aiou course code 6509-1solved assignment autumn 2022

کورس: تدریسات اردو                                                                              سمسٹر خزاں 2022

سطح: ایم ایے

 

 

 

امتحانی مشق نمبر 1

 

 

سوال نمبر 1: اردو تدریسات میں تحقیق کے کردار پر بحث کریں؟

لفظ “تحقیق” عربی زبان کا  مصدر ہے  جس کا مادہ ‘حقّق، یُحَقّقُ،  تَحقیقاً سے  ماخوذ ہے  جو باطل کی ضد ہے۔حق کا مطلب ْثابت کرنا،  ثبوت فراہم کرناہے۔

تحقیق کا کام حال کو بہتر بنانا،  مستقبل کو سنوارنا،  اور ماضی کی تاریکیوں کو روشنی عطا کرنا ہے۔تحقیق کا ایک اہم کام گمشدہ دفینوں کو دریافت کرنا اور ماضی  کی تاریکیوں کو دور کرکے  اسے  روشنی عطا کرنا ہے۔بقول ِ سید عبداللہ:

“تحقیق کے  لغوی معنی کسی شے  کی حقیقت کا اثبات ہے۔اصطلاحاً یہ ایک ایسے  طرز مطالعہ کا نام ہے  جس میں موجود مواد کے  صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔تاریخی تحقیق میں کسی امر واقعہ کے  وقوع کے  امکان و انکار کی چھان بین مد نظر ہوتی ہے۔”)1(

تحقیق ماضی کی گمشدہ کڑیاں دریافت کرتی ہے  اور تاریخی تسلسل کا فریضہ انجام دیتی ہے  اور ادب کو اس کے  ارتقا کی صورت میں مربوط کرتی ہے۔تحقیق موجود مواد کو مرتب  کرتی ہے، اس کا تجزیہ کرتی ہے،  اس پر تنقید کرتی ہے  اور پھر اس سے  ہونے  والے  نتائج سے  آگاہ کرتی ہے۔مالک رام ادبی تحقیق کے  حوالے  سے  رقمطراز ہیں  :

“تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کا مادہ  ‘ح’۔ق۔ق’ جس کے  معنی ہیں کھرے  اور کھوٹے  کی چھان بین یا بات کی تصدیق کرنا۔دوسرے  الفاظ میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے  کہ ہم اپنے  علم و ادب میں کھرے  کو کھوٹے  سے،  مغز کو چھلکے  سے،  حق کو باطل سے  الگ کریں۔ انگریزی لفظ” ریسرچ “کے  بھی یہی معنی اور مقاصد ہیں۔ “(2)

اردو میں خالص ادبی تحقیق کا آغازبیسوی صدی کے  اوائل میں ہوتا ہے۔اس سلسلے  میں مولوی عبدالحق،  حافظ محمود شیروانی،  قاضی عبدالودود،  امتیاز علی عرشی،  وغیرہ بزرگوں نے  اپنی زندگی کا بڑا حصہ اردو زبان و ادب میں صرف کیا اور اردو تحقیق کا معیار بلند کیا۔

بیسویں صدی میں تحقیقی روایت میں توسیع کرنے  والے  ایک اہم بزرگ مولوی عبدالحق ہیں۔ مولوی عبدالحق کو یہ اہمیت حاصل ہے  کہ انہوں نے  تحقیق ِ ادب کو ایک قومی نصب العین کی طرح قبول کیا اور اسے  عمر بھر جاری رکھا۔قدیم دکنی مخطوطوں کی تلاش وصحت ان کے  بنیادی کاموں میں سے  ہیں۔ دکن کے  غیر دریافت ادب کو منظر عام پر لاکر انہوں نے  معلوم ادبی تاریخ کی دنیا کی کایا پلٹ دی۔(3) نو دریافت کتابوں میں ان کے  مبسوط مقدمے ،  حاشیے  اور صحتِ متن سے  مستقبل کی تنقید کی راہ ہموار ہوئی۔”معراج العاشقین”،  “سب رس”،  “قطب مشتری”اور “علی نامہ” وغیرہ اسی سلسلے  کی کتابیں ہیں۔ ان کا مختصر وقیع مقالہ ” اردو کی نشونما میں علمائے  کرام کا کام” بنیادی  مأٔخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اردو میں تحقیق کی باضابطہ ابتدا ء حافظ محمود شیرانی سے  ہوتی ہے۔ وہ پہلے  محقق ہیں جنہوں نے  تحقیق کے  اصول پائیدار بنیادوں پر قائم کیے  اور جدید مغربی اصولوں کو رواج دیا۔انہوں نے  حوالے  درج کرنے  میں ذمہ داری سے  کام لیا اور مختلف مأٔخذ اور ذرائع سے  اخذ ہونے  والی معلومات پر جرح و تعدیل اور احتساب کی صحت مند روایت قائم کی۔ساتھ ہی منطقی اصولوں پر مبنی استدلال اور مغالطوں سے  گریز تحقیق کار کے  لیے ضروری ٹھہرایا۔

“پنجاب میں اردو”،  “تنقید آب حیات”، “تنقید شعرالعجم”  اور ” پرتھوی راج رسوا” جیسی کتابوں کے  علاوہ بیشمار مقالات میں ان کی تحقیقی ژرف نگاہی اور بصیرت کی اعلیٰ ترین مثالیں موجود ہیں۔ داخلی اور خارجی شہادتوں کی یکساں اہمیت دینے  والے  اس اہم محقق کو بجاطور پر تحقیق و تدوین کو معلم اول شمار کرکے  شائع کئے۔

آزادی سے  پہلے  اردو کی اس تحقیقی روایت کو درجہ بالا بزرگوں کے  علاوہ  بعض دیگر علمائے  ادب و تحقیق نے  بھی تقویت پہنچائی اور اپنے  تحقیقی کا رناموں سے  اس کی روایت کو مستحکم کیا۔محی الدین قادری زور، مولوی محمد شفیع،  برج موہن دتاتر کیفی،  شیخ چاند حسن،  حامد حسن قادری،  مولانا امتیاز علی عرشی،  شیخ محمد اکرام،  نصیرالدین ہاشمی،  مالک رام اور مسعود حسین خان رضوی ادیب وغیرہ چند ایسے  ہی نام ہیں جنہوں نے  اپنے  اپنے  دائرہ کار میں تحقیق کی ذمہ داری نبھاتے  ہوئے  زبان  وادب کے  بے  شمار مخفی گوشوں کے  بے  نقاب کیا اور اردو تحقیق کی  ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ان علمائے  ادب  کی تحقیقات کا اندازہ اس بات سے  لگایا جاسکتا ہے  ہے  کہ آزادی سے  قبل کی ربع صدی کو ادبی تحقیق کے  ارتقاء میں زرین دور شمار کیا گیا۔اس عہد میں اردو ادب کی تاریخ میں بعض بنیادی اضافے  ہوئے  اورہمارے  چوٹی کے  محققین نے  اردو تحقیق کو اعتبار بخشا۔ ان میں سے  اکثر محققین کی تحقیق کا دائرہ کار آزادی  کے  بعد تک جاری رہا۔

ڈاکٹر محی الدین قادری زور| نے  ترتیب متن اور مخطوطات شناسی کے  فن کو خاص رواج دیا اور قلمی کتابوں کی فہرست سازی سے  زیادہ مخطوطات کی توضیحات پر توجہ دی۔مخطوطات شناسی ایک مشکل اور دقت طلب فن ہے۔ترقیمے  پڑھنا،  داخلی اور خارجی شواہد سے  نتائج اخذ کرنا اور حوالوں سے  تصنیف اور صاحب تصنیف کے  نام اور عہد کی باذیافت ایسا عمل ہے  جس میں محققانہ ذہن کی کارفرمائی ہوتی ہے۔بقول ِ آفتاب احمد آفاقی :

“زور ؔنے  مغربی ادب و تنقید اور اصول تحقیق سے  استفادہ کیا ہے  اور اردو میں قدیم مخطوطات کی ترتیب و تدوین اور ادباء و شعراء کے  حالات کی بازیافت میں ان اصولوں کو برتا ہے۔”(4)

ڈاکٹر زور کی کتابوں میں  ” اردو شہ پارے ” اور “کلیات قلی کتب شاہ “کی ترتیب بڑی اہم ہیں۔

اردو تحقیق کی دنیا میں قاضی عبدالودود  سب سے  زیادہ محتاط محقق تسلیم کئے  جاتے  ہیں اور ان کے  کاموں کو ‘خالص تحقیق’ کے  زمرے  میں رکھا جاتا ہے بقولِ آفتاب احمد آفاقی :

“واقعہ یہ ہے  کہ اردو تحقیق میں احتیاط پسندی اور مضبوط دلیلوں اور دعوؤں کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرنے  کی روش قاضی صاحب کی تحقیق کا وصفِ خاص ہے۔ان اوصاف کی بناپر گیان چند جین انہیں بت شکن محقق اور رشید حسن خان’معلم ثانی’ کہتے  ہیں۔ “(5)

 

سوال نمبر 2: اسباق کی تیاری کی اہمیت اور تیاری کے تقاضے بیان کریں؟

بچہ استاد کیلئے بذات خودایک ایسا سبق ہے جس کی تیاری اسے ہر لحظہ درکار ہے چہ جائیکہ مقرر کردہ نصاب کے مطابق روزانہ کی تدریس کیلئے سبق کی منصوبہ بندی کرنا۔

تعلم کی مثلث استاد،طالبِ علم اور نصاب پر مشتمل ہے۔ہر جسم اپنے مرکز کی بناءپر متوازن رہتا ہے۔تعلیمی عمل میں بچے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جس کے گرد تدریسی عمل کا پہیہ گھومتا ہے۔

ایسی تدریس جو طالب علم کے رجحانات اور میلانات کے تقاضوں کو پورا کر سکے وہی معاشرتی ارتقاءمیں بھی ممد ہو گی۔جیسا کہ جان ڈیوی کے خیال میں۔”تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے اور معاشرے کے ارتقاءمیں معاون ہے اس لئے تعلیم کو معاشرے سے ہم آہنگ ہونا چاہیے اور تعلم میں معاشرتی رجحانات کی شمولیت از حد ضروری ہے۔”

تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشرتی زندگی بچے کیلئے وہ میدان ہے جہاں اس کو اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرکے معاشرتی اکائیوں میںاپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی اور معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنااس کا مقصد ہوتا ہے۔لہٰذا ایسی تعلیم مفید ہے جو بچے کی معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرے۔

سر سید کے خیال کے مطابق۔”کسی شخص کو تعلیم دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی فطری صلاحیتوں کا تجزیہ کر کے اس کو صحیح راستہ پر ڈالا جائے۔تعلیم دینا درحقیقت کسی چیز کا باہر سے ڈالنا نہیں بلکہ بچے میں کائنات و فطرت کی سمجھ کے ساتھ ساتھ بصارت بھی پیداکرنا ہے اور اسے اس قابل بنانا ہے کہ وہ زندگی میں اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکے۔”

لہٰذا تعلیم کے یہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے تدریس میں سبق کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔استاد کیلئے سبق کا ازبر ہونا سبق کی تیاری تو کہا جا سکتا ہے لیکن ایسا لائحہ عمل اختیار کرناجس کے ذریعے سبق نہ صرف طلبہ کو واضح طور پر سمجھ آجائے اور ذہن نشین ہو جائے بلکہ متعلقہ عنوان کی استعداد بھی پیدا ہو،سبق کی منصوبہ بندی کہلائے گا۔

بارآور تعلم کیلئے سبق کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔سبق کی منصوبہ بندی کی کیا اہمیت اور فوائد ہیں ۔ذیل میں اس کا اجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔

(1)مقصد کا تعین:
سبق کی منصوبہ بندی سے سبق کا مقصد واضح ہو جاتا ہے اور استاد گم گشتہ گلیوں میں گھومنے کی بجائے اپنے ٹریک (Track)پر رہ کر متعین مقاصد کو حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔
اور تدریس کے مقاصد کو حاصل کر لینا ہی کامیاب تعلم کی علامت ہے۔

(2)خود اعتمادی:
سبق کی منصوبہ بندی سے استاد دورانِ تدریس آمدہ تدریسی مشکلات کااندازہ لگا کر ان کا حل تلاش کر لیتا ہے جس سے وہ طلباءکے ا ذہان میں اُٹھنے والے سوالات کا خود اعتمادی سے جواب دے سکتا ہے اور سبق سے متعلقہ ابہام کا بھی ازالہ کر سکتا ہے۔سبق سے متعلقہ امور پر غور و فکر کرتا ہے اور غیر متعلقہ چیزوں سے اجتناب کرتا ہے۔

(3)تدریسی معاونات کی تیاری:
ٓانسان مشاہدے سے بہتر طور پر سیکھتا ہے۔جیسا کہ ارشادِباری ہے” تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بصیرت افروز دلائل آ گئے ہیں اب جس نے آنکھ کھول کر دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا اور جو اندھا بن گیا اس نے اپنا نقصان کیا اور میں تمہارا نگہبان نہیںہوں”(سورہ انعام آیت 104)۔۔۔قرآن نے بھی اسی لئے کائنات میں غورو فکرکی دعوت دی ہے۔سمعی بصری معاونات کا استعمال بچوں کیلئے سیکھنے میں کافی مدد گار ہوتا ہے۔ سبق کی منصوبہ بندی کا یہ فائدہ ہے کہ پیش کیے جانے والے سبق کے لئے سمعی بصری معاونات تیار کر لیتا ہے۔

(4)اسباق میں ربط:
سبق کی منصوبہ بندی سے تدریسی عمل میں تسلسل برقرار رہتا ہے۔کلاس ٹیچر کی غیر موجودگی میںمتبادل استاد آسانی سے سبق پڑھا سکتا ہے۔اور اس طر ح طلباءکے وقت کا ضیاع نہیں ہوتا۔

(5)تخیل اور اختراع:
دیے گئے نصاب کو ہو بہو رَٹا دینے سے تعلیم کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا لہٰذا ضروری ہے کہ نصاب کی حدود میں رہ کربچے میں متعلقہ عنوان کے بارے میں استعداد پیدا کی جائے۔استاد اپنی سوچ کا گھوڑا دوڑا کر نئی سرگرمیاں متعارف کروا سکتا ہے۔تاکہ بچے سبق کو جلدی سمجھ سکیں ۔جائزے کیلئے ایسے سوالات تیار کر سکتا ہے جس سے ان کے فہم کا ادراک ہو۔ سبق کے اہم نکات کی نشاندہی کرسکتا ہے تاکہ بچوں کو سبق کا مقصد سمجھا سکے۔

اساتذہ خودبھی سبق کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں ۔علاوہ ازیں محکمہ تعلیم حکومتِ پنجاب نے پرائمری تک ٹیچر گائیڈز مہیا کی ہیں ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر 3: سننا اور بولنا سکھانے میں سمعی و بصری معاونات کی اہمیت بیان کریں؟

سماعت کا اسلامی نظریہ
قوت سماعت انسان کو اللہ تعالیٰ کی عطاکرد ہ بیش بہا نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت ہے۔ قرآن مجید میں سمع و بصر یعنی سننا اور دیکھنا کا ذکر 19 جگہوں پر کیا گیاہے، جن میں سے 17 مواقع پر سمع کا ذکر بصر سے پہلے آیا ہے ۔غور سے سننے اور سمجھنے کی بات سورہ فرقان میں سختی سے کہی گئی ہے’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔ اگرچہ انسان کو احسن تقویم اور اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے لیکن لاپروائی سے سننے والوں کو جانور قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم سنتے اور سمجھتے نہیں تو اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہماری حیثیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں جانوروں جیسی بلکہ ان سے بھی بدتر ہوگی۔ یہ کیفیت اگرمسلسل رواں رہے تب انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب ہو جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ ہدایت کی کوئی بات نہ سنتے، سمجھتے ہیں اور نہ ہی عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ موثر سماعت اور تعمیر شخصیت کے اصول اور کورسس مغرب نے آج وضع و مرتب کئے ہیں جب کہ مسلمانوں کو یہ تعلیمات قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں چودہ سو سال قبل ہی فراہم کی جاچکی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ مبارک کے ذریعے ہمارے سامنے دنیا کے سب بہترین سامع ہونے کا مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔ احادیث اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے سے بھی ہمیں سماعت کی اہمیت کا پتا چلتا ہے’’ صحابہ کرام مجلس نبوی میں اس طرح بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے ہیں جو ہلنے سے اُڑ جائیں گے۔‘‘لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اچھی سماعت ایک پیغمبرانہ خوبی ہے۔
سماعت کی نفسیاتی تعریف
آواز کو سننے،اس کی درجہ بندی ، تسلسل سے ترتیب دینا،بامعنی اور مہمل آوازوں کے مابین فرق کو سمجھنا اور اس کے معنی و مفہوم کو اخذ کرنا سماعت کہلاتا ہے۔باالفاظ دیگرپیغام کو وصول کرنا،تشریح کرنااور اس پرردعمل پیش کر نا سنناکہلاتا ہے۔سننا ابلاغی و ترسیلی عمل کا ایک اہم جز ہے۔آواز کو محسوس کرنا،پیغام کو اخذکرنا،اس کی تشریح اور اس پر رد عمل کا اظہار سننے کے عمل میں شامل ہے۔ دیگر اکتسابی صلاحیتوں کی طرح بچوں میں سماعت( سننے )کی عادت و مہارت کے سیکھنے کا آغاز بھی گھر سے ہوتا ہے۔اساتذہ اپنی سعی و کاوش سے بہتر اور عمدہ ماحول فراہم کرتے ہوئے نہ صرف اس صلاحیت کو تیزی سے پروان چڑھا سکتے ہیں بلکہ اسکول انتظامیہ کی مدد سے موثر سماعت کی عادات کے فروغ میں مانع عوامل پر قابو بھی پاسکتے ہیں۔بچوں کے لئے اوائل عمری سے ہی سماعت( سننے) کی بہتر تربیت کا اہتمام ضروری ہے۔ اچھی سماعت کی عادت بہتر اکتساب اور موثر گفتگو میں کلیدی کردارادا کرتی ہے۔ گردو پیش میں بکھری وسیع معلومات کے حصول میں اکتساب سے مربوط اہم مہارتوں سے لاعلمی یا سیکھنے میں تساہل اور بے پروائی کی وجہ سے طلبہ اکثر اپنی بہتر صلاحیتوں کو پیش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔بحیثیت استاد جب آپ محتاط طریقوں سے طلبہ کی صلاحیتوں کے فرو غ کے لئے کوشاں ہیں تو لازماًدیگر اہم مہارتوں کے ساتھ آپ انھیں موثر طریقے سے سماعت کی( سننے کی) عادت و مہارت سے بھی متصف کرنا ہوگا۔ اساتذہ اکتسابی سہولتوں،وسائل اور مواقعوں سے استفادہ کرتے ہوئے سماعت(سننے) کی صلاحیت کو نہ صرف صیقل کرسکتے ہیں بلکہ اکتساب اور گفتگو کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ سماعت ایک مہارت ،فن اور ایسی جادوئی عادت ہے جو آدمی کو ہرکام میں سکون، اطمینان،آسودگی اور کامیابی فراہم کرتی ہے۔سماعت کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ولگاریورس(Wilga Rivers) کے ایک قول سے ہوتا ہے’’ جب ہم بات کرتے ہیں تو اسے دومرتبہ سنتے ہیں اگر پڑھتے ہیں تو چار مرتبہ اور لکھتے ہیں تو اسے پانچ مرتبہ سنتے ہیں‘‘۔ولگا ریورس کے قول کی روشنی میں طلبہ کوسمعی مہارتوں کی تدریس کی اشد ضرورت ہے تاکہ موثر اکتساب کویقینی بنایا جاسکے۔اساتذہ اگر سماعت کا مادہ بچوں میں پیدا نہیں کریں گے تب کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان کی تدریس بے اثر، اکتا دینے والی ،بوریت سے لیس ، بے کیف اور ناپسندیدہ ہوکر رہ جائے گی۔سننا(Listening) ،بولنا(Speaking)،پڑھنا(Reading) اور لکھنا (Writing) یعنی (LSRW)تدریس کی چار بنیادی مہارتیں ہیں۔بچہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اسی ماحول کے زیر اثر اس کی سمعی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔بولنا،پڑھنا اور لکھنا جیسی تدریسی بنیادی صلاحیتوں کا انحصار سماعت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
سماعت صرف کانوں کو کھلا رکھنے اور سننے کا نام نہیں بلکہ صحت کے ساتھ سننے اور اس کے مناسب ادراک و فہم کا نام ہے۔بہتر سماعت کی صلاحیت نہ صرف طلبہ کے لئے ضروری ہے بلکہ ایک اچھے انسان،استاد،منتظم،مہتمم اور رہنماکے لئے بھی اسے منظم طریقے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ عموماًلوگ انگریزی کے الفاظ Hearingاور Listeningکو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں مگر ان میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔Hearingکا مطلبہوتا ہے صرف سننا مگر Listeningکا مطلب ہے بات سننے کے ساتھ ساتھ سمجھنا۔ باالفاظ دیگرHearingکامطلب صرف سماعت اورListeningکا مطلب مو ثر سماعت ہے۔موثر سماعت(Listening) عام سماعت(Hearing عام سننے)سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔عام طور پرموثرسماعت(شعوری سماعت،تفہیمی سماعت) اور عام سماعت(غیر شعوری سماعت )ایک دوسرے سے باہم مربوط ہوتی ہیں اور اکثر دونوں کو ایک جیسا ہی تصور کیا جاتا ہے جب کہ دونوں کے درمیان نمایاں طورپر قابل فہم اور لطیف فرق پایا جاتا ہے۔ دماغ تک مختلف ذرائع سے پیدا شدہ آوازں کی قبولیت و ترسیل (Transmission) شعوری و غیر شعوری طور پر لہروں کی شکل میں ہوتی رہتی ہے۔سنناغیر شعوری سماعت(Hearing)کوکہتے ہیں اور جب دماغ شعوری طور پر صداؤں کی شنوائی میں معنی و مقصد شامل کرلیتا ہے تو اسے موثر( شعوری سماعت یاتفہیمی سماعتListening)کہاجاتا ہے۔ہارولڈ جانیس(Harold Janis) کا بیان دونوں سماعتوں کے مابین بہتر تفریق کرتا ہے ’’ موثر یاشعوری سماعت عام سننے کا نام نہیں ہے یہ آوازوں کی قبولیت کی اس سطح کا نام ہے جس میں فہم و ادراک کا کام انجام پاتا ہے اور سامع اورمتکلم دونو ں بھی تبادلہ خیال میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔ (Listening is not merely hearing,it is a state of receptivity that permits understanding of what is heard and grants the listener full partnership in the communication process.Harlod Janis)اسی لئے شعوری طور پر سننا اسے کہتے ہیں جس میں موصول کرد ہ سمعی آوازوں میں مقصد ،مطلب و معنی کا رنگ شامل ہو۔عام سننا موثر و شعوری سماعت میں اس وقت تبدیل ہوجاتا ہے جب اس میں مقصد و معنویت کا پہلو شامل ہوجاتا ہے۔ ماسوابہروں کے سماعت ایک قدرتی صلاحیت ہے لیکن بات ا ور سمعی آوازوں کو سمجھنے کے لئے غور سے سننا ضروری ہوتا ہے۔ سماعت اس وقت موثرہو جاتی ہے جب اس کے اغراض و مقاصد مخصوصں ومعتین ہوں۔ جب کسی گفتگویا بات چیت کامطلب نہ سمجھاجاسکے تب سماعت کا عمل بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔بات چیت کے مفہوم کو سمجھناانسان کی اپنی فہم و فراست پر منحصر ہوتا ہے۔فہم اور سماعت دونوں مہارتوں کا ایک دوسرے پرانحصار ہوتا ہے اسی لئے یہ بہت ضروری ہے کہ بولنے والے کے کلام کو نہ صرف توجہ سے سنا جائے بلکہ اس سے مفہوم بھی اخذ کیا جائے۔مفہوم کا اخذ و حصول، سماعت کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔طلبہ میں باشعور وموثر سماعت کی عادت کے فروغ کے ذریعے دو گراں قدر اوصاف جاگزیں کئے جاسکتے ہیں۔
(1)موثرسماعت طلبہ میں معلومات کے اضافے کے علاوہ زبانی یاداشت (Verbal Memory)کے فروغ میں بھی ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے۔
(2)صحت مند شعوری سماعت انسان میں سلیقہ گفتگو پیدا کرتے ہوئے شخصیت کو چارچاند لگا دیتی ہے۔سلیقہ مند گفتگو کے لئے صحت مند شعوری سماعت بے حد ضروری تصور کی جاتی ہے۔بہتر سماعت سے گفتگو میں سلیقہ اور تاثیر پیدا ہونے کی وجہ سے بین شخصی تعلقات میں بھی بہتری پیدا ہوتی ہے۔
بچوں میں سننے کی ابتدا پیدائش کے بعد ہی ہوجاتی ہے۔ابتدا میں بچوں کا مسکرانا،ہنسنا اور رونا،سننے کے ردعمل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔اسکولی زندگی کے آغاز سے قبل ہی بچے آوازوں جیسے افراد خاندان کی آوازیں،پڑوسیوں کی آوازیں،رشتہ داروں کی آوازیں،فقیروں،راہ گیروں،پھیری والے کاروباری افراد کی آوازیں،دوکاندار،مداری وغیرہ کی آوازیں،مذہبی رسومات جیسے اذان،نماز،تلاوت ،پوجا پاٹ وغیرہ کی آوازوں سے آشنا ہوجاتے ہیں۔حصول علم و اکتساب میں سننے کا عمل اساسی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اسکول کی زندگی سے قبل بچے غیر شعوری طور پر تلفظ اور صوتیات سے واقف ہوجاتے ہیں۔اسکول انہیں فہم و ادراک فراہم کرتا ہے۔سننے کا مطلب کانوں تک پہنچنے والی ہربات نہیں ہے بلکہ صحت و فہم کے ساتھ سننے کو موثر سماعت کہاجاتا ہے۔سماعت زندگی بھر سیکھنے کے عمل اور معنی خیز ابلاغ و معاشرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔گفتگو کے سلیقے اور سماعت کے شعور کے لئے منظم تربیت و رہنمائی درکار ہوتی ہے۔سامع سمعی پیغامات سے مقاصد کا استخراج اپنے سابقہ تجربات ،ذخیرہ علم و فہم اور شرح ارتکازسے کرتا ہے۔سماعت کا عمل ذہنی اعتبار سے تین مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
(1)پیغامات کی ترسیل کرنے والی آوازوں کو وصول کرنا
(2)آواز سے پیداشدہ محرکہ پر توجہ مرکوز کرنا
(3)سمعی محرکہ کو معنویت عطا کرنا

سوال نمبر 4: پستالوزی طریقہ تدریس اور مانٹی سوری طریقہ تدریس کے اہم نکات پر مفصل نوٹ لکھیں؟

آج ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنے بچوں کو مونٹیسوری طریقے کے تحت تعلیم دلوائےلیکن اکثریت نہیں جانتی کہ یہ طریقہء تعلیم کب اورکہاں سے رائج ہوا، اسی لئےآج ہم ڈاکٹر ماریہ مونٹیسوری کی کہانی بیان کرتے ہیںجن کے نام پر یہ طریقہ ءتعلیم دنیا بھر میں رائج ہے۔

ماریہ مونٹیسوری 31 اگست 1870ءکو اٹلی میں پیدا ہوئیں، ان کے والد ایک اکائونٹنٹ جبکہ والدہ تعلیم یافتہ ہونے کےساتھ مطالعہ کی دلدادہ تھیں۔ ماریہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں- جس ملک میں عورت کو گھر کی زینت یا استانی کے علاوہ کسی اور روپ میں ڈھلنے کی اجازت نہیں تھی، وہاں انھوںنے اپنے وقت کے ماحول، نظام، روایات اور سب سے بڑھ کر اپنے والد کی سوچ کے خلاف سب سے بڑا جہاد کیا ۔ انھوں نے 26سال کی عمر میں اٹلی کی پہلی خاتوں ڈاکٹر بن کر دکھایا۔ انھیں ہر قدم پرصنفی بنیادوں پر تعصب اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بھی انہوں نے ہار نہ مانی۔ ڈاکٹر بننے کے بعد انھیں ذہنی طور پرمعذور بچوں کے ادارے میں ملازمت دے دی گئی- جہاں انکی فطرت میں چھپے انسانیت کے جذبے نے انھیں ان معذور بچوں پر تحقیق کی راہ دکھائی- انھوں نے اس وقت تک کے مشہور نفسیاتی معالجوں کی تحقیقات کا مطالعہ کیا اور ان میں سے دو فرانسیسی نفسیات دان، ڈاکٹر ژان اٹارڈ اور ایڈورڈ سیگن کے کام سے بہت متاثر ہوئیں-

ڈاکٹر ژان اٹارڈ ذہنی طور پر معذور ، گونگے اور بہرے بچوں کے معالج تھے، جنھوں نے ایوران (Averon) نامی بچے کے علاج سے شہرت پائی- یہ بچہ کئی سال اکیلا جنگلات میں زندگی گزارتا پایا گیاتھا، اٹارڈ نے اسے انسانی ماحول اور طرز زندگی سکھانے پر کئی سال صرف کیے- ایڈورڈ سیگن نابینا لوگوں اور ذہنی معذور بچوں کے معالج تھے- انہوں نے بچوں کو 11 سے 19اور21 سے 99 تک گنتی سکھانے کے لئے دو بورڈ تخلیق کیے جنھیں ماریہ مونٹیسوری نے اپنے مونٹیسوری مٹیریل میں شامل کر لیا اور جسے آج ایک سو پینتیس سال بعد بھی اسی طریقے سے مونٹیسوری کے تعلیمی نظام میں استعمال کیا جاتا ہے- ڈاکٹر مونٹیسوری کی انتھک اور مسلسل محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذہنی طور پر معذور، نابینا اور گونگے بہرے بچوں کا رزلٹ نارمل بچوں کے برابر آیا، جس سے ان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر معذور بچوں کا ذہنی معیار یہ ہے تو پھر نارمل بچے اس سے بھی زیادہ بہترین نتائج دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے ان منفی عوامل پر تحقیق شروع کی جو نارمل بچوں کی تعلیم و تربیت پر اثر انداز ہو رہے تھے- ان کی تحقیق سے اس وقت بہت اختلاف کیا گیااور با لآخر انھیںاکیلے ہی تحقیق پر کام کرنا پڑا- ماریہ مونٹیسوری دنیا کی واحد خاتون ہیں جنہوں نے بچوں کی سوچ اور مزاج کے مطابق انکی الگ دنیا بنانے کا خیال پیش کیااور اس پر عمل بھی کیا۔ 1907ءمیں37سال کی عمر میں دنیا کے پہلے’’بچوں کے گھر‘‘کی بنیاد رکھی- انہوں نے اٹلی کے ایک بہت ہی پسماندہ علاقے میں، غریب اور مفلوک الحال گھرانوں کے بچوں کے لئے(جن کے ماں باپ دو وقت کی روٹی کے لئے ملازمتیں کرتے اور بچوں کو اکیلا چھوڑ جاتے تھے) بہترین صفائی ستھرائی اور تہذیب یافتہ ماحول فراہم کیا- وہاں بچوں کے نہانے، بال بنانے، صاف کپڑے پہننے اور میز پر ادب سے بیٹھ کر امراء کے بچوں کی طرح کھانا کھانے کے تمام انتظامات موجود تھے- بچوں کو ہر قسم کی آزادی تھی اور کوئی روک ٹوک نہ تھی- انکی قدرتی یا فطرت کے مطابق تعلیم کے لئے ڈاکٹرماریہ مونٹیسوری نے مختلف مٹیریل بھی ترتیب دیے-

مونٹیسوری طریقہء تعلیم کیا ہے ؟

مونٹیسوری طریقہء تعلیم میں ٹیچر بچوں کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھانے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر اور ان میں شامل ہوکر انھیں ایک مرتب کردہ طریقے کے مطابق کھیل اور دیگر مشاغل میں مصروف رکھتا ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ بچوں کو خود حرکت و عمل(ایکٹیویٹی) کا موقع دیا جائے اور انھیں ان کے اپنے ماحول کے مطابق کھیل، کھلونوں اور دیگر معاون اشیاء سے’’سیکھنے‘‘ کا موقع فراہم کیا جائے۔ مونٹیسوری طریقہء تعلیم کے مطابق بچوں کو رٹا نہیں لگوایا جاتابلکہ ان کو ہر چیز ذہن نشین کروائی جاتی ہے۔ ہر چیز کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جاتاہے۔

پہلا سبق: چیز، فعل یا صفت کا نام بتانا اور یاداشت کو قائم کرنا

دوسرا سبق: یاداشت کو دہرانا

تیسرا سبق: یاداشت کو جانچنا

اس طریقۂ کار کی خصوصیات یا احتیاط ذیل میں درج ہیں

1۔ چھوٹے بچے کا ذہن متضاد اشیاء کو جلدی جذب کرتا ہے- اسے جو بھی چیزیں یا صفت متعارف کرائی جائے وہ ایک دوسرے کے برعکس یا متضاد ہوں- مثال کے طور پر سرخ رنگ کے ساتھ گلابی یا نارنجی رنگ سکھانے سے بہتر ہے کہ نیلا یا پیلا رنگ سکھایا جائے- مثال کے طور پر بنگلہ دیش اور جاپان کا جھنڈا ایک جیسے ڈیزائن کا ہے جبکہ پاکستان اور سعودی عرب کے جھنڈوں کے رنگ ایک جیسے ہیں، توبچے کے لئے پاکستان اور جاپان کے جھنڈے کے بارے میں سیکھنا آسان ہوگا کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے رنگ اور ڈیزائن میں فرق رکھتے ہیں-

2۔ شروع میں صرف دو یا تین چیزیں یا خصوصیات متعارف کرائی جائیں-

3۔ ایک وقت میں کسی بھی چیز کی بس ایک ہی معلومات فراہم کی جائے مثلاً چھوٹا اور بڑا، ہلکا اور بھاری، وغیرہ-

4۔ اس طریقۂ کار کے دوسرے سبق کو وہاں سے شروع کریں جہاں پہ پہلا سبق ختم ہوا تھا اور تیسرے سبق کو وہاں سے شروع کریں جہاں دوسرا سبق ختم ہوا تھا- یہ بالکل اسی طرح کا عمل ہے جیسے اگر کوئی چیز کھو جائے تو ڈھونڈنے کا سلسلہ آخری یادداشت سے ہی شروع کیا جاتا ہے-

5۔ ٹیچر اپنے لہجے کو سکھانے کےانداز میں ڈھالے-

6۔ٹیچر کو ضرورت کے مطابق الفاظ اور حرکات کا چناؤ کرنا چاہیے-

 

سوال نمبر 5: صحافتی محضر کی تدریس کو تفصیل سے بیان کریں؟

اگر آپ تحقیقاتی صحافت کرنے بارے طریقہ کار اور رہنما اصول جاننا چاہتے ہیں تو نیچے دی گئی گائیڈز اسی کے متعلق ہیں جن میں دنیا بھر میں ہونیوالی اعلی قسم کی تحقیقاتی صحافت کی مثالیں دی گئی ہیں۔ زیادہ تر مواد مفت میں دستیاب ہے۔

تحقیقاتی صحافت

جدید تحقیقاتی صحافت : اسے مارک لی ہنٹر، لیوک سینجرز اورمارکس لنڈیمن نے لکھا ہے اسکے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ ایسی نصابی کتاب ہے ” جو اس سے آگے کی بات کرتی ہے کہ ‘کیا پڑھایا جائے’ یہ اساتذہ کی اس بارے راہنمائی کرتی ہے کہ کیسے پڑھایا جائے اس ضمن میں طالبعلموں کیطرف سے پوچھے جانیوالے ممکنہ سوالات (اور انکے جوابات) بھی دئیے گئے ہیں اور ساتھ میں کلاس کے دوران کرائی جانے والی مشقیں اور گھر کیلئے کام بارے مواد بھی دیا ہوا ہے اس سارے عمل کا مقصد انکی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنا ہے” ان مصنفین نے پہلے حاصل معلومات کی بنیاد پر تحقیقات بارے بھی ایک کتاب لکھی ہے

اس بارے مصنفین کیطرف سے 2019 کی بین الاقوامی کانفرنس برائے تحقیقاتی صحافت میں پیش کئے گئے کام کی سلائیڈیں بھی دیکھ سکتے ہیں

کتابچہ برائے تحقیقاتی صحافت: اس کارآمد مسودے کا آغاز افریقی صحافیوں کے لئے ایک دستی گائیڈ کے طور پر ہوا تھا جو ایک جرمن فاؤنڈیشن کونراڈ اڈناؤر اسٹیفنگ نے شائع کیا تھا اس کا تازہ ترین ایڈیشن دُنیا بھر کے صحافیوں لئے تیار کیا گیا ہے بالخصوص انکے لئے جن کا واسطہ میڈیا کے سخت قوانین، عدم شفافیت اور محدود وسائل سے ہے

اصل مسئلے کی تہہ تک کیسے پہنچا جائے؟ اس بارے بالکان کے خطے میں کام کرنیوالے صحافیوں کی راہنمائی کیلئے ایک گائیڈ برائے فروخت دستیاب ہے اس میں بالکان کے نیٹ ورک برائے تحقیقاتی صحافت نے یہ گائیڈ تیار کرتے ہوئے اس بات پر خصوصی توجہ دی ہے کہ خطے کے مختلف ممالک میں کام کرنے والے رپورٹروں کی اس بارے بالخصوص راہنمائی کی جائے کہ مطلوبہ ریکارڈ اور ڈیٹا تک رسائی کو کیسے ممکن بنایا جائے

کولمبیا یونیورسٹی (نیو یارک) کے اسٹیبائل سنٹر برائے تحقیقاتی صحافت کی ڈائریکٹر اور مذکورہ بالا گائیڈ کی مصنف شیلا کورونیل نے تحقیقاتی رپورٹنگ کے متعلق اہم باتیں شئیر کی ہیں
پہلا باب مفت میں پڑھنے کو دستیاب ہے آپ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں

ڈری بوچ ڈیر ریچارے (تحقیقات کے لئے خاکہ): اسے مارک لی ہنٹر اور لوؤک سینجرز نے تحریر کیا اور جرمن زُبان میں نیٹزورک ریچری نے شائع کیا۔

سچ کو بے نقاب کرنا: البانیہ میں تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے والوں کیلئے گائیڈ
73 صفحات پر مشتمل اس کتابچے میں تحقیقاتی صحافت کی بہترین مثالوں کے علاوہ آزمودہ طریقہ کار بارے بتایا گیا ہے اسے او ایس سی ای اور بالکان کے نیٹ ورک برائے تحقیقاتی رپورٹنگ نیٹ ورک نے البانی اور انگریزی زبان میں شائع کیا ہے

لیوک سینجرز اور مارک لی ہنٹر کی 2019 کی کتاب، ’’پوشیدہ منظر نامہ‘‘ اس بات پر توجہ مرکوز کرتی ہے کہ کس طرح منظر نامہ بنانے سے آپ کو تفتیش میں مدد مل سکتی ہے۔ تحقیقاتی صحافت کے مرکز سے خریداری کے لئے دستیاب ہے۔

پیسے کا پیچھا کرنا: بدعنوانی کا کھوج لگانے بارے ڈیجیٹل ہدایت نامہ
یہ مفت کتابچہ انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس نے انگریزی، روسی اور جارجیائی زبان میں شائع کیا ہے

عالمی تحقیقاتی صحافت پر کیس بک: یہ کیس بک اسٹوری پر مبنی تحقیقات بارے کتابچہ کے ساتھ دستیاب ہے (نیچے ملاحظہ کریں) اس میں مختلف تحقیقاتی مضامین شائع کئے گئے ہیں اور وہ بھی باقاعدہ پس منظر کیساتھ کہ کسطرح متعلقہ رپورٹروں نے معلومات اکٹھی کیں اور انہیں تحریری شکل میں لائے یہ انگریزی زبان میں دستیاب ہے

عالمی تحقیقاتی صحافت کے فروغ بارے حکمت عملی: جی آئی جے این کے ڈیوڈ ای کپلن نے تحقیقاتی صحافت کے عالمی سطح پر فروغ بارے میں ایک سروے مُرتب کیا ہے جس میں تحقیقاتی صحافت کے لیے مالی اعانت کے ذرائع کے علاوہ دنیا بھر کے صحافیوں کے لئے رہنما اصول بھی شامل ہیں۔ اسکی اشاعت مرکز برائے معاونت بین الاقوامی میڈیا نے انگریزی زبان میں کی

شہریوں کے لیے گائیڈ: جی آئی جے این کی یہ گائیڈ 2019 میں تیار کی گئی اور اسکا مقصد عام شہریوں کی تحقیقاتی صحافت کرنے بارے راہنمائی کرنا ہے

تحقیقاتی صحافت کے لئے گائیڈ:
2007 میں امریکی پبلک براڈکاسٹنگ سروس کے ذریعہ چلنے والی اس سیریز میں
ایک رپورٹر بتاتا ہے کہ کسطرح ایک اسٹوری کا انتحاب کیا جاتا ہے اور پھر تحقیقاتی انداز میں متعلقہ لوگوں سے انٹرویوز کئے جاتے ہیں مطلوبہ اسناد کا کھوج اور حصول کو ممکن بنایا جاتا ہےاور اس پر مبنی اسٹوری تیار کرکے شائع کی جاتی ہے یہ سیریز انگریزی زبان میں ہے

خفیہ منظر نامہ لوک سینجرز اور مارک لی ہنٹر نے تحریر کی ہے یہ تحقیقاتی صحافت کے مرکز سے خریداری کے لئے انگریزی زبان میں دستیاب ہے اس کتابچہ میں بتایا گیا ہے کہ کسطرح کہانی سنانے کا فن بروئے کار لاتے ہوئے مضمون کی ساخت اس انداز میں ترتیب دی جاتی ہے کہ اصل توجہ تحقیقاتی صحافت پر رہے

تعارف برائے تحقیقاتی صحافت برانٹ ہیوسٹن (پوائنٹر نیوز یونیورسٹی) نے تحریر کی ہے اس آن لائن کورس کی لاگت 29.95 امریکی ڈالر ہے۔

مذہبی امور پر تحقیق کیلئے گائیڈ ڈیبرا ایل میسن اور ایمی بی وائٹ نے تحریر کیا ہے۔ یہ آئی آر ای کی ویب سائٹ پر خریداری کیلئے انگریزی زبان میں دستیاب ہے

کتابچہ برائے تحقیقاتی صحافت : اسکی اشاعت فورم برائے افریقی تحقیقاتی رپورٹرز نے کی ہے یہ جامع گائیڈ افریقہ بھر سے کیس اسٹڈیز کے ساتھ صحت اور اخلاقیات کے موضوعات پر رپورٹ کرنے کے لیے مُستند راہنمائی فراہم کرتا ہے یہ انگریزی ، فرانسیسی اور پرتگالی زبان میں دستیاب ہے

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Scan the code