Aiou course code 5604 book download free

Aiou course code 5604 book download free

Aiou course code 5604 book download fre

اردو میں قصّہ کہانی کی روایت بلا واسطہ عرب و عجم سے منسلک ہے۔ کچھ مقامی اثرات کے باعث سنسکرت سے بھی داخل ہوئیں۔ مگر فارسی سے ماخوذ اور ترجمہ کردہ قصوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس طرح مختلف زبانوں کا حسین امتزاج ہمیں اردو زبان کے افسانوں میں نظر آتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو افسانوں کی گروہ بندی بالکل نا ممکن ہے۔ اس صنف ادب کے لیے ہمارے پاس جتنے الفاظ اب تک چلے آ رہے ہیں ’’افسانہ، داستان، قصہ، حکایت اور کہانی وغیرہ۔ مگر ان کامفہوم قطعی طور پر معین نہیں ہے‘‘۔ ۳؂ ڈاکٹر مسعود رضا خاکی کا بھی یہی خیال ہے۔ ’’اٹھارویں صدی کے شعرائے اردو میں افسانہ یا افسانہ سے قصہ، کہانی ، داستان ، سرگزشت ، روئیداد، چرچا، ذکر، بے اصل، طویل و غیرہ مراد لیتے تھے‘‘۔ پیارے لال شاکر میرٹھی کے خیال کے مطابق : ’’لقمان کی کہانیاں ہمارے مختصر افسانوں کی ابتدائی صورت ہیں۔ جس طرح آج کل کسی اہم کام سے تفہیم کے لیے یا حقیقت کے اظہار کے لیے مختصرافسانے سے کام لیا جاتا ہے۔ وہی کام عہد قدیم میں کہانی سے لیا جاتا تھا‘‘۔ ۵؂ اس ضمن ڈاکٹر مسعود رضاخاکی کا کہنا ہے ’’اردو نثر میں جس قصہ کو سب سے پہلے افسانہ کہا گیا وہ رجب علی بیگ سرور کا ’’فسانۂ عجائب ‘‘ ہے ۶؂ ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو میں کہانیوں کا وجود شروع ہی سے رہا ہے۔ جن میں زیادہ تر مذہب ، اخلاق اور پند و نصائح کا بیان تھا۔ مگر اُن کو وہ اہمیت یا حیثیت حاصل نہ تھی جو مثنوی کو حاصل تھی۔ اس سلسلے میں مثنوی کا دامن کافی وسیع نظر آتا ہے۔ جس کا سلسلہ ۱۷ ویں صدی اوائل میں شروع ہوا تھا اور ۱۸ ویں صدی میں بھی جاری رہا۔اس دوران نثری داستانوں کا رواج پڑا۔ جس میں مختلف حکایتوں ، روایتوں، قصوں، کہانیوں اور ماجروں میں بکھری ہوئی اشیاء یکجا ہونے لگیں اور ان تمام کی شیرازہ بندی داستان کے ذریعے عمل میں آئی۔ با الفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ داستان کی کشش نے بکھری ہوئی کہانیوں کو اپنی قوت سے کھینچ کر خود سے جوڑ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ داستان ایک طرف مختلف کہانیوں کا پلندہ ہے اور دوسری طرف ایک طویل کہانی ہے، جو کہانیوں کی چھوٹی چھوٹی کڑیوں سے مل کر بنی ہے۔ اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نثری داستانوں کے عروج کے دور میں مقناطیس سے چمٹی یہ کہانیاں خود کو داستان سے کاٹ کر علیحدہ حیثیت تسلیم کروانے کا اظہار کر سکتی تھیں۔ جیسے غزل نے قصیدے سے دامن چھڑا کر الگ تشخص کا اعلان کیا اور کہانی نے داستان سے علیحدہ ہو کر ’’افسانہ ‘‘ کے وجود کا اعلان کیا۔ میرامن دہلوی کی ’’باغ و بہار‘‘ کے پیرائیہ اظہار نے اردو افسانے کے ابتدائی خدوخال کو نمایاں کرنے میں پہلی اینٹ کا کام انجام دیا۔
بقول عبادت بریلوی: ’’فنی اعتبار سے مختصر افسانہ ۱۹ ویں صدی کے آخر کی پیدا وارہے جب صنعتی انقلاب کے باعث ساری دنیا ایک تبدیلی سے دو چار ہو رہی تھی ‘‘ ۷؂ اس طرح ہندوستانی ادباء کی تحریروں نے افسانہ نویسی کے لیے فضا کو ساز گار کیا۔ اس طرح ’’داستان گوئی‘‘ کے گرانڈیل درخت سے افسانہ کی شاخ پھوٹی جس پر تین کونپلیں بصورت سجاد حیدر یلدرم ، علامہ راشد الخیری اور منشی پریم چند ابھر کر آئیں اور پھول بن کر چار سو خوشبو بکھیرنے لگیں۔
منشی پریم چند کا ابتدائی سوانحی خاکہ
منشی پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ وہ ۱۳ جولائی ۱۸۸۰ء کو ضلع وار انسی مرٹھوا کے ’’لمبی‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے آپ کا نام دھنپت رائے رکھا جبکہ آپ کے چچا نے آپ کا نام پریم چند رکھا۔ ۱۸۸۵ء میں لال پور کے مولوی صاحب کے پاس اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۹۵ء میں گورکھپور سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں معلم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور ۱۸ روپے ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے۔ بعد ازاں ۱۸۹۹ء میں بنارس میں اسسٹنٹ ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ ۱۹۰۰ء میں بیرائچ کے گورنمنٹ سکول میں تقرر ہوا اور ہر پرتاب گڑھ کے ضلع میں تبادلہ ہوا۔ الہ آباد میں جا کر آپ نے پہلی مرتبہ سنجیدگی سے لکھنا شروع کیا۔
۱۹۰۴ء میں جونیئر انگلش ٹیچر کا امتحان پاس کیا اور اسی سال الہ آباد یونیورسٹی سے اردو ہندی کا خصوصی امتحان پاس کیا۔ ۱۹۰۶ء میں آپ کی دوسری شادی ایک بیوہ ’’شیورانی دیوی‘‘ سے ہوئی ۔ ۱۹۰۹ء میں ترقی پا کر سب انسپکٹر آف سکولز ہو گئے۔ ۱۹۱۹ء میں بی۔اے کیا۔ فروری ۱۹۲۱ء میں عدم تعاون کی تحریک کے سلسلے میں ملازمت سے علیحدہ ہوئے۔ ۱۰؍اپریل ۱۹۳۶ء کو لکھنؤ میں پہلی مرتبہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی صدارت کی۔ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو ۵۶ سال کی عمر میں وفات پائی۔
منشی پریم چند کی ابتدائی ادبی زندگی
آپ کا پہلا ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘ رسالہ آوازِ خلق میں ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو شائع ہوا۔ ۱۹۰۷ء میں دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام لکھا جواب موجود نہیں۔ اس کے بعد ۵ افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے ۱۹۰۸ء میں منظر عام پر آیا۔ جس میں آپ نے آزادی ، حریت، غلامی اور بغاوت کے موضوعات کو چھیڑا۔ حکومتِ برطانیہ نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ چنانچہ گورکھ پور کی حکومت نے اس کی تمام نقول حاصل کر کے جلا دیں اور آئندہ کے لیے سخت پابندی عائد کر دی۔ پریم چند نے ان افسانوں میں ’’نواب رائے‘‘ کے قلمی نام سے لکھا۔ بعد میں پریم چند کے نام سے لکھنا شروع کیا۔
منشی پریم چند کا افسانہ نگار ی میں مقام
اس بحث میں پڑے بغیر کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو کا پہلا اہم اور بڑا افسانہ نگار پریم چند ہے۔ اردو ادب میں یہ ایک ایسا نام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان کے دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح آپ نے پیار ، محبت، عشق، ہیرو، ہیروئن جیسے سطحی موضوعات کو اپنے اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ حقیقت پسندی کی طرف اپنے ذہن و قلم کا رُخ جمایا۔ آپ کے قلم سے ہندوستان کی مٹی کی خوشبو آتی ہے۔ آپ کی افسانہ نگاری کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔
منشی پریم چند کی افسانہ نگاری کے ادوار
ڈاکٹر مسعود حسین خان نے اپنے مضمون ’’پریم چند کی افسانہ نگاری کے دور ‘‘ میں ان کی افسانہ نگاری کے چار ادوار بتائے ہیں۔
پہلا دور : ۱۹۰۳ء تا ۱۹۰۹ء تک ابتدائی کوشش
دوسرا دور : ۱۹۰۹ء تا۱۹۲۰ء تک تاریخی اور اصلاحی افسانے
تیسرا دور : ۱۹۲۰ء تا۱۹۳۲ء تک اصلاحی اور سیاسی افسانے
چوتھادور : ۱۹۳۲ء تا۱۹۳۶ء تک سیاسی اور فکری افسانے
پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی سے ہو جاتا ہے۔ ۱۹ ویں صدی کی کالونیاں ۲۰ویں صدی میں کئی نئے ادیبوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔ اردو شاعری میں اقبال نے ایک نئی جہت اور احتجاجی لہر کا آغاز کیا۔ ۱۹ویں صدی کا معذرت خواہانہ لہجہ آہستہ آہستہ احتجاج میں بدل گیا۔ جنگِ عظیم اول ۱۹۱۴ء اور انقلاب روس ۱۹۱۷ء نے سامراجی قوتوں کے رعب میں رخنہ ڈال دیا تھا۔ پریم چند بھی اسی نیم سیاسی دور سے متاثر ہوئے۔ ’’سوزِ وطن‘‘ اسی دور کا اظہار ہے۔
ادب کے ذریعے انقلاب اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا تصور پریم چند کی ابتدائی کہانیوں ہی سے سامنے آ گیا تھا۔ اس حوالے سے وہ مقصدی ادب کی ایسی تحریک کا تسلسل تھے جو ۱۹۵۷ء کے بعد سر سید اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں شروع ہوئی تھی۔ آپ کی ابتدائی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا پہلو نمایاں رہاہے۔ پریم چند اس نکتہ سے واقف تھے کہ حقیقت نگاری کا محدود تصور فن کو تباہ کر دیتا ہے۔
بقول شمیم حنفی: ’’پریم چند کہانی کی اوپری سطح پر ہی حقیقت کا التباس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نیچے وہ آزادی چاہتے ہیں۔ ‘‘
بقول سید وقار عظیم: ’’وہ اپنی قوم اور ملک کی ہر اس چیز کو پرستانہ نظروں سے دیکھتے ہیں جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ ‘‘
موضوعاتی اعتبار سے تقسیم
موضوعاتی اعتبار سے منشی پریم چند کے افسانوں کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔جب ان پرداستانوں کا اثر تھا۔
۲۔جب وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھے۔
۳۔جب انھوں نے انسانی نفسیات کا مطالعہ طبقاتی جبر کے
حوالے سے کیا۔
پریم چند کے افسانوں میں رومانیت اور حقیقت نگاری کا امتزاج
زندگی کے خارجی معاملات اور معاشرے کی صحیح عکاسی حقیقت نگاری کہلاتی ہے جبکہ رومانیت میں زندگی کے باطنی پہلو اور وجدانی معاملات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے رومانیت میں تخیل کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد عالم خان کے مطابق ’’رومانوی ادیب زندگی کی عکاسی ایک مصور کی حیثیت سے کرتاہے جبکہ حقیقت پسند، زندگی کو فوٹو گرافرکی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ‘‘
پریم چند کے ہاں ہمیں دونوں رویے ملتے ہیں۔ ایک طرف سماج کی سچی اور کھری تصویریں جبکہ دوسری طرف تخیل کی رنگ آمیزی ملتی ہے۔ ڈاکٹر محمد عالم خان کی رائے کے مطابق ’’پریم چند کے ہاں رومانیت کا تصور ایک سماجی پہلو لیے ہوئے ہے اور وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے انحراف نہیں کرتے‘‘۔
پریم چند بنیادی طورپر طبقاتی جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ فرد کی آزادی کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔ ان کی رومانیت پر وطن پرستی کا رنگ غالب ہے جس کا اظہار ان کی ابتدائی کہانیوں سے ہوتا ہے۔ پریم چند محبت کا تصور رومانوی اثرات کے ساتھ ساتھ تلخ حقائق کا اظہار کرنے سے کتراتے ہیں۔ کیونکہ ان کا تصور محبت سماجی روایت سے منسلک ہے۔ جس میں محبت کے کئی رنگ موجود ہیں۔ جس میں حب الوطنی، کچلے ہوئے طبقات سے ہمدردی، مادی حقائق کی اہمیت کو تسلیم کرنا وغیرہ۔
بقول ڈاکٹر محمد عالم خان: ’’پریم چند خیال کو مادے پر اہمیت دیتے ہیں اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جو ان کو اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے جدا کرتا ہے‘‘۔
ماضی پسندی، الم پسندی اور اضطراب و جستجو کو پریم چند کی رومانیت کے بنیادی عناصر قرار دیا جا سکتاہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح وہ آنکھ سے چیزوں کو نہیں دیکھتے بلکہ سماجی رویوں کے حوالے سے پہچان کراتے ہیں۔ ان کے یہاں تخیل کی بلندی ضروری ہے مگر ان کے پاؤں اپنے سماج اور زمین سے اوپر نہیں اٹھتے۔ آپ اپنا ایک نظریہ حیات رکھتے ہیں۔ وہ ماضی کے تسلسل میں حال کی پہچان کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے یہاں انقلاب اوررومان کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جس کی بنیاد مثالیت، انسان دوستی اور معاشرتی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں پر بھی ہے۔
پریم چند کے کردار
پریم چند کے کردار اکثر معاشرے کے ستائے ہوئے عام لوگ ہیں۔ انھوں نے ان ستائے ہوئے اور کچلے ہوئے مظلوم لوگوں خصوصاً دیہاتوں میں جاگیرداروں اور مہاجنوں کے ظلم کے مارے ہوئے لوگوں کو زبان دی۔ ان کے اندر آزادی کی تڑپ اور جدوجہد کا جذبہ پیدا کیا اور ایک نئی دنیا تعمیر کی اور طبقات سے آزاد معاشرے کا وجود ان کا بنیادی نظریہ تھا۔ وہ مثالیت اور حقیقت کے امتزاج سے اپنی افسانوی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر محمد حسین: ’’انھوں نے ایسے کردار بھی ڈھالے ہیں جو فوق البشر طاقت کے ساتھ زندگی کی ساری راحتوں پر لات مارکر کسانوں اور مظلوموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر سماجی خرابیوں سے لڑتے ہیں اور کسی قسم کی ذہنی اور جسمانی ضرب ان کے ماتھے پرشکن نہیں لاسکتی۔
پریم چند کااسلوب
آپ نے اپنے افسانوں میں سادہ زبان استعمال کی۔ آپ نے سنسکرت کے الفاظ کا کم استعمال کیا۔ آپ نے اکثر کرداروں کے مکالمے ان کی معاشی اور معاشرتی حیثیت کے مطابق لکھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے لیے مکالمے ان کے لہجے اور تلفظ میں تخلیق کیے۔ جو آپ کے زبردست مشاہدے کا غماز ہے۔ آپ نے ہندوستان کے لوگوں کو حقیقت پسندی سے روشناس کرایا۔ اُس وقت جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ نے بین الاقوامی، ملکی ، علاقائی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔ آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل پر بھی لکھا۔
پریم چند کے منتخب افسانوں پر تبصرہ
(
 ۱ کفن
یہ پریم چند ہی کا نہیں بلکہ اردو ادب کا بھی بہترین افسانہ ہے۔ یہ دو باپ بیٹوں کی کہانی ہے۔ جس میں جوان بہو زچگی کے عمل میں مر جاتی ہے۔ لاش کے لیے کفن نہیں ہوتا۔ دونوں باپ بیٹے کام چور ہوتے ہیں۔ کوئی ان کی مدد کے لیے تیار نہیں ہوتا مگر آخر کار انسانی ہمدردی کے تحت کفن کے لیے پیسے جمع ہو جاتے ہیں۔ دونوں باپ بیٹا کفن لینے نکلتے ہیں اور شراب خانے جا کر سارے پیسے خرچ کر دیتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر محمد حسین ’’کفن میں پہلی بار پریم چند سماج کی تھوڑی بہت اصلاح کی جگہ اس کے مسلمات پر براہ راست حملہ آور ہوتے ہیں۔۔۔ آخر مردے کے کفن پر پیسہ ضائع کرنے کی بجائے مظلوم انسانوں کو جن کی زندگی جانوروں سے بدتر ہے۔ اس رقم سے دو لمحے بشاط اور خوشی میسر آ جائے تو کیا کفن دینے سے کہیں بہتر کارِ ثواب نہیں ہے‘‘۔
کفن حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ فنی جمالیات کی ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ افسانہ ان کے اس نقطۂ نظر کا ترجمان ہے جو انھوں نے اپنے ایک خط میں بیان کیا۔ وہ لکھتے ہیں ’’محض واقعات کے اظہار کے لیے میں کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں اس میں فلسفیانہ یا جذباتی حقیقت کا اظہار کرنا چاہتاہوں جب تک اس قسم کی بنیاد نہیں ملتی میرا قلم نہیں اٹھتا‘‘۔ ۱۹۳۰ء
انھوں نے کفن میں جس جرأت کے ساتھ انسانی فطرت کو بے نقاب کیا ہے وہ ان کے فن کا کمال بھی ہے اور نقطۂ نظر کااظہار بھی۔ آپ نے ’’کفن‘‘ کے بنیادی کرداروں ’’گھیسو‘‘ اور ’’مادھو‘‘ کے باطن میں گھس کر فطرت کو بے نقاب کیا۔
بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ’’ پوری کہانی کی جان حالات کی ستم ظریقی ہے۔ جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا‘‘۔
طبقاتی نظام میں محکوم اور مجبور لوگوں کا استحصال ان کے اندر انسانی احساسات کو ختم کر دیتاہے اور ان کو حیوانی سطح پر رہنے پر مجبور کر دیتاہے۔ ’’کفن‘‘ کی یہ طنزیہ صورت حال اس درد ناک منظر سے شروع ہوتی ہے کہ جھونپڑے کے اندر جواں سال بہو دردِ زہ سے تڑپ رہی ہوتی ہے اور باہر گھیسو اور مادھوبجھے ہوئے الاؤ کے گرد بیٹھے خاموشی سے اس کے مرنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ پریم چند کا کمال یہ ہے کہ وہ کم لفظوں میں بڑی حقیقت کو کہانی کا روپ دیتے ہیں۔
بنیادی طور پر کفن کی کہانی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جس میں پہلے حصے میں کرداروں کا تعارف، دوسرا حصہ بہو کی موت اور اثرات ، تیسرا حصہ غربت و افلا س کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے حسی کا اظہار۔
پریم چند نے اردو زبان و ادب اور اس کے سرمایہ فکرکو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ انھوں نے زندگی اور کائنات کو فکر و نظر کے مروجہ زادیوں سے ہٹ کر ایک نئی سطح سے دیکھا۔ ایک ایسی بلند سطح سے جہاں سے زندگی اور انسانیت کا سمندر کروٹیں لیتا اور ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا تھا۔ وہ پہلے ادیب تھے جن کی نظر حیات انسانیت کے انبوہ میں ان مجبور اور بے بس انسانوں تک پہنچی جو قدرت کے دوسرے بے زبان مظاہر کی طرح صدیوں سے گونگے اور بے زبان تھے۔ پریم چند نے انھیں زبان دی۔
نوٹ: پریم چند کے دو افسانے ’’کفن اور سبحان بھگت‘‘ پریم چند خود یکجا نہ کر سکے جو بعد میں جعلی ایڈیشن کے ناموں سے شائع ہوئے۔
( ۲ حج اکبر
پریم چند طبعاً ایک غیر متعصب مصنف تھے۔ اس میں شک نہیں کہ زیادہ تر افسانوں میں ہندو کلچر پیش کیا مگر جہاں جہاں انھوں نے مسلم کلچر کے پس منظر میں کہانیاں تحریر کیں۔ ان میں ان کے مشاہدے کی گہرائی کمال پر ہے۔ جس کی عمدہ مثال افسانہ ’’ حج اکبر‘‘ ہے۔
ڈاکٹر قمر رئیس کی تحقیق کے مطابق ’’یہ افسانہ ۱۹۱۷ء میں لکھا گیا۔ یہ ایک اصلاحی کہانی ہے لیکن براہ راست مقصدیت پریم چند کی پسند نہیں۔ وہ بنیادی طور فنی جمالیات کے قائل تھے۔ اس افسانے میں بھی ان کی مقصدیت ایک فنی پہلو کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرت پیش کرتی ہے‘‘۔ اس افسانے کی کہانی یوں ہے کہ :
’’منشی صابر حسین نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا ایک ہی بیٹا نصیر ہے۔ جس کے لیے انھوں نے ایک دایہ عباسی ملازمہ رکھی ہے۔ صابر حسین کی بیوی عباسی کو مالی بوجھ سمجھتی ہے اور اسے اکثر تنگ کرتی ہے۔ ایک روز دایہ عباسی ملازمت چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ نصیر جو ملازمہ دایہ عباسی سے بہت مانوس ہوتا ہے یہ صدمہ برداشت نہیں کر پاتا اور بیمار ہو جاتا ہے۔ اتفاقاً اس کی ملاقات بازار میں صابر حسین سے ہو جاتی ہے۔ وہ اسے بیٹے کی بیماری کاحال سناتا ہے۔ عباسی بے قرار ہو کر اس کے ساتھ چلی جاتی ہے۔نصیر کا چہرہ اسے دیکھ کر بشاش ہو جاتا ہے۔ وہ صابر حسین کو بتاتی ہے کہ وہ حج پہ جا رہی ہے۔ مگر صابر حسین بچے کی حالت بیان کر کے اسے روک لیتا ہے۔ بعد میں جب عباسی اس سے کہتی ہے کہ تم نے مجھے حج پر جانے نہیں دیا تو صابر حسین کہتا ہے کہ تم نے میرے نصیر کو بچا کر حج اکبر کر لیا ہے۔ ‘‘
بظاہر یہ ایک سیدھی سادی کہانی ہے۔ مگر اس میں بڑی گہری معنویت اور مقصدیت چھپی ہوئی ہے۔ معاشرے میں در حقیقت اس وقت عزت کا معیار دولت ظاہری ،مال و متاع بن چکا ہے۔ تقویٰ، پرہیز گاری، صلہ رحمی، ہمدردی کو کوئی کسی مول نہیں پوچھتا ۔پریم چند نے اس تحریر سے ثابت کیا کہ کسی شخص کے مقرب ہونے کا انحصار اس بات پر نہیں کہ وہ مذہب سے کتنا لگاؤ رکھتا ہے بلکہ اس بات پر ہے کہ اس کا وجود معاشرے کے لیے کتنا سود مند ہے اور یہی نیکی کا اصل معیار ہے۔

جواب:

برصغیر میں اردو افسانے کا ذکر دو ناموں کے سوائے ادھورا ہے۔ وہ نام ہیں کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو تو قارئین کا ایک حلقہ جنسی لذت کا ذریعہ سمجھ بیٹھا ہے مگر وہ اپنی تحاریر میں جن نفسیاتی اور معاشرتی پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں، ان پر فکر انگیزی کی اشد ضرورت ہے۔

کرشن چندر اور منٹو نے تقسیم ہند کے درد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے اپنی کہانیوں میں جا بجا بیان بھی کیا ہے۔ کرشن چندر کی کہانیوں کے حوالے سے ایک خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی کہانیوں میں طبقاتی سوال کو اٹھاتے رہے ہیں، لہٰذا ان کے کردار، مل مزدور، کسان، نمک کی کان میں کام کرنے والے، نچلے طبقے کے لوگ اور جاگیردار رہے ہیں۔ کرشن چند کا جنم 23 نومبر 1914 کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ میں ہوا۔‎

کرشن چندر کا اپنا خالص اسلوب انہیں اپنے دور کے دیگر افسانہ نگاروں پر غالب کر دیتا ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے نثر میں شاعری کی ہے۔ اس کی اہم وجہ ان کے ارد گرد کا وہ ماحول بھی تھا جو انہیں بچپن سے ہی جنت نظیر وادی، کشمیر میں ملا۔ جہاں بہتے دریاؤں سے لے کر، سر سبز میدان، آبشار اور فطرت سے بھرے ایسے مناظر تھے جو ان کے افسانوں میں کسی پینٹنگ کی مانند نظر آتے ہیں۔

ان کے ہاں موضوعات کی ہمہ گیریت تھی۔ یہ موضوعات ان کے پاس ایسے تھے جیسے پھولوں پر منڈلاتی تتلیاں۔

ڈاکٹر اقبال آفاقی اپنی کتاب “اردو افسانہ” میں کرشن چندر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “کرشن چندر کے قلم میں پہاڑی ندی کا سا تیز بہاؤ ہے اور میدان میں بہنے والے دریا کا سا پھیلاؤ بھی۔ وہ دونوں کے درد پہچانتا ہے، تبھی اس نے “درد گردہ” کی نرس مس جائے جیسے شفیق اور مہربان کردار تخلیق کیے۔ کرشن چندر کے ادراک کا کینوس بہت وسیع ہے، سرینگر سے لاہور، کلکتہ اور نیچے بمبئی تک پھیلا ہوا۔

“اس کی وجہ فطری وسیع المشربی، بلند خیالی اور رواداری جیسی اقدار پر ایمان ہے۔ ان کے ہاں تکنیک کے تجربات بھی ملتے ہیں، مثلاً ان کا افسانہ “کچرا بابا” ایک سورئیلی تصویر اور پھر مثبت اور منفی تکنیک کے تجربات کا قابل ذکر مثال ہے۔ وہ ہر طرح کے موضوعات اور کرداروں پر کہانیاں کسی مذہبی یا نسلی تعصب یا نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر فطری بہاؤ میں لکھتا چلا جاتا ہے”۔

اپنی کہانیوں میں حقیقت نگاری کو پیش کرنے لیے انہوں نے اپنے تخلیق کردہ کرداروں کا سہارا لیا ہے۔ جدید افسانہ نگاری میں بھی انہوں نے لوک ادب سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ہے بلکہ لوک ادب کے عنصر کو اپنی کہانیوں میں شامل کر کے انہیں اور بھی جاندار طریقے سے بیان کیا ہے۔ یہی ان کی ایک ایسی خاصیت ہے جو کہ انہیں باقی افسانہ نگاروں سے ممتاز بناتی ہے۔ جس کی مثالیں ہمیں “کالا سورج” اور “پانی کا درخت” میں نظر آتی ہیں۔

ویسے تو ہمارے آس پاس کئی کردار موجود ہوتے ہیں مگر انہیں کہانی کے سانچے میں ڈھالنے کا فن کرشن چندر کو بخوبی آتا ہے۔ ان کے افسانے ایک ایسا طلسم کدہ ہیں جس کے سحر کو محسوس کرنے اور اس کا حصہ بننے کو جی چاہتا ہے۔ یہ عنصر ان کی تحریر میں بیان کی گئی تشبیہات اور استعاروں میں واضح عکساں ہے۔ انہوں نے اگر کسی گاؤں کی کہانی بیان کی ہے تو اس میں تشبیہات اور استعارے بھی اسی ماحول کی مطابقت سے رکھے ہیں۔

ان کی افسانے ایک ایسا طلسم کدہ ہیں جس کے سحر کو محسوس کرنے اور اس کا حصہ بننے کو جی چاہتا ہے۔

دیہی اور شہری دونوں زندگیاں ان کے زیر مشاہدہ رہیں۔ ان کی کمال فن تحریر کا ہی یہ خاصا ہے کہ جب دیہی زندگی کی لفظوں میں عکسبندی کی تو خالص دیہی زندگی کی سوندھی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ جس کی اہم ترین مثال ان کا افسانہ “پانی کا درخت” ہے جو کہ انہوں نے نمک کے ان مزدوروں کے بارے میں لکھا ہے جن کے لیے میٹھا پانی نایاب ہو جاتا ہے۔

پانی کا درخت میں بانو چاہتے ہوئے بھی اپنے محبوب کے ساتھ نہیں رہ پاتی کیونکہ گاؤں میں میٹھا پانی دستیاب نہیں ہوتا اور وہ اس شخص سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیتی ہے جہاں میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے۔ اس افسانے میں پانی زندگی کی علامت نہیں ہے بلکہ خود ایک زندگی ہے اور اس کی عدم موجودگی موت ہے۔

“میں نے اس کے بالکل قریب آ کر اسے دونوں شانوں سے پکڑ لیا اور غور سے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ اس نے ایک لمحہ میری طرف دیکھ کر آنکھیں جھکا لیں۔اس کی نگاہوں میں میری محبت سے انکار نہیں تھا بلکہ پانی کا اقرار تھا۔ میں نے آہستہ سے اس کے شانے چھوڑ دیے اور الگ ہو کے کھڑا ہو گیا۔ یکا یک مجھے محسوس ہوا کہ محبت سچائی خلوص اور جذبے کی گہرائی کے ساتھ ساتھ تھوڑا پانی بھی مانگتی ہے۔ بانو کی جھکی ہوئی نگاہوں میں اک ایسے جانکسل شکایت کا گریز تھا جیسے وہ کہہ رہی ہو: جانتے ہو ہمارے گاؤں میں کہیں پانی نہیں ملتا۔ یہاں میں دو دو مہینے نہا نہیں سکتی۔

“مجھے اپنے آپ سے اپنے جسم سے نفرت ہو گئی ہے۔ بانو چپ چپ زمین پر چشمے کے کنارے بیٹھ گئی۔ میں اس تاریکی میں بھی اس کی آنکھوں کے اندر اس کی محبت کے خواب کو دیکھ سکتا تھا جو گندے بدبو دار جسموں پسوؤں، جوؤں اور کھٹملوں کی ماری غلیظ چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی محبت نہ تھی۔ اس محبت سے نہائے ہوئے جسموں، دھلے ہوئے کپڑوں اور نئے لباس کی مہک آتی تھی۔ میں بالکل مجبور اور بے بس ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ رات کے دو بجے۔

“بانو اور میں۔ دونوں چپ چاپ کبھی ایسا سناٹا جیسے ساری دنیا کالی ہے کبھی ایسی خاموشی جیسے سارے آنسو سو گئے ہیں۔ چشمے کے کنارے بیٹھی ہوئی بانو آہستہ آہستہ گھڑے میں پانی بھرتی رہی۔ آہستہ آہستہ پانی گھڑے میں گرتا ہوا بانو سے باتیں کرتا رہا اس سے کچھ کہتا رہا، مجھ سے کچھ کہتا رہا۔ پانی کی باتیں انسان کی بہترین باتیں ہیں۔”

رومان، منظرنگاری، عشق و محبت اور المیہ، ان کے افسانون میں جابجا نظر آتے ہیں۔ “اندھا چھتر پتی” کا کردار اپنی آنکھوں کا نور اس لیے رو رو کر گنوا دیتا ہے کہ اس کی محبوبہ کا لالچی باپ اپنی بیٹی مکھنی کا رشتہ گاؤں کے نمبردار سے طے کر لیتا ہے۔ یہ کہانی بھی اسی طبقاتی فرق کو بیان کرتی ہے جو آج بھی ہمارے معاشرے میں مروج ہے۔

بٹوارے کے موضوع پر لکھا گیا ناول “غدار” بیج ناتھ کا ایک ایسا قصہ ہے جسے اچانک پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ جسے محض اس لیے غدار قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کسی کا قتل نہیں کرتا۔ اپنی حاملہ کتیا سے کہتا کہ وہ لوٹ جائے اسے انسان کچھ نہیں کریں گے کیونکہ اس کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ کوئی مسلک۔ یہ تمام معاملات انسان سے وابستہ ہیں۔ اس ناول میں انہوں اپنے لوگوں اور اپنی دھرتی سے بچھڑنے کے درد کو بیان کیا ہے۔

کرشن چندر کے تخلیق کردہ کردار ہمیشہ ظلم و بربریت کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر لکھی گئی ان کی کہانی میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ وہ منظر نگاری کو کسی بھی طرح کہانی سے الگ نہیں کرتے۔

گو کہ انہوں نے کئی فلموں کے لیے بھی مکالمے لکھے مگر ان کی حقیقی پہچان افسانوں کی کتابیں اور ناول ہیں۔ جن کی تعداد لگ بھگ پچاس ہے۔ ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘، ’شکست’ اور ’ایک گدھے کی سرگذشت‘ کافی مقبول ہوئے۔

کہانیوں کی شہرت غلام عباس کی شخصیت سے بے نیاز ہو گئی تھی۔ یعنی پڑھنے والوں کو وہ کہانیاں یاد تھیں لیکن غلام عباس کا نام انہیں یاد نہ تھا۔ غلام عباس نے افسانہ نگاری کے کئی مراتب طے کیے لیکن افسوس یہ رہا کہ ایک افسانے”آنندی‘‘ کی غیر معمولی شہرت نے غلام عباس کے بقیہ کارناموں پر ایک طرح سے پردہ ڈال دیا۔ بالخصوص ہندوستان میں تو غلام عباس آنندی ہی کے حوالے سے جانے جاتے تھے‘‘۔
”ندیم احمد نے غلام عباس اور اُردو افسانے کی بڑی خدمت انجام دی ہے کہ انہوں نے غلام عباسؔ کے بارے میں چند اہم تنقیدی مضامین یکجا کر دیے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ پُوری چھان بین اور محنت کے بعد اُنہوں نے غلام عباس کے تمام افسانے بھی اس کتاب میں جمع کر دیے ہیں۔ یہ کتاب غلام عباس پر بڑی حد تک حرفِ آخر کا حکم رکھتی ہے‘‘۔کتاب کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے یعنی تمہید‘ ندیم احمد کا مقدمہ‘ اپنے بارے میں از غلام عباس‘غلام عباس از پریم ناتھ در‘ غلام عباس کے افسانے از محمد حسن عسکری‘ غلام عباس از ن۔م۔ راشد‘ غلام عباس کا افسانوی ادب از فیصل جعفری اور غلام عباس :جاڑے کی چاندگی از آفتاب احمد خاں۔
کتاب کے مرتّب ندیم احمد کا مختصر تعارف بھی اندرون سرورق درج ہے جو کچھ اس طرح سے ہے: ”ندیم احمد1979ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اِن دنوں وہ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر اور شعبے کے صدر ہیں۔ محمد حسن عسکری اور شمس الرحمن فاروقی سے اثر پذیری نے انہیں نظری تنقید کی طرف مائل کیا۔ ان کا شمار نئی نسل کے ان نمائندہ نقادوں میں ہوتا ہے جنہیں نظری تنقید کے مسائل سے دلچسپی ہے اور جو ادب اور تہذیب کے آپسی رشتوں کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور عالمی ادب پر ان کی نظربڑی گہری ہے۔ کلاسیکی شعریات کے علمیاتی اور وجودیاتی تصورات پر زبردست قابو رکھنے والے ندیم احمد کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ”بازیافت‘‘ 2005ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے انشاء اللہ خاں انشاء کے فن اور شخصیت پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں ”غزالِ شب‘‘ (2013ئ) ‘تعصبات اورتنقید (2014ئ) نہایت ہی اہم ہیں۔ کلیاتِ غلام عباس کے ذریعہ ندیم احمد نے ترتیب و تہذیب کا ایک ایسا معیار قائم کیا ہے جس کی مثال ڈھونڈے سے ہی ملے گی‘‘۔
یہ کتاب ہمیں امین اختر فاروقی اُردو ماہنامہ شب خون‘ 313رانی منڈی الٰہ آباد کی وساطت سے موصول ہوئی ہے جو غالباً شمس الرحمان فاروقی صاحب کے عزیز ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فاروقی صاحب کی طبیعت کچھ زیادہ ٹھیک نہیں ہے‘ اُن کے لیے دُعائے صحتیابی۔ خاک کی مہک از ڈاکٹر ناصر عباس نیّر   یہ ہمارے مہربان دوست اور جدید اردو ادب کے نامور نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کے افسانوں کا مجموعہ ہے جو سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت700روپے رکھی ہے۔ اس کے حوالے سے سب سے پہلے دو فروعی سی باتیں: پہلی تو یہ کہ کتاب کے نام ”خاک کی مہک‘‘ میں عیبِ تنافر پایا جاتا ہے اور اس لیے اسے خاکی مہک ہی پڑھا جائے گا۔ دوسرے‘ خاک فارسی کا لفظ ہے اور مہک اُردو کا۔ اگر ڈاکٹر صاحب اس کا نام مٹی کی مہک رکھتے تو یہ خالص اردو میں بھی ہوتا اور ہلکی سی ایسٹریشن کی خوبصورتی بھی‘ دو ”میموں‘‘ کی وجہ سے اس میں آ جاتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم شاعروں کے ساتھ ساتھ نثر نویسوں کو بھی ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک برادرانہ بے تکلّفی بھی ہے‘ اس لیے اس کا فائدہ اٹھا رہا ہوں۔ اور دوسرے یہ کہ تنقید کی بھاری بھرکم زبان لکھتے لکھتے انہیں یہ عام فہم زبان لکھتے ہوئے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ نقاد حضرات کے بارے میں زیادہ تر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تنقید کے علاوہ شاعری یا فکشن وغیرہ میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے ہوں گے‘ جیسے کہ ہمارے دوست شمس الرحمن فاروقی ہیں جو تنقید کے ساتھ ساتھ شاعر اور ایک مانے ہوئے فکشن رائٹر بھی ہیں۔ ناصر عباس نیّر کا چونکہ پہلے کوئی افسانہ کسی رسالے وغیرہ میں پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے اس لیے یکدم اس افسانوی مجموعے کا آ جانا ایک خوشگوار حیرت کا باعث ضرور ہے۔ کتاب کا انتساب خاک کے اس ٹکڑے کے نام‘ جس کی مہک نے یہ کہانیاں لکھوائی ہیں اس میں کوئی مقدمہ یا دیباچہ شامل نہیں ہے۔ آغاز میں مولانا جلال الدین رومی کا یہ شعر درج ہے ؎ در بہاراں کے شود سرسبز سنگ خاک شد تا گل روید رنگ رنگ اس کے بعد ورجینیا وولف کا یہ قول جو ان کی کسی تحریر سے اخذ کیا گیا ہے: فکشن مکڑی کے جالے کی طرح ہے جو شاید ذرا سا اٹکا ہوا ہے‘ مگر چاروں طرف سے زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ وابستگی مُشکل ہی سے سمجھی جاتی ہے۔ کتاب میں کل9کہانیاں ہیں جبکہ آخری کہانی بعنوان حکایات جدید و مابعد جدید کے عنوان سے ہے جس میں چار کہانیاں شامل ہیں یعنی بش سنگھ مرا نہیں تھا۔ بُو آئی کہاں سے‘ ستّر سال اور غار اور واللہ اعلم۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر اور ان افسانوں میں سے مختصر اقتسابات دیئے گئے ہیں جبکہ آخر میں مصنف کا مختصر تعارف درج ہے۔ افسانے مجموعی طور پر دلچسپ اور قاری کو بعض معاملات پر سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آج کا مطلع میں سانس لے نہیں سکتا‘ ہوا مخالف ہے رُکا ہوا ہوں کہ خود راستہ رکاوٹ ہے

سعادت حسن منٹو کا افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ بظاہر ہندوستان اور پاکستان کے پاگل خانوں کے تبادلے کی کہانی ہے مگر دراصل کہانی میں منٹو نے تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت اور دونوں ملکوں کی مضحکہ خیز پالیسوں کو قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے اس کہانی میں انسان کی اپنی مٹی سے محبت کی شدت کو بھی بیان کیا ہے۔ وہ محبت جو سیاست اور مذہب کی لگائی دیواروں اور باڑوں کو ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار کا اصل نام بشن سنگھ ہے مگر وہ اپنے علاقے سے بے پناہ محبت کی وجہ سے وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ بن جاتا ہے۔ وہ اس ملک میں جہاں اُسکا وطن’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ نہیں تھا، جانے کی بجائے موت کو گلے لگا لیتا ہے۔

سعادت حسن منٹو ایک ایسا نام ہے جس کے بغیر اردو افسانے کی صنف مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ اُ ن کے افسانوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اُنہیں اپنی زندگی میں کچھ افسانوں کی وجہ سے مقدموں کی پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ انہوں نے اپنے کچھ افسانوں پر لگے فحاشی کے الزام کے خلاف نہایت موثر مضامین لکھے ہیں جو کہ اپنے طور پر اردو ادب کا شاہکار ہیں۔ انہیں اس بات کا خوف تھا کہ کہیں اُنہیں جیل نہ ہو جائے۔ لکھتے ہیں کہ ’’ڈرپوک آدمی ہوں، جیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ زندگی جو بسر کر رہا ہوں جیل سے کم تکلیف دہ نہیں۔ اگر اس جیل کے اندر ایک اور جیل پیدا ہو جائے اور مجھے اس میں ٹھونس دیا جائے تو چٹکیوں میں دم گھٹ جائے۔ ‘

جواب:

اردو فکشن کی تاریخ میں سعادت حسن منٹو کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔’انگارے‘ کی اشاعت سے اردو فکشن میں جو دور رس تبدیلیاں ہوئی تھیں وہ منٹو کے یہاں ملتی ہیں۔ کلاسیکل بورژوا اخلاقیات کے ڈھانچے کا انہدام ہو یا جنسی مسائل اور تکنیک کی سطح پر شعور کی رو اور داخلی خود کلامی کے تجربات کی پیش کش، منٹو کی افسانہ نگاری کا مطالعہ کرتے وقت یہ تمام چیزیں سامنے آتی ہیں۔منٹو نے اپنے گہرے مشاہدے، تخلیقی زر خیزی اوروسیع تجربے سے اردو فکشن کو متمول بنایا ہے۔اس نے اپنی بصیرت،ژرف نگاہی،انسانی نفسیات کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کے شعور وادراک سے اردو فکشن کو ایک نئی سمت و جہت سے آشنا کیا۔جنس اور جسم فروش طوائفوں کا موضوع اردو فکشن میں پہلے بھی برتا گیا ہے۔مثال کے طور پر پریم چند کے آخری دور کی کہانیاں  ’نئی بیوی‘ اور’مس پدما‘میں جنس کو فکر کا محور بنایا گیا ہے لیکن جنس کے موضوع کا ذکر برائے نام ہی تھا۔اسی طرح جسم فروشی کا موضوع سرفراز حسین عزمی دہلوی،مرزا رسوا، قاضی عبدالغفار اور پریم چند کے یہاں اظہار پا چکا تھالیکن ’انگارے‘ نے شجر ممنوعہ سمجھے جانے موضوعات کو جس طرح واشگاف انداز میں پیش کیا اس نے فکشن کی دنیا میں ایک نئی طرح ڈال دی۔ انجمن پنجاب نے اردو شاعری میں جس طرح موضوعاتی شاعری کی راہ ہموار کی تھی ٹھیک اسی طرح انگارے کی اشاعت نے فکشن نگاروں کے لیے شجر ممنوعہ سمجھنے جانے والے موضوعات کو اپنی تخلیقات میں جگہ دینے لیے ایک قوی محرک کا کام کیا۔ انگارے نے ان موضوعات کو فکشن کے اؒصل دھارے میں جگہ دی اور منٹو نے اس کی توثیق و تصدیق اس انداز میں کی ان کی طرف نگاہیں اٹھنے لگیں۔منٹو نے انگارے کی بے باک روایت سے کسب فیض کیا اورصرف اخذ و استفادے تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اسے اعتبار و استناد کی منزل سے بھی ہمکنار کرایا۔ (یہ بھی پڑھیں کھول دو- سعادت حسن منٹو)

منٹو کے افسانوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک زر خیز تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔ان کے افسانوں کی تعداد دوسو سے متجاوز ہے جن میں زندگی کی مختلف و متنوع جہات سمٹی نظر آتی ہیں۔ان کے افسانو ں میں جنس اور جسم فروشی کے مسائل کے علاوہ تقسیم و فسادات کے واقعات بھی شامل ہیں۔ کئی ایسے افسانے بھی ہیں جہاں جنس فکر کے مرکز میں ہے لیکن غور کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان افسانوں میں جنس کے علاوہ شخصیت کی دوسری تہیں اور جتہیں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں وارث علوی نے بجا طور پر لکھا۔

”طوائفوں پر اس کی جتنی کہانیاں ہیں ہم انہیں جنسی کہانیاں نہیں کہہ سکتے۔حالانکہ جنس طوائف کی زندگی اور کردار کا حاوی جز اور پیشہ ہے  لیکن ان افسانوں کے مرکز میں یاتو مامتا کا جذبہ ہے یا بے بسی اور تنہائی کا یا بے لوث خدمت گذاری کا یا پھر طوائف کے کردار میں ایسے پہلوؤں کی آئینہ داری ہے جو اس کی انسانیت اور نسائیت کو اجاگر کرتی ہے۔ان افسانوں میں دلچسپی کا مرکز جنس نہیں بلکہ دوسرے نفسیاتی اور اخلاقی عوامل ہیں۔“۱

’آتش پارے‘سے لے کر ان کے دیگر افسانوی مجموعوں تک رنگا رنگ کہانیوں کا ایک سلسلہ ہے جو منٹو کے بے مثل مشاہدے،وسیع تجربے اور انسانی رشتوں کی گہری آگہی کی داستان بیان کرتا ہے۔لیکن بایں ہمہ یہ بھی صداقت ہے کہ ان کی شہرت میں کچھ خاص افسانوں کا رول بہت اہم رہا ہے مثلاًدھواں،ٹھنڈا گوشت،کھول دو،کالی شلوار،بو وغیرہ ایسے ہی افسانے ہیں جنہوں نے ان کی شہرت کو بام عروج تک پہنچادیا۔ لیکن ان کے کئی افسانے ایسے بھی ہیں جن میں جنس یا جسم فروشی کا موضوع فکر کا محور نہیں بنا ہے اس کے باوصف وہ افسانے فنی اعتبار سے کامل ہیں مثال کے طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ،نیا قانون وغیرہ۔ان افسانوں کی پوری فضا سیاسی و سماجی شعور وآگہی سے معمور ہے جو  اس بات کی مظہرہے کہ افسانہ نگار گر چہ اعلی تعلیم یافتہ نہیں اور نہ ہی اس کے پاس کسی باوقار یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری ہے لیکن اس نے زندگی کی کتاب کو بہت باریکی سے پڑھا ہے۔ اس کے خد وخال اور نشیب و فراز کو اپنی تخلیقی بنت کا ناگزیر حصہ بنایا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ٹوبہ ٹیک سنگھ-سعادت حسن منٹو)

منٹو کی افسانہ نگاری کی تفہیم کے عمل میں ہمیں دو تین امور کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔پہلی بات یہ کہ منٹو کا یقین ہے کہ انسان کی جبلت اور اس میں موجود حیاتیاتی قوت اس کے جملہ سماجی و اخلاقی دباؤاور قد غن کے مصنوعی پن کو چیلنج کرتی ہے اور آدمی اپنی جبلی قوتوں پر خارجی دباؤ کے قدغن استعمال کر کے خلاف فطرت کام کا مرتکب ہوتا ہے۔ خلاف فطرت کام میں انسان کی شکست طے ہے جو اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ جبلی قوت کے آگے ہم کتنے بے بس اور لاچار ہیں۔’سوراج کے لیے‘ ’تقی کاتب‘ ’کتاب کا خلا صہ‘’پڑھئے کلمہ‘ وغیرہ ایسے ہی افسانے ہیں جہاں آدمی کا خارجی اصول،ماحول،اس کا ارادہ،شعور و ادراک اس کی جبلی قوت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن باطنی قوت کے آگے ان خارجی عوامل کی دھار کند ہوجاتی ہے اور انسان کی باطنی قوت اسے مغلوب کردیتی ہے۔ ان کے کردار خلاف فطرت کاموں میں مصروف ہیں اور بالآخر شکست ان خارجی اصولوں کی ہی ہوتی ہے جو جبلی قوت کو چیلنچ کرتے ہیں۔

’تقی کاتب‘ میں تقی کے والد ایک دیندار اور پرہیز گار آدمی ہیں۔بیوی کی وفات کے بعد بچوں کی پرورش کے لیے اپنے خواہشات کی قربانی دی اور شادی نہیں کی لیکن یہ اخلاقی لبادہ اور سماجی قدغن کا مصنوعی پن اس وقت بے نقاب ہوجاتا ہے جب تقی کے والد اپنے بیٹے کی بیوی میں نازیبا دلچسپی لینے لگتے ہیں۔دوسری طرف ’کتاب کا خلاصہ‘ کی ’بملا‘ااسکول کے ماسٹر صاحب کی(یعنی) اپنے باپ کی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔لالہ ہری چرن سماج میں ایک معزز پیشے سے منسلک شخص ہے لیکن شادی نہ کرنے کا فیصلہ تا کہ بچی کی پرورش میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ رہ جائے اس وقت کھوکھلا معلوم ہوتا ہے جب نالے میں پڑامردہ بچے کے بارے میں معلوم ہوتاہے کہ یہ بملا کے باپ ماسٹر صاحب کا بچہ ہے جو تعلقِ حرمین سے پیدا ہوا ہے۔’بد تمیز‘ بھی ایسا ہی افسانہ ہے جہاں ایک انقلابی خاتون عشرت جہاں اپنی ازدواجی زندگی پر سیاسی و نظریاتی پہرہ لگائے رکھتی ہے لیکن وہ بندھن بھی ایک دن منٹو کے گھر میں ٹوٹ جاتا ہے جو جبلی قوت کے آگے سماجی بندش کی شکست کے ساتھ ساتھ اس کا بھی اشارہ ہے کہ انسان کی فطری جبلت جب اپنا نکاس چاہتی ہے تو اسے مقام کی پرواہ نہیں ہوتی۔ وارث علوی نے درست لکھا ہے:

”ہم جتنا سمجھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ جنسی طاقت کے سامنے کمزور ہیں اورہم جتنا جانتے ہیں اس سے کہیں زیادہ انسانوں کی باطنی زندگی میں جنس کی کارفرمائی ہے“۲

منٹو کے افسانہ نگاری کی دوسری اہم بات یہ کہ تمام انسانی تعلقات کی اساس عورت مرد کا رشتہ ہے اور دوسرے رشتوں کے سوتے بھی اسی ایک رشتے سے پھوٹتے ہیں جو زندگی کو پیہم رواں دواں رکھتے ہیں۔ا ن کے بیشتر افسانوں کو دیکھ جائیں آپ کو نظر آئے گا کہ خواہ طوائف یا جسم فروشی کا موضوع ہو یا جنسی نابلوغیت یا تقسیم و فساد ات کا موضوع کسی نہ کسی نہج اور زاویہ سے عورت اور مرد کے رشتے کا بیان ان کے افسانے میں آ ہی جاتا ہے۔تیسری بات یہ کہ وہ مامتا کے جذبے کو اس کی تقدیس و طہار ت کی وجہ سے اعلی ترین جذبہ خیال کرتے ہیں اور مرد کے لیے اس سے محرومی کو اس کی شخصیت کی تکمیل میں ایک کمی اور خلا مانتے ہیں۔ان کے کئی افسانے مامتا کے جذبے کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے افسانے’ممی‘’فوبھا بھائی‘وغیرہ اس جذبے کی عکاس کہانیاں ہیں۔

منٹو کے افسانے کرداروں کے بجائے پلاٹ اور تھیم کے اردگرد گردش کرتے ہیں۔ کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جن میں انہوں نے سرگرم اور فعال کردارخلق کیے ہیں۔ بابو گوپی ناتھ، موذیل،سوگندھی،بشن سنگھ، منگو کوچوان وغیرہ ایسے ہیں کردار ہیں جو اپنی سرگرمی اور فعالیت کی وجہ سے قاری کے دلوں پر گہرا نقش چھوڑتے ہیں۔ افسانوں میں یہ کردار حرکت وعمل کا استعارہ بن گئے ہیں لیکن منٹو کے افسانوں کی مجموعی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں تامل نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جو کہانی اور تھیم کو فوقیت دیتے ہیں۔منٹو کی اس ترجیح کی وجہ سے ان کی کہانیوں کے پلاٹ بہت چست اور گٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔وہ اختصار کے ساتھ جامعیت کا دامن تھامے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔وہ افسانے میں تفصیلات کو نظر انداز نہیں کرتے لیکن تفصیلات بھی اتنی ہی جتنی کہ واقعہ کو آگے بڑھانے میں ممدو معاون ثابت ہوسکیں۔ اس لیے ان کی افسانہ نگاری کا ایک خاص وصف گٹھا ہوا پلاٹ ہے۔پلاٹ چست اور گٹھا ہو اس کے لیے صرف وہی تفصیلات ضروری ہوتی ہیں جو تھیم کو آگے بڑھانے میں مد د دیں نیا قانون، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ،کالی شلوار، بو،دھواں وغیرہ ایسے ہی کامیاب افسانوی فن پارے ہیں جن کے پلاٹ گٹھے اور چست ہیں۔منٹو کا یہ ہنر ان کی ایک خاص عادت میں پنہاں ہے اور وہ ہے کفایت شعاری۔منٹو الفاظ کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیتے ہیں جو ان کے پلاٹ کو بدنظمی سے بچا لے جاتی ہے۔افسانہ نگار کی حیثیت سے منٹو کی یہ خوبی یقیناً انہیں ایک منفرد اورممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ منٹو کے یہاں الفاظ کی کفایت شعاری کے متعلق محمد حسن عسکری لکھتے ہیں۔

” یوں تو منٹو نے کبھی غیر ضروری الفا ظ استعما ل نہیں کیے۔لیکن اب ان افسانوں میں منٹو کی توجہ اس بات پرمرکوز نظر آتی ہے کہ انداز بیان میں زیادہ سے زیادہ اختصار کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جامعیت ہو، کیفیات وواردات کی باریکیاں بھی شامل ہوں اور زور بیان بھی ہاتھ سے جانے نہ پائے جن تفصیلات سے افسانہ ایک ٹھوس تجربہ بنتا ہے وہ بھی موجوداور تأثر کی وحدت بھی قائم رہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تجربات زیادہ بہتر اسلوب سے متعلق ہیں۔لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ جب منٹو اپنے تازہ ترین تجربات کوسمیت کر آئندہ بابو گوپی ناتھ،جیسا بھرپور افسانہ لکھیں  تو اس نئے اسلوب بیان کی وجہ سے معنویت میں اضافہ ہوا“۳ (یہ بھی پڑھیں نیا قانون-سعادت حسن منٹو)

منٹو کہانی کہنے کے گر سے واقف ہیں۔اس لیے بہتر آغاز کے ساتھ وسط میں مختلف واقعات کی کڑیوں کو اس طرح مربوط کرتے ہیں کہ فطری انداز میں افسانے کا ایک ہیولا بن جاتا ہے۔بات سے بات نکال کر مو ضوع سے بہکے اور بھٹکے بنا کہانی کو اس کے منطقی انجام تک پہونچانا منٹو کا آرٹ ہے۔”منٹو نے ایک مباحثے کے دوران کہا تھا کہ ایک تأثر کا،خواہ کسی کا ہو اپنے اوپر مسلط کر کے اس انداز سے بیان کردینا کہ وہ سننے والے پر بھی وہی اثر کرے یہ افسانہ ہے۔ منٹو یہی عمل اپنے افسانوں اور کرداروں کے ساتھ کئے ہیں“۴۔ منٹو آغاز،وسط اور انجام ہر مقام پر جس فنکارانہ ہنرمندی اور خوش سلیقگی کا مظاہر ہ کرتے ہیں اس سے ان کی استادی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

افسانے میں جہاں اختصار کو بہت اہمیت حاصل ہے تاکہ تأثر کی وحدت مجروح نہ ہو وہاں آغاز کی اہمیت و وقعت مزید بڑھ جاتی ہے۔اگر افسانے کا آغاز مؤثر اور دلکش نہ ہو تو اسے پڑھنے کے لیے افسانہ نگار قاری کو آمادہ نہیں کرسکتا۔ افسانہ پڑھا جائے اس کے لیے یہ از حد ضروری ہے کہ اس کی ابتدا بہت اچھی ہو تاکہ قاری اس کے سحر میں گرفتا ر ہوجائے۔

منٹو ابتدا ہی سے اپنی سحر انگیزی سے قاری کے ہوش و حواس پر قابض ہوجاتے ہیں۔او ر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے لیے طومار نہیں کھڑے کرتے بلکہ سیدھے سادے الفاظ اور سامنے کی باتوں سے ایسا سماں باندھتے ہیں کہ آدمی کے تحیر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور مزید جاننے کی چاہت موجزن ہوجاتی ہے۔وہ قاری کے تجسس میں اضافہ کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ’نیا قانون‘ کی یہ ابتدا ملاحظہ کیجئے۔

”منگو کوچوان اپنے اڈے پر بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منھ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے خواہش ہونی تھی کہ دنیا کے اندر ہورہا ہے۔ استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔“۵

ابتدائی چند جملے پڑھتے ہی قاری مزید جاننے اور سمجھنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہوجاتاہے اور پھر افسانہ نگارکے بنے ہوئے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔منٹو کے افسانے ’پہچان‘ کی ابتدا ملاحظہ کریں

”ایک نہایت ہی تھرڈ کلاس ہوٹل میں دیسی وسکی کی بوتل ختم کرنے کے بعد طے ہوا کہ باہر گھوما جائے اور ایسی عورت کی تلاش کی جائے جو ہوٹل اور ہوٹل اور وسکی کے پیدا کردہ تکدّر کو دور کرسکے“۔

بلاؤز کی تمہید بھی دیکھیں

”کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرارتھا۔اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے حتی کے سوچنے پر بھی ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ایسا درد جس کو اگر وہ بیان بھی کرنا چاہتا تو نہ کرسکتا“۔

منٹو افسانے کی ابتدا کہیں بالکل عام سی بات سے کرتے ہیں اور انوکھے انداز بیان کی وجہ سے قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔’پہچان‘ کی ابتدا کچھ اسی طرح کی ہے وہ ہمیں چونکاتے نہیں ہیں لیکن ہمارے اندر یہ جاننے کی خواہش زور پکڑ لیتی ہے کہ آخر آگے کیا ہوا۔دوسری طرف’بلاؤز‘ کے کردار مومن سے ہمیں یک گونہ ہمدردی سی ہوجاتی ہے اور ہم اس کے درد میں خود کو شریک محسوس کرنے لگتے ہیں۔در اصل فن کا اصل کمال یہی ہے جو بن بتائے اور غیر محسوس طریقے پر آپ کو فنکار کے ساتھ اس کے فکری سفر پرروانہ کردیتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں موپاساں اور منٹو میں موضوعاتی یکسانیت – محمد ریحان )

آغاز ہی طرح منٹو کے افسانوں کا انجام بھی غیر متوقع اور تعجب خیز ہوتا ہے۔اور یہ تعجب خیزی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب افسانہ جنسی نفسیات کے ارد گرد گردش کرتا نظر آتاہے۔وہ افسانے کا اختتام ایسے موڑ پر کرتے ہیں جہاں سے سوچ کی مختلف اور متنوع لہریں جنم لیتی ہیں۔افسانوں کے ایسے اختتام  پر قاری چونک پڑتا ہے اور پھر بیک وقت مختلف خیالات و افکار کی یلغار شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں محض دو ایک مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔’کھول دو‘منٹوکے اعلی ترین افسانوں میں سے ایک ہے جس کی کہانی تقسیم اور فسادسے متعلق ہے۔ رضاکار گروپ نے سکینہ کے ساتھ جو انسانیت سوز کام کیاوہ انتہائی مایوس کن لیکن تلخ حقیقت ہے۔رضاکار گروپ کے ہاتھوں سکینہ اتنی بار نشانہ بنی ہے کہ  ڈاکٹر کے کہنے’کھول دو‘پر غیر دانستہ طور پر اس کے ہاتھ اپنے ازاربند کی طرف جاتے ہیں۔ڈاکٹر کھڑکی کھولنے کے لیے کہتا ہے باپ سراج بیٹی کے زندہ ہونے پرخوش ہوتا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے دونوں کی پیشانی پر پسینہ آجاتاہے۔ صرف لفظ ’کھول دو‘ تین مختلف لوگوں کے لیے تین الگ الگ معانی کا حامل نظر آتا ہے۔منٹو یہاں پر دنیا کے بڑے بڑے فنکاروں کا ہم پلہ قرار پاتا ہے جب وہ قاری کے سامنے سو چ کی ان گنت لہریں چھوڑ جاتا ہے۔ اور پھر سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ یہ کام کسی معمولی آدمی کا نہیں بلکہ ایسے آدمی کا ہے جو کہانی کہنے کے گر سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اس کے اثر و تاثیر میں شدت کے معیاروں سے آگاہ ہے۔

 

جواب:

سعادت حسن منٹو کا افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ بظاہر ہندوستان اور پاکستان کے پاگل خانوں کے تبادلے کی کہانی ہے مگر دراصل کہانی میں منٹو نے تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت اور دونوں ملکوں کی مضحکہ خیز پالیسوں کو قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے اس کہانی میں انسان کی اپنی مٹی سے محبت کی شدت کو بھی بیان کیا ہے۔ وہ محبت جو سیاست اور مذہب کی لگائی دیواروں اور باڑوں کو ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار کا اصل نام بشن سنگھ ہے مگر وہ اپنے علاقے سے بے پناہ محبت کی وجہ سے وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ بن جاتا ہے۔ وہ اس ملک میں جہاں اُسکا وطن’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ نہیں تھا، جانے کی بجائے موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ سعادت حسن منٹو ایک ایسا نام ہے جس کے بغیر اردو افسانے کی صنف مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ اُ ن کے افسانوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اُنہیں اپنی زندگی میں کچھ افسانوں کی وجہ سے مقدموں کی پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ انہوں نے اپنے کچھ افسانوں پر لگے فحاشی کے الزام کے خلاف نہایت موثر مضامین لکھے ہیں جو کہ اپنے طور پر اردو ادب کا شاہکار ہیں۔ انہیں اس بات کا خوف تھا کہ کہیں اُنہیں جیل نہ ہو جائے۔ لکھتے ہیں کہ ’’ڈرپوک آدمی ہوں، جیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ زندگی جو بسر کر رہا ہوں جیل سے کم تکلیف دہ نہیں۔ اگر اس جیل کے اندر ایک اور جیل پیدا ہو جائے اور مجھے اس میں ٹھونس دیا جائے تو چٹکیوں میں دم گھٹ جائے۔ ‘‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بشن سنگھ جو کسی سیاسی پارٹی کا کارکن ہے نہ کسی مذہبی گروہ کا کارندہ اور نہ ہی ہوش و خرد کی دنیا کا باسی ۔اُس کا احتجاج اُس دور کا منظر نامہ کچھ اِس طرح د کھائی دیتاہے کہ ہر انسان ایک بار دہل جاتا ہے ۔افسانے کی چند آخری سطریں :”سورج نکلے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی ادھر اُدھر کے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا، اوندھے منہ لیٹا تھا۔ ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا اور ادھر ویسی ہی تاروں کے پیچھے پاکستان ۔درمیان میں زمین کے اُس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا ،ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔ ”
میٹرک میں تین بار اردو میں فیل ہونے والا سعادت حسن کتابیں پڑھنے کی خاطر پیسے چوری کرتے کرتے آخر ایک دن امرتسر ریلوے اسٹیشن کے ایک بُک سٹال سے انگلش ناول چوری کرتے پکڑاگیا۔یہ چھوٹی چھوٹی چوریاں کیسے کیسے افسانوں کا شاخسانہ بنیںگی،کون جانتا تھا کہ وکٹر ہیوگو ،آسکر وائلڈ ،چی خوف اور گورکی کے علاوہ کئی دوسرے مغربی اور روسی ادیبوں کے تراجم کرتے کرتے سعادت حسن ۔۔۔منٹو کے قالب میں ڈھل جائے گا؟
جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے ظلم پر پہلی کہانی”تماشہ ”نے منٹو کو اعتماد بخشا ۔اُس نے اپنی ذہنی اُلجھنوں ،سوچوں ،اور معاشرے کے بدبودار زخموں کو اپنے قلم کی نوک سے کریدنا شروع کیا ۔یہ کرید گہری ہوتی چلی گئی ،قلم نشتر بن گیا، درد کی لہریں پورے بدن میں پھیل گئیں، لوگ تلملا اُٹھے۔”ٹھنڈا گوشت” ”کھول دو””کالی شلوار”اور ”دھواں” نے سب کی آنکھوں میں دھواں بھر دیا۔ منٹو سلگتا رہا ۔۔ مقدمے جھیلتا رہا اور اُس کا قلم نشتر زنی کرتا رہا، وہ جج نہیں بنا، اپنے کرداروں پر کوئی لیبل چسپاں نہیںکیا ۔وہ انسانی فطرت ،انسانی نفسیات ،عمل رد عمل،خاص طور پر گرے پڑے کرداروں کے حوالے سے ہمارے سامنے لاتا رہا ۔اُس کے کاٹ دار نوکیلے جملے روتے روتے ہنسا دیتے ہیں ،ہنستے ہنستے رُلا دیتے ہیں ۔دوغلا سماج ،سیاست دان،مذہبی جنونی  سب ہی اُس کے قلم کی زد میں رہے ۔منافقت کے خلاف وہ بولتا رہا، وہ لکھتا رہا۔ ڈرامے اور فلمیں بھی لکھیں لیکن مختصر افسانے کونیا روپ دیا ۔مختصر افسانہ دیکھنے میں آسان لیکن لکھنے میںبے حد مشکل ہے ۔جس میں نہ تاریخیں ہیں نہ کلیئے ہیں۔ یہ تو کسی کردار، کسی واقعے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ قاری کو ایک روزن سے پوری دنیا نظر آجائے ۔یہ لکھاری کا کمال ہے کہ وہ ایک آئینے میں کتنی کامیابی کے ساتھ کتنے عکس دکھاسکتا ہے اور منٹو کے افسانوں نے نہ صرف آئینہ بن کر آئینہ دکھایا بلکہ پسِ آئینہ بھی بہت کچھ دکھا دیا ۔
منٹو نجانے کس طرح اور کیسے علی گڑھ یونیورسٹی تک پہنچ ہی گیا۔ وہیں دوسرا افسانہ ”انقلاب پسند”1935میں یونیورسٹی میگزین میں چھپا۔ انڈین پروگریسوس رائٹر ز ایسوسی ایشن کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ بمئبی میں ”مصور”کے ایڈیٹر رہے ۔فلمی دنیا کی چمک دمک کے پیچھے چھپے اندھیرے نے منٹو کے کئی زندہ و جاوید افسانوں کو جنم دیا۔ اشوک کمار کے ساتھ گہرا دوستانہ تھا ۔لیکن حسد اور گروہ بندی کی سیاست نے منٹو کی حساس طبیعت پر گہرا اثر ڈالا ۔تقسیم کے مسائل ،قتل وغار ت ، اور انسان کے شیطانی رویّے منٹو کو پریشان کرنے لگے۔1948ء میں پاکستان آگیا ۔کلیم کے نام پر یہاں لوٹ مار مچی ہوئی تھی، منٹو الگ تھلگ رہا ۔ مالی مشکلات اور متلون مزاجی نے دھیرے دھیرے منٹو کو الکوحل کا بہت زیادہ عادی بنا دیا ۔وہ ماضی میں گزرے اچھے برے دنوں کی یاد سے باہر نہ آسکا۔ نئی دنیا پر قدم جماتے جماتے اُس کا جسم تھکنے لگا۔دل و دماغ کی تازگی پژمُردگی میں ڈھلنے لگی۔پاکستان سے اُس کا لگائو بھی اٹل تھا۔ سو وہ یہیں جم کر لکھتا رہا ،کبھی کمانے کو،کبھی رُلانے کو ،کبھی خود کو، کبھی زمانے کو آزمانے کو۔
عوام کی پذیرائی کے باوجود کچھ تنگ نظر افراد کی وجہ سے مقدمات میں الجھنا پڑا ۔ایڈیٹر نے  چھاپنا بند کردیا ۔پبلیشر نظریں چُرانے لگے۔اخبار”مغربی پاکستان ”میں منٹو کا کالم ”چشم روزن”بند کروادیاگیا ۔۔۔”روزنامہ آفاق” میں چھپنے والے کچھ خاکے کچھ” مشاہیر ”کو ناراض کر گئے، سو وہ بھی بند ہوگئے ۔جو بعد میں ”گنجے فرشتے”کے نام سے ایک مجمو عے کی شکل میں آئے۔ان خاکوں کے حوالے سے اپنے ایک مقدمے کے دوران منٹو نے کہا تھا، ”میرے پاس ایسا کوئی کیمرا نہیں جس کے ذریعے میں حشر کاشمیری کے چہرے پر موجود چیچک کے نشان مٹا سکوںیا اُس کی لچھے دار گفتگو سے فحاشی نکال سکوں۔ ”ایک اور مقدمے کے دوران کہا، ”ایک لکھاری تب ہی قلم اُٹھا تا ہے جب اُس کا احساس زخمی ہوتا ہے۔”
منٹو نہ تو درباری لکھاری بن کر،عہدوں اور مرا عات کا لالچی تھا اور نہ ہی ادھار لئے تخلیقی سَوتے خشک ہونے پر تنقید نگار بن کر اہم افراد کی تعریفوں کے پل باندھ کر پار چڑھنے کا شوقین تھا ۔اُسے کسی ازم سے لگائو تھا نہ لاگ ۔۔۔۔۔وہ تو ایک جراح تھا جس کا نشتر ہر پھوڑے ،ہر ناسور کے آپریشن کے لئے بے قرار رہتا تھا ۔یہ تمام جینوئن تخلیق کاروں کا المیہ ہوتا ہے کہ جیتے جی اُنھیں مار دیا جاتا ہے اور مارنے کے بعد اُن کے ناموں کے ساتھ جڑ کر اپنے مُردوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔تنگ نظر سماجی ٹھیکے داروں اور حاسدوں کی نفرت نے منٹو کو اندر سے توڑ دیا وہ اس حد تک ٹوٹا کہ اُس کی کرچیاں اُس کی تحریروں میں جا بجا بکھر گئیں ، سب کو لہو لہان کرنے لگیں ۔وہ ہر شے سے بے نیاز ،ہر نصیحت اور تنقید سے بے پر وا مصروف کار رہا ۔YMCA ہال لاہور میں چراغ حسن حسرت کا  ایک خاکہ پڑھتے  ہوئے اُسے باقاعدہ ہال سے باہر چلے جانے کو کہاگیا۔وہ اڑ گیا آخر اُس کی بیگم صفیہ اُسے کسی طرح باہر لے گئی ۔مالی مسائل کے باعث وہ ہر طرح کی تحریر ،ہر کسی کے کہنے پر لکھنے کو تیار تھا ۔ایڈوانس لیتااُسی وقت بیٹھ کے لکھتا اور غائب ہوجاتا ۔یہ منٹو اُس منٹو سے قطعی مختلف تھا جو1950ء میں گورنمنٹ کالج ہال میں چمک دار آنکھوں ،شاداب چہرے اور نفیس لباس میں ملبوس ”میں کہانی کیسے لکھتا ہوں”پڑھنے آیا تھا ۔پھر حلقہ ارباب ِ ذوق میں اپنا آخری افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ”پڑھنے والا منٹو زرد چہرے ، سرمئی بالوں،اور میلے اورکوٹ کے ساتھ اپنا سایہ لگ رہا تھا ۔وہ چڑ چڑا ہو چکا تھا۔ شگفتہ کاٹ دار جملوں کی جگہ وہ تنقید کرنے والوں کو خوب سنا دیتا یہاں تک کہ اُن دوستوں کو بھی ناراض کر بیٹھا جن سے وہ مالی امداد لیتا تھا ۔حد درجہ حساسیت نے اُسے عظیم لکھاری تو بنا دیا لیکن ایک نازک مزاج انسان کو لے ڈوبی۔
مظلوم اور ظالم دونوں ہی اُس کے نزدیک ایک بہت بڑی شطرنج کی بساط کے مہرے تھے ۔سو وہ انسانی سطح پر ان سب کی پیروی کرتا رہا، انسانیت کا کفارہ ادا کرتا رہا۔ اُس نے صرف کردار تخلیق کئے ،فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا ۔منٹو چونکہ کرداروں اور واقعات کو نفسیاتی سطح پر برتتا تھا ،اس لئے اُس دور کے حوالے سے تھوڑا شدت کی جانب مائل ہوگیا ۔وہ دور حقیقت پسندی کا دور تھا ۔اردو افسانے کاکینوس بھی فرد سے سماج تک پھیل چکا تھا ۔رشید جہاں کا افسانوی مجموعہ ”عورت” اور احمد علی کی کتاب” ہماری گلی” چھپ چکے تھے۔ ”انگارے ”اور” شعلے” کے افسانے ہندوستا ن کی سماجی ،سیاسی ،و مذہبی زندگی کے عجیب و غریب پہلوئوں کو بے نقاب کر رہے تھے۔سگمنڈ فرائڈ سے لکھاری بہت متاثر تھے۔منٹو پر چونکہ روسی اور مغربی تراجم نے بھی اثر ڈالا تھا اس لئے اُس کو ڈی ایچ لارنس کا مشرقی پرتَو بھی کہا جاتا ہے۔
منٹواپنے خاکے میں لکھتا ہے ۔
”ہم اکٹھے پیدا ہوئے تھے اور شاید مریں بھی اکٹھے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے۔ یہ خیال مجھے پریشان کرتا ہے کیونکہ میں نے خلوص دل سے کوشش کی ہے کہ ہماری دوستی قائم رہے۔”
لیکن یہاں منٹو فیل ہوگیا۔ اپنے میٹرک کے امتحان کی طر ح، وہ دور بہت دور اندر تک دو حصوں میں بٹ گیا اور آخرٹوٹ گیا ۔ جانے سے کچھ عرصہ پہلے صفیہ کی گود میں سر رکھے اُس نے بے حد کرب کے ساتھ کہا تھا، ”صفیہ اب یہ ذلت ختم ہوجانی چاہئے” اُس دور اندیش باریک بین کو شاید اندازہ نہ ہو سکا کہ مستقبل نے اُس کے لئے عزت کا کتنا بلند مینار تعمیر کر رکھا ہے ۔

 

https://www.mediafire.com/file/9nqzjvn34n9e1jr/5604.pdf/file

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Scan the code