر ،کامیاب اور موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے استاد کا لائق ،قابل اور تربیت یافتہ ہونابہت ضروری ہے۔ اساتذہ درس و تدریس کے جدید نظریات اور تکینک سے خود کو آراستہ کرتے ہوئے ایک جہالت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں نمایا ں کردار انجام دے سکتے ہیں۔

 

سوال نمبر 3: مطالعہ اور اس کی تفہیم پر سیر حاصل بحث کریں؟

حصول علم اور فضل و کمال کے مختلف ذرائع ہیں جن میں مطالعہ علم کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔مطالعہ کو روح کی غذا بھی کہا گیا ہے۔قوموں کی ترقی و عروج میں مطالعہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔مطالعہ کی حسین وادیوں سے گزر کر آدمی علم کی عظیم الشان منزل تک پہنچتا ہے۔’’گرچہ پرانا کوٹ پہنولیکن نئی کتاب خریدو‘‘(Wear the Old Coat,Buy the new book)انیسویں صدی کے امریکی ماہر تعلیم آسٹن فلپس (Austin Phelps) کا یہ قول مطالعہ کی اہمیت و افادیت کی بہترین غمازی کرتا ہے۔مطالعہ کے عادی لوگ جہاں روشن خیال ، کشادہ دل ہوتے ہیں وہیں یہ کبھی ذہنی افلاس کا شکار نہیں ہوتے ہیں ،چاہے دنیا کا خزانہ کیوں نہ ختم ہوجائے لیکن ان کی باتوں ،خیالات ،نظریات ،الفاظ و معنی سے خوشبو، لطافت اور بو قلمونی کبھی ختم نہیں ہوپاتی ۔مطالعہ کی عادت اور کتاب سے محبت چھوٹے کو بڑا اور بڑے کو بہت بڑا بنادیتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ فضلا علم و دانش نے کثرت مطالعہ کے ذریعہ علم و تحقیق کے اعلیٰ مرتبوں پر فائز ہوکراپنا لوہا منوایا۔ عصر حاضر میں اقوام مغرب و ہنود کی دنیاوی ترقی میں مطالعہ کا اہم کردار ہے۔ یورپ ،امریکہ میں بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور وسیع وعریض کتب خانے ان کے مطالعاتی ذوق کی گواہی دیتے ہیں۔مطالعہ ایک نہایت مفید مشغلہ ہیجو آدمی کو ضیاع ا وقات سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔مطالعے سے علم میں اضافہ ، فصاحت و بلاغت ،یاداشت میں پختگی،فکر میں بلندی ،وسعت نگاہی ،گہرائی و گیرائی اور معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے۔مطالعے کے شوقین قلم کے ذریعہ قرطاس پر اگنے والی علم کی فصل کو اپنے ذوق مطالعہ سے سیراب کرتے ہیں ۔ نئی نسلوں کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لئے مطالعہ کا عادی بنا نا ضروری ہے کیونکہ جس معاشرے میں مطالعہ کا ذوق و عادت ماند پڑجائے یا ختم ہوجائے وہاں علم بھی ناپید ہوجاتا ہے۔ بچپن میں بوئے گئے عادات کے بیج بلوغت تک پہنچنے پہنچتے مضبوط درخت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔اس لئے بچے جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوجائیں تو بغیر کسی تاخیر و انتظار کے انہیں مطالعے کی جانب راغب و مائل کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ اہم کام والدین،اساتذہ اور اسکول انتظامیہ بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ مطالعہ کی عادت سے بچوں کی زبان و بیان میں نکھار آتا ہے۔الفاظ و معانی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔فکر کی رفتار تیز سے تیز تر ہوجا تی ہے۔تخیل میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔مشکل وقت اور پریشانیوں میں مصائب سے مقابلہ کرنے کا بچوں میں سلیقہ و حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔مطالعے سے صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہونے کے علاوہ طلبہ کے تعلیمی سفر پر بھی اس کے دورس مثبت ومفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آج کسی بھی اسکول کے لئے وافر مقدر میں طلبہ کے مطالعہ کے لئے کتابوں کی فراہمی یقینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔لیکن طلبہ میں ذوق مطالعہ اور مطالعہ کی اہمیت و افادیت کو جاگزیں کئے بغیر کتابوں کی فراہمی بے وقعت ہوجائے گی۔ یہ بات میں بڑی ذمہ داری سے رقم کررہا ہوں کہ صرف کتابوں کے پڑھنے کو مطالعہ نہیں کہتے ، بلکہ مطالعہ وہ ہوتا ہے جس میں قاری خود کو مصنف کے فکری رویوں اس کے بیان کردہ خیالات اور تجربات سے بالکل قریب محسوس کرے ۔موثر مطالعہ نہ صرف قاری کے ذہنی رویوں کو متحرک کرتا ہے بلکہ اسے میدان عمل میں بھی لاکرکھڑا کردیتا ہے۔ طلبہ میں مطالعہ کی عادت کو اس قدر رواج دیا جانا چاہئے کہ وہ کتاب کے کردارکی خیالی تجسیم و تصورسازی کے لائق ہوجائیں ۔تحریرکردہ افکار کو اپنے دماغ کے پردے پر چلتے پھرتے دیکھ پائے۔ ہرحرف کے صوت و معنی جاننے کے علاوہ سطروں میں چھپے عندیہ و مفاہیم تک پہنچ سکے ۔ تحریر کردہ تصورات، افکار ،خیالات و مناظر کو نہ صرف وہ محسوس کرے بلکہ مطالعہ کردہ موضوع پر اسے گفتگو کا ملکہ بھی حاصل ہوجائے۔طلبہ میں مطالعہ کی عادت کو ایسے راسخ کیا جائے کہ جب وہ کسی کتاب یا مضمون کا مطالعہ کریں توان کی نظر اس کے مقاصد ،مفاہیم اور حسن و قبیح پر مسلسل جمی رہے۔ وہ سچائی تک پہنچ سکیں اور جھوٹ کا ابطا ل کرنے کے لائق ہوں۔ مطالعے کے دوران معنیٰ و مفاہیم کو اخذ کرنے کی شعوری کو شش بے حد ضروری ہوتی ہے۔انگریزی کا مشہور ادیب ،مصنف ،فلسفی Aldous Huxleyجس نے قریب پچاس کتابیں لکھی ہیں مطالعہ(پڑھائی) کے متعلق کہتا ہے “Every man who knows how to read has in his power to magnify himself,to multiply the ways in which he exists,to make his life full,significant and interesting.”(ایک آدمی جو یہ جانتا ہے کہ مطالعہ(پڑھائی) کیسے کیا جائے اس کے پاس اپنی ذات کو بہتر واعلیٰ بنانے کی قوت پائی جاتی ہے ۔وہ اپنی زندگی کو نمایاں بامقصد اور پرکیف بنانے کے لئے اپنے گرد و پیش کے ماحول ،راستوں اور امکانات کومزید وسعت دینے کے لائق ہوتا ہے)۔ ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے میں اگر بچوں کی مدد کی جائے تو یہ بات نہایت وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ زندگی میں بہت ہی نمایاں اور بہتر کام انجام دینے کے قابل بن جاتے ہیں۔

موجودہ دور میں مطالعہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ ٹکنالوجی کے غلط استعمال سے صورتحال بہت ابتر ہوچکی ہے۔ضیاع وقت کے لئے ہم جہاں ٹیلی ویژن سے شاکی تھے وہیں اب موبائیل فون اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال نے طلبہ کے وقت اور صلاحیتوں دونوں پر قدغن لگا دی ہے۔اساتذہ بچوں میں کتب بینی کا شوق اور مطالعہ کی عادت کو فروغ دے کر اس صورتحال کو مزید ابتر ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ مطالعہ سے بے رغبتی پر نوحہ کنا ں ہونے کے بجائے اساتذہ طلبہ کو بہتر اور موثر قاری(ریڈر) بنانے کی کوشش کریں۔اسکولوں میں مطالعہ کے ماحول کو فروغ دیں تاکہ علم و حکمت کے سوکھے سوتے پھر سے بہنے لگیں۔ اپنی حکمت و دانائی سے طلبہ اور کتاب میں اٹوٹ تعلقپیدا کریں۔بچوں میں روح مطالعہ و نفس مطالعہ تک رسائی کی صلاحیت پیدا کریں تاکہ کتابیں ان کے لئے سود مندوکارآمد بن جائیں۔مطالعہ حصول کاایک اہم ذریعہ ہے اورعلمی رسوخ وپختگی کے حصول میں اسے شرط اول قرار دیا گیا ہے۔ اساتذہ حصول علم کے اس موثر و کارآمد وسیلے کی اہمیت کو اپنی سعی و کاوشوں سے پامال نہ ہونے دیں۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں والدین اور اساتذہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بچے فطری طورپر وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے اساتذہ اور والدین کو کرتے دیکھتے ہیں۔اساتذہ اپنے مطالعہ سے طلبہ کے ذوق مطالعہ کو جلا بخشیں۔ اپنے مطالعہ کی مہارتوں اور تکنیک کے فروغ سے بچوں میں مطالعہ کی صلاحیت کوپروان چڑھائیں تاکہ وہ بغیر کسی دشواری اور منظم طریقے سے شوق و ذوق سے مطالعے میں مگن ہو سکیں۔ مطالعے سے جب لطف و حظ حاصل ہوتو مطالعہ کی عادت راسخ ہوجاتی ہے۔ طلبہ کو مطالعے سے لطف اٹھانے کی تکنیک سے آراستہ کرتے ہوئے اساتذہ بچوں میں مطالعہ کی پائیدار عادت کو استوار کرسکتے ہیں۔

 

سوال نمبر 4: تدریس اردو میں منصوبے کی نوعیت اور منصوبی طریقے کے فوائد اور خامیاں بیان کریں؟

سباق کی منصوبہ بندی (Lesson Planning) تدریسی عمل کو مؤثر بناتی ہے اور اس کے ذریعے اساتذہ کرام اپنے وقت کو بہترین انداز میں استعمال کرسکتے ہیں اور کم سے کم وقت میں کمرۂ جماعت میں زیادہ سے زیادہ کام کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ تدریسی عمل کو طلبہ و طالبات کے لیے زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور خوشگوار بنایا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اُن کی آموزش Learning کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور طلبہ و طالبات سبق کو مؤثر انداز میں ذہن نشین کرلیتے ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ اگر ہم مؤثر منصوبہ بندی کے ساتھ تدریسی عمل کو شروع کریں اور اسی حکمتِ عملی کے ساتھ اس کو انجام دیں گے تو ہمارے طلبہ و طالبات سبق کو رٹنے کے بجائے اس کو سمجھ کر پڑھیں گے اور ’’رٹو طوطے ‘‘بننے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنا کام مکمل کریں گے اور یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تا عمر اُن کے کام آئے گی۔

اسباق کی منصوبہ بندی محض اپنے ذہن میں کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو تحریری طور پرموجود ہونا چاہئے ، تحریری منصوبہ بندی کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ معلم (Teacher) اپنے ہدف کے مطابق اپنے سبق کو ختم کرے گا اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرے گا ، جب کہ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کسی وجہ سے معلم اسکول حاضر نہیں ہوسکا تو صدرِ مدرسہ (Principal) جب متبادل استاد کو بھیجیں گے تو وہ استاد منصوبہ بندی کے مطابق طلباء کو وہ کام کرادیں گے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ دوسرا استاد شائد سبق کو اس طرح نہ پرھا سکے جیسا کہ آپ نے سوچا تھا لیکن کم از کم یہ ضرور ہوگا کہ طلباء کا اس دن کا وقت ضائع نہ ہوگا۔

سبق کی منصوبہ بندی کے لیے درجِ ذیل نکات ضروری ہیں جن کی وضاحت ذیل میں دی گئی ہے۔

خاکہ: سب سے پہلے منصوبہ بندی کا خاکہ بنائیے کہ آپ کی جماعت کون سی ہے؟ کتنے طلبہ ہیں؟ کو ن سا مضمون ہے؟ عنوان؟دورانیہ ؟مثلاً
جماعت: پنجم مضمون : اردو (نثر ) تعداد طلبہ:

عنوان: درختوں نے کہا دورانیہ (وقت ) : ۵ دروس (5 پیریڈ ) معلم اپنی سہولت کے مطابق دورانیہ کم یا زیادہ کم کرسکتے ہیں۔

مقاصد ِتدریس: مقاصد وہ ہوتے ہیں کہ آپ اس سبق کے ذریعے طلبہ کو کیا سکھانا چاہتے ہیں؟ یا آپ کے خیال میں اس سبق کی تدریس کے بعد طلبہ میں کس قسم کی صلاحیت پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ ۔ مقاصد تدریس دو قسم کے ہوتے ہیں (۱) عمومی (۲) خصوصی

عمومی مقاصد: طلبہ کی پڑھائی کی استعداد کار کو بہتر بنایا۔(۲) طلباء کے تلفظ (Pronunciation ) کو درست کرنا(۳) طلبہ کو نئے الفاظ سے روشناس کرانا

خصوصی مقاصد: اس سبق کی تدریس کے بعد انشاء اﷲ طلباء اس قابل ہوسکیں گے کہ وہ
(۱) سبق کا خلاصہ تحریر کرسکیں گے۔
(۲) کسی بھی موضوع پر کم از کم پندرہ جملوں پر مشتمل آپ بیتی لکھ سکیں ۔
(۳) سبق کے نئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کرسکیں گے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ مقاصد تدریس قابل جانچ Measurable اور واضح ہونے چاہییں ۔ مبہم اور غیر واضح مقاصد کی صورت میں سبق کی منصوبہ بندی بھی متاثر ہوگی اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہ ہوسکیں گے۔
طریقہ تدریس: (۱) ذہنی آمادگی (۲) بلند خوانی (۳) تفہیمی سوالات (۴) نئے الفاظ کے معنی (۵) سرگرمیاں (۶) سبق کا خلاصہ (۷) تفویضِ کار (HOME WORK )

جب آپ منصوبہ بندی کا خاکہ بنا لیتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو ایک ایک حصے کی منصوبہ بندی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اب آپ ہر حصے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں کہ یہ کام کیسے کیا جائے گا۔

مؤثر ذہنی آمادگی: (Effective Motivation)
سبق کی تدریس کے لیے مؤثرذہنی آمادگی ازحد ضروری ہے۔سبق شروع کرنے سے پہلے طلبہ و طالبات میں اس کے لیے تجسس پیدا کرنا تاکہ وہ سبق میں بھرپور دلچسپی لیں اور سبق کو بوجھ سمجھ کر نہیں بلکہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پڑھیں گے ۔ جب طلبہ سبق میں بھر پور دلچسپی لیں گے تو استاد کا باقی کام آسان ہوجاتاہے۔ یاد رکھیئے جب طلبہ و طالبات سبق میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے پڑھیں گے تو وہ مشکل سے مشکل سرگرمی بھی بہ آسانی کرسکیں گے ، اس کے برعکس جب ان کی سبق میں دلچسپی نہیں ہوگی تو وہ آسان مشق کو بھی درست طریقے سے نہیں کرسکیں گے۔جب کہ پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ ٔ تربیت بھی یہی تھا کہ آپ ؐ کوئی بھی بات کہنے سے پہلے لوگوں مں اس کے متعلق تجسس پیدا کرتے تھے تاکہ لوگ پوری طرح متوجہ ہوجائیں اور آپؐ کی بات توجہ اور دلچسپی سے سنیں۔

یہاں ہم آمادگی کی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ ( اساتذہ کرام اس کے علاوہ بھی کوئی سرگرمی جس کو وہ مناسب سمجھیں کرسکتے ہیں )

مثال: استاد کمرہ ٔ جماعت میں داخل ہوکر طلبہ/طالبات کو مخاطب کرکے یہ دریافت کریں گے کہ دنیا میں کون کون سی گیسیں پائی جاتی ہیں؟ طلبہ اس کا جواب دیں گے ۔ پھر استاد دوسرا سوال پوچھیں گے کہ ہم سانس لینے میں کون سی گیس استعمال کرتے ہیں اور کون سی گیس خارج کرتے ہیں؟ طلبہ ان سوالوں کا جواب دیں گے کہ ہم آکسیجن گیس کی مدد سے سانس لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ پھر استاد طلبہ و طالبات کو بتائیں گے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لیے درخت بنائے ہیں جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں اورہماری خدمت کرتے ہیں ، اس کے علاوہ یہ ہمارے ماحول کو بھی بہتر بناتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے درختوں میں ہمارے لیے بے شمار فائدے رکھے ہیں اور اسی بارے میں آج ہم سبق ’’درختوں نے کہا‘‘ پڑھیں گے ۔اس کے علاوہ معاون امدادی اشیاء کے ذریعے بھی ذہنی آمادی کی جاسکتی ہے۔

بلند خوانی (Loud reading)
طلبہ سے بلند خوانی کرائی جائے گی ۔ اس دوران معلم طلباء کی کمزوریوں کو نوٹ کریں گے اور ساتھ ساتھ ان کو الفاظ کا درست تلفظ اور ادائیگی کا طریقہ بھی سمجھاتے رہیں گے۔بلند خوانی میں کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو موقع دیا جائے اس لیے چند جملوں سے زیادہ کسی کو پڑھنے نہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ جو بچے پڑھنے سے کترا رہے ہوں ان کو سامنے لایا جائے تاکہ ان کی جھجک دور ہو اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ایسے بچے ابتداء میں تو شرمائیں گے، گھبرائیں گے اور اٹک اٹک کر پڑھیں گے لیکن معلم کی ذرا سی توجہ سے ان بچوں کی یہ خامیاں دور ہوجائیں گی اور ان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔بلند خوانی کے دوران معلم ہر پیراگراف کے بعد طلباء کو اہم نکات سمجھاتے بھی رہیں گے اور ضرورت کے مطابق ان سے سوالات بھی پوچھتے رہیں گے تاکہ طلبہ یکسانیت کا شکار (Bore) نہ ہوجائیں اور وہ سبق پربھرپور توجہ رکھیں ۔

تفہیمی سوالات:(Relevant Questions)
سبق کی تدریس کے بعد تفہیمی سوالات کی اپنی ایک اہمیت ہے۔جب طلبہ و طالبات سبق پڑھ لیتے ہیں تو اس کے فوراً بعد مؤثر سوالات کے ذریعے سبق کا اعادہ کیا جاتا ہے اور سبق کے اہم نکات کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ویسے تو تدریسی عمل کے دوران سوالات کی تیکنک ایک الگ اورمکمل موضوع ہے لیکن فی الوقت ہم اپنی توجہ صرف منصوبہ بندی پر مبذول رکھتے ہیں۔سوالات اسی وقت اچھے اور مؤثر ہوسکتے ہیں جب معلم پہلے خود سبق کا اچھی طرح مطالعہ کرکے سبق سے متعلق سوالات تیار کریں گے۔یہاں ہم مثال کے طور پرچند سوالات پیش کررہے ہیں۔
(۱) بچے نے خواب میں کیا دیکھا؟ (۲) کیا درخت بالکل نکمے اور بیکار کھڑے ہوتے ہیں؟ (۳) ہمیں صاف ہوا اور آکسیجن کون فراہم کرتا ہے؟ (۴) درختوں سے ہمیں کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں؟ (۵) اگر اﷲ ہمیں درختوں جیسی نعمت عطانہ کرتے تو دنیا کا ماحول کیسا ہوتا؟ (۶) اگر آپ درخت ہوتے تو انسانوں سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے؟ (۷) ہم درختوں کا خیال کس کس طریقے سے رکھ سکتے ہیں؟

ایسے چند سوالات کے ذریعے سبق کا اعادہ (Revision)ہوجائے گااورمعلم کو یہ اندازہ بھی ہوجائے گا کہ بچوں نے ان کے درس کو کس قدر سمجھا ہے اور معلم طلباء تک اپنی بات پہنچانے میں کس حد تک کامیاب رہا ہے۔اگر تدریس میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا کوئی نکتہ وضاحت طلب ہے تو وہ تفہیمی سوالات کے ذریعے سامنے آجائے گا اور معلم فوری طور پر اس کمی یا کمزوری کو پورا کرلیں گے۔ضرورت کے مطابق ایک یا دو تفہیمی سوالات کاپی میں تحریر بھی کرائے جاسکتے ہیں اور ان کو ٹیسٹ یا امتحان میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

نئے الفاظ کے معنی :
تفہیمی سوالات کے بعد سبق میں آنے والے ایسے الفاظ جو کہ طلباء کے لیے نئے ہوں ان کے معنی تختہ سیاہ/سفید (Black/white Board) پر تحریر کرائے جائیں گے۔ اس کے ذریعے طلباء کے ذخیرہ ٔ الفاظ(Vocabulary ) میں اضافہ ہوگا۔ الفاظ معنی لکھوانے کے ساتھ ساتھ طلباء کو لغات (Dictionary) کے استعمال کی ترغیب بھی دی جائے گی اور اس کے لئے طلباء کو یہ ہدفTask) (دیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے علاوہ سبق کے سات یا آٹھ نئے الفاظ کے معنی لکھ کر لائیں۔

سرگرمیاں: (Activities)
سبق کی تدریس کے بعد مختلف سرگرمیوں کے ذریعے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارا جاتا ہے اور طلبہ کھیل کھیل میں سبق کے اہم نکات کو ذہن نشین کرلیتے ہیں۔یہ بھی سبق کے اعادے کا ایک طریقہ ہے۔سرگرمیاں مختلف قسم کی ہوسکتی ہیں مثلاً طلباء سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ درختوں کے فوائد کا ایک چارٹ Mind map بنائیں۔درختوں کے فوائد کارڈ شیٹ پر لکھ کر لائیں اور معلم طلبہ و طالبات کی ان کاوشوں کو کمرہ ٔ جماعت میں نوٹس بورڈ یا کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کریں تاکہ طلباء کو یہ محسوس نہ ہو کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے اور اس عمل سے طلبہ کے اندر مثبت مسابقت کا ایک جذبہ بھی بیدار ہوگا۔درختوں کے فوائد کا سورج بنوایا جاسکتا ہے۔اﷲ کی ایسی دیگر نعمتوں کا چارٹmind map بھی بنوایا جاسکتا ہے۔

 

سوال نمبر 5: خواندگی کی تدریس اور خواندگی کے نئے تصور پر مفصل بحث کریں؟

پاکستان میں شرح خواندگی کی بات کی جائے تو اس حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا تصویر سامنے نہیں آتی کیونکہ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 200 سے زائد ممالک کی فہرست میں 173ویں نمبر پر ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ تعلیم کا حصول عام عوام کی دسترس سے باہر ہو تا جارہاہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد اب چونکہ شعبہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں سنجیدہ کوششیں کرتے ہوئے پرائمری اور ثانوی تعلیم کے حصول کو لازمی بنائیں اور اس حوالے سے سہولتیں فراہم کریں۔

ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں بچے کے گھر اور اسکول کی زبان ایک ہی ہوتی ہے، وہ جو زبان اپنے دوستوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے بولتاہے، اسی زبان میں اسکول میں لکھتا، پڑھتا اور سیکھتا ہے۔ یہ طرز عمل اسے آگے بڑھنے اور خود اعتمادی حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے ، وہ اپنی زبان میں بنا ہچکچاہٹ اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔

وہ پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی بہتر ہوتا ہے اور اپنے علم و تجربہ کو اپنی آئندہ نسل میں منتقل کردیتاہے جبکہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بچے کو مادری زبان کے بجائے انگریزی زبان میں پڑھانے یا سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس ضمن میں یہ بات خوش آئند ہے کہ صوبہ پنجاب میں آئندہ برس سے پرائمری سطح پر صرف اردو زبان کو ذریعہ تعلیم کے لیے اختیار کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو انگریزی کا مضمون سمجھانے کے بجائے اساتذہ کاسار ا وقت اس کا ترجمہ کرنے میں صرف ہو جاتاہے ، اس وجہ سے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت بھی دب جاتی ہے، تاہم ابھی اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ یہ پالیسی ہر چھوٹے بڑے اسکول پر لاگو ہوگی یا اس کا دائرہ کار صرف مخصوص اسکولوں تک محدود ہوگا۔

اگر یہ فیصلہ کامیاب ہوجاتاہے تو پھر اس سلسلے کو بتدریج مڈل، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک بڑھانا ہوگا یہاں تک کہ پیشہ ورانہ سطح پر بھی طلبا کو اردو زبان میں وہ تمام علمی مواد فراہم کرنا ہوگا، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے مثلاً ایک چینی طالب علم اپنی زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے ڈاکٹر یا انجینئر بن جاتا ہے، اسی طرح جرمن، ڈچ، جاپانی یا دیگر زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے پیشہ ورانہ لحاظ سے تعلیم کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔

فِجی (Fiji)میں 3سے5سال تک کے بچوں پر ان کے گھروں اور کمیونٹیز میں تحقیق کی گئی۔ تحقیق کے نتائج میں کہا گیا کہ بچے مختلف میڈیا کے ذریعے اپنے گھروں اور کمیونٹیز میں جو کچھ سیکھتے ہیں، اس کے ان کی خواندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میلبورن انسٹی ٹیوٹ آف اَپلائیڈ اکنامکس اینڈ سوشل ریسرچ کے نتائج بھی اسی سے ملتے جُلتے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ چھوٹے بچوں کو باقاعدگی سے گھر میں کتاب پڑھ کر سُنانے کی عادت انھیں اسکول جانے پر زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اگر ہم تعلیمی نکتہ نگاہ سے دنیا کے دیگر ممالک پر نظر ڈالیں تو ہمیں فن لینڈ آئیڈیل دکھائی دیتاہے۔ اس ملک میں اساتذہ کی تعیناتی کا نظام اتنا دشوار اور مقابلے پر مبنی ہے کہ اگر دس افراد بطور ٹیچر اپنی خدمات دینے کیلئے درخواست دیں تو ان میں سے صرف ایک ہی منتخب ہو کر تدریس کے شعبے میں داخل ہوسکتا ہے۔

ان کے انتخاب کے مرحلےمیں ان کے تعلیمی ریکارڈز کے ساتھ ساتھ ان کی غیرنصابی سرگرمیوں اور دلچسپیوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتاہے ۔ ان کی نہ صرف تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں کو پرکھا جاتاہے بلکہ مخصوص مدت تک ان کوایک کلاس روم میں اپنی صلاحیتوں کا کامیاب اظہار کرنا ہوتا ہے تب کہیں جا کر ان کو معلم یا معلمہ کے طور پر منتخب کیا جاتاہے۔

اس ماڈل کو سامنے رکھیں تو نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ کئی دیگر ممالک میں بھی تدریس کا معیار کسمپرسی کا شکار ہے۔ جب اساتذہ ہی قابل اور لائق نہیں ہوں گے ، تو بچوں کا کیا تعلیم دے پائیں گے اور ایسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے۔

اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کو اسکول کے اندر لانے کی پالیسی اور نئے اسکولوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت اور ان کے انتخاب کے حوالے سے بھی انقلابی اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں خواندگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوسکے۔

 

 

Leave a Reply

Ad Blocker Detected

Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by disabling your ad blocker.

Refresh
Scan the code