Aiou course code 5603 book download free

Aiou course code 5602 book download free
الف لیلہ کا شمار دنیا کی مشہور ترین کہانیوں میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ الف لیلہ کو آٹھویں صدی عیسوی میں عرب اُدبا نے تحریر کیا اور بعد ازاں ایرانی، مصری اور ترک قصہ گویوں نے اس میں ترمیم و اضافے کیے۔ الف لیلہ کا پورا نام ’’الف لیلۃ و لیلہ‘‘ ہے ، جس کا اُردو ترجمہ ’’ایک ہزار ایک رات‘‘ ہے۔الف لیلہ کی سب سے پہلی کہانی کا نام ’’شہرزاد ‘‘ ہے ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ سمرقندکا ایک بادشاہ شہریار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورتوں سے ہی بدظن ہوگیا۔ اُس نے یہ دستور بنا لیا کہ روزانہ ایک نئی شادی کرتا اور دلہن کو رات بھر رکھ کر صبح کو قتل کروا دیتا۔ آخر اس کے ایک وزیر کی بیٹی شہرزاد نے اپنی صنف کو اس عذاب سے نجات دلانے کا ارادہ کیا اور اپنے والد کو بمشکل راضی کر کے شہریار سے شادی کر لی۔شہرزاد جانتی تھی کہ یہ شادی اس کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے، لیکن سمجھ بوجھ اور عقل مندی بھی کسی چیز کا نام ہے چنانچہ شہرزاد نے عقل کا استعمال کیا اور پہلی رات ہی سے بادشاہ کو ایک کہانی سنانا شروع کی۔ رات ختم ہوگئی، مگر کہانی ایک ایسے موڑ پر تھی کہ بادشاہ شہرزاد کو ہلاک کرنے سے باز رہا۔ ہر رات شہرزاد کہانی شروع کرتی اور صبح کے قریب اسے ایک ایسے موڑ پر روکتی کہ اس میں ایک نئی کہانی کا تجسس پیدا ہو جاتا اور وہ اس قدر دلچسپ ہوتا کہ بادشاہ اس کے بارے میں جاننے کے لیے شہرزاد کا قتل ملتوی کرتا چلا گیا۔یہ سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گیا۔ اس دوران بادشاہ اور شہر زاد کے تعلقات میں تبدیلی آتی گئی اور اُن کے ہاں دو بچے ہوگئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔بعض محققین کے مطابق الف لیلہ کی اکثر کہانیاں ، بابل ، فونیشیا، مصر اور یونان کی قدیم لوک داستانوں کو اپنا کر لکھی گئی ہیں اور انھیںحضرت سلیمان ، ایرانی سلاطین اور مسلمان خلفا پر منطبق کیا گیا ہے۔ ان کا ماحول آٹھویں صدی عیسوی کا ہے۔ محمد بن اسحاق نے ’’الفہرست‘‘ میں کہانیوں کی ایک کتاب ’’ہزار افسانہ ‘‘ کا ذکر کیا ہے، جو بغداد میں لکھی گئی تھی اور اس کی ایک کہانی بھی درج کی ہے، جو الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کتاب کا نام ہزارافسانہ تھا نیز اس میں ایک ہزار ایک داستانیں نہ تھیں بعد میں مختلف مقامات پراس میں اضافے ہوئے اور کہانیوں کی تعداد ایک ہزار ایک کرکے اس کا نام ’’الف لیلۃ و لیلہ ‘‘ رکھا گیا۔یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب اینٹونی گلانڈ نے اس کا ترجمہ کیا اسی سے دوسری زبانوں میں تراجم ہوئے۔اُردو میں یہ کتاب انگریزی سے ترجمہ ہوئی۔الف لیلہ کی کچھ مشہور کہانیوں کے نام ، ’’الہ دین۔ علی بابا۔ مچھیرا اور جن۔ سندباد جہازی۔ تین سیب۔ سمندری بوڑھااور شہر زاد‘‘ ہیں۔ ان مشہور کہانیوں میں سے ایک کہانی ’’حاتم طائی ‘‘بھی ہے ، جو ہر دلعزیز ہے۔ کہانی یہ ہے کہ یمن میں ’’طے ‘‘ نامی ایک قبیلہ آباد تھا۔ اس قبیلے کے سردار کا نام حاتم طائی تھا۔ حاتم طائی اپنی سخاوت اور خدمت خلق کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس کی سخاوت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں عرب کا حکمران نوفل تھا۔ نوفل بادشاہ ہونے کی حیثیت سے چاہتا تھا کہ ہر کوئی اس سے مدد طلب کرے اور اپنے مسائل کے حل کے لئے اس کے پاس آئے۔ نوفل ہر طرف حاتم کے چرچے دیکھ کر اُس سے حسد کرنے لگا اور ایک عرصے بعد یہ حسد دشمنی میں بدل گیا چنانچہ اس نے حاتم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فوج کے ساتھ حاتم کے علاقے پر حملہ کر دیا۔حاتم کو یہ جان کر دکھ ہوا کہ بادشاہ نے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ اس کے علاقے پر حملہ کردیا ہے۔ حاتم نے یہ سوچ کر کہ اس کی وجہ سے خون خرابا ہوگا بے گناہ لوگ مارے جائیں گے۔ اس نے اپنا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ حاتم اپنا شہر چھوڑ کر پہاڑوںمیں جا کر چھپ گیا۔ بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ جب شہر میں داخل ہوا ،تو کسی نے اس کی فوج کامقابلہ نہ کیا کیونکہ حاتم طائی شہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بادشاہ نے حاتم کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے یہ اعلان کروادیا کہ جو شخص حاتم کوڈھونڈ کر لائے گا،اس کو بہت بڑا انعام دیا جائے گا۔حاتم نے پہاڑ کی ایک کھوہ میں پناہ لے رکھی تھی۔ ایک روز اسی کھوہ کے قریب ایک بوڑھا لکڑہارا اور اس کی بیوی لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔ وہ بہت غریب تھے اور مشکل سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ روز روز کی محنت و مشقت سے تنگ آئی ہوئی لکڑہارے کی بیوی حسرت سے بولی: کاش حاتم طائی ہمارے ہاتھ لگ جاتا، تو ہم اسے بادشاہ کے حوالے کرکے انعام پالیتے اور ہمیں روز روز کی اس مصیبت سے نجات مل جاتی۔لکڑہارا بولا: فضول بات مت سوچ ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حاتم ہمارے ہاتھ لگ جائے اور ہم انعام حاصل کرکے آرام سے زندگی بسر کرسکیں۔ ہمارے نصیب میں تو صرف محنت اور مشقت لکھی ہے۔حاتم طائی کھوہ کے اندر بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا۔ یہ سوچ کر حاتم دل میں خوش ہوا کہ چلو وہ اس بے سروسامانی کی حالت میں بھی کسی کے کام آسکتا ہوں چنانچہ وہ کھوہ سے باہر آیا اور بوڑھے میاں بیوی سے بولامیں ہی حاتم ہوں۔ مجھے بادشاہ کے پاس لے چلو اور اس کے حوالے کرکے انعام حاصل کرلو۔ جلدی کرو، اگر کسی اور نے مجھے دیکھ لیا، تو پھر تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔حاتم کی باتیںسن کر لکڑہارا بولا: بھائی، تمہارا بہت شکریہ، بے شک ہم غربت کے ستائے ہوئے ہیں، مگر ہم اتنے ظالم نہیں کہ تمہیں بادشاہ کے حوالے کرکے انعام حاصل کریں۔ ہم اسی طرح محنت مزدوری کرکے زندگی کے دن کاٹ لیں گے۔ اپنے آرام کی خاطر ہم یہ ظلم نہیں کریں گے۔حاتم نے کہا: ارے بھائی! یہ ظلم نہیں،تم مجھے زبردستی پکڑ کر تو نہیں لے جارہے ہو۔ میں تو اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ جانے کو تیا رہوں۔ میرے اوپر تمہارا یہ احسان ہوگا کہ تم مجھے نیکی اور خدمت کا موقع دو گے۔حاتم نے ان کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی ،لیکن لکڑہارا کسی صورت تیار نہ ہوا، تو حاتم نے اس سے کہا: اگر تم میری بات نہیںمانتے تو میں خود بادشاہ کے پاس جاتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ اس بوڑھے نے مجھے چھپایا ہوا تھا، پھر بادشاہ تمہیں سزا دے گا۔لکڑہارا اور حاتم اس بحث میں مصروف تھے کہ کچھ اور لوگ حاتم کو تلاش کرتے ہوئے ادھر نکلے۔ انہوں نے حاتم کو پہچان لیا اور اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بوڑھا اور اس کی بیوی بھی ان لوگوں کے پیچھے چل پڑے۔ بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص یہ دعویٰ کررہا تھا کہ حاتم کو اس نے پکڑا ہے، وہی انعام کا مستحق ہے۔ بہت سارے دعویداروں کی وجہ سے بادشاہ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ حاتم کو پکڑنے والا کون ہے؟آخر بادشاہ نے حاتم سے کہا: حاتم، تم ہی بتاؤ کہ تمہیں پکڑ کر لانے والا کون ہے تاکہ اسے انعام کی رقم دی جائے۔حاتم بولا: حضور والا! سچ تو یہ ہے کہ مجھے پکڑنے والا بوڑھا لکڑہارا ہے، جو چپ چاپ پیچھے کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ باقی لوگ انعام کے لالچ میں جھوٹ بول رہے ہیں۔لکڑا ہارا بولا: حضور والا! سچ تو یہ ہے کہ میں حاتم کو پکڑ کر نہیںلایا بلکہ یہ خود آیا ہے، پھر لکڑہارے نے بادشاہ سلامت کو تفصیل سے بتایا کہ کس طرح لکڑیاں کاٹتے وقت اس کی بیوی نے کہہ دیا تھا کہ اگر حاتم ان کو مل جائے، تو وہ اسے بادشاہ کے حوالے کرکے انعام پائیں اور مصیبت کی زندگی سے نجات پائیں۔ حاتم ہماری باتیں سن کر پہاڑ کی کھوہ سے نکل آیا اور اصرار کرنے لگا کہ ہم اسے بادشاہ کے پاس لے جائیں اور انعام پائیں۔ ہم جب حاتم کو کسی طرح بھی لانے پر تیار نہ ہوئے تو وہ خود ہی آپ پاس آنے کے لیے چل پڑا۔ دوسرے لوگ تو ویسے ہی چل پڑے تھے۔ اب یہ سب انعام کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں۔بادشاہ کو جب حقیقت معلوم ہوئی ،تو اس نے حاتم سے کہا: حاتم! میں تمہاری شہرت سے تمہارا دشمن بن گیا تھا۔ مجھے اپنے کیے کا افسوس ہے۔ تم واقعی ایک عظیم انسان ہو۔ میں تم سے اپنے کیے کی معافی مانگتا ہوں۔اس کے بعد بادشاہ نے لکڑہارے کو انعام دیا اور جھوٹے دعویداروں کو سزا دی اور حاتم کا سارا علاقہ اسے واپس کرنے کا اعلان کیا۔بعض محققین کا خیال ہے کہ عرب مورخ محمد بن اسحاق نے کتاب ’’الفہرست ‘‘میں کہانیوں کی، جس کتاب کا ذکر (ہزار افسانہ)کے نام سے کیا ہے، وہ دراصل الف لیلہ ہی ہے اور اس میں جو کہانی بطور نمونہ ہے وہ الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے۔
جواب:
یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگوں کے پاس وقت گزاری، اپنی ذہنی حرارت و تھکان کو دور کرنے کے ذرائع بہت محدود تھے۔ آج کل کی طرح مختلف قسم کے کھیل کود، سیر و تفریح کے لیے خوبصورت مقامات، سرور و مستی کے لیے موسیقی وغیرہ نہیں ہو اکرتے تھے۔ نہ ادبی محفلیں سجا کرتی تھیں اور نہ ہی شعر و شاعری کی مجلسیں منعقد کی جاتی تھیں۔ روز مرہ کے معمولات میں گَلہ بانی اور اپنے کھیتو ں کام کاج کرنا شامل تھا۔دن بھر کام کرکے شام میں جب سب اکٹھا ہوتے تو ان میں کا ایک شخص جو عموماً بڑی عمر کا ہوتا تھا ، ان کی ذہنی تکان کو دور کرنے کے غرض سے قصے اور کہانیاں سناتا۔
یہ قصے بعض دفعہ مختصر ہوتے تو بعض دفعہ کئی کئی راتوں تک سلسلہ چلتا رہتا۔ ان قصوں کے موضوعات کا مرکز عموماً جن، پریاں، بادشاہ،دیو،جادو وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ہر شب قصہ گو اپنے قصے کو ایسی جگہ ختم کرتا کہ اگلے دن تمام سامعین بڑی بے صبری اور بے چینی سے آگے کے واقعات سننے کے مشتاق رہتے ۔ رفتہ رفتہ یہ قصہ گوئی لوگوں کا محبوب عمل اور بہترین مشغلہ بن گیا۔ بہت جلد ہی اس نے مستقل ایک فن کی حیثیت اختیار کر لی۔
قصہ گوئی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ اتنی ہی قدیم معلوم ہوتی ہے جتنی کہ نطق انسانی کی تاریخ۔یعنی اس روئے زمیں پر جب سے انسانوں نے بود باش اختیار کیا یہ فن کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں” حکمائے یونان کے بقول قصہ گوئی کا فن شاعری اور موسیقی کی دیویوں سے بھی قدیم تر ہے۔ ممکن ہے بعض لوک کہانیاں پانچ ، دس ہزار سال پیشتر وجود میں آچکی ہوں” قصہ گوئی اور داستان کا فن اردو زبان میں عربی اور فارسی کے توسط سے پہنچا ہے۔
عربی کے مشہور افسانے الف لیلہ، السندباد، حاتم طائی کو تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ عربوں میں زمانہ جاہلیت میں یہ فن بہت مقبول تھا ڈاکٹر گیان چند دوسری جگہ لکھتے ہیں” عرب میں داستان گوئی باضابطہ ایک فن تھا جو عہد جاہلیت میں عروج پر تھا۔ چاندنی رات میں کھانے کے بعد شائقین حضرات ریت پر اکٹھا ہو جاتے تھے،سامر(قصہ گو) قصہ سناتا تھا اجرت میں اسے کھجوریں دی جاتی تھیں”(اردو کی نثری داستانیں،ص:41)یہ عرب سے منتقل ہو کر ایران پہنچا وہاں اس نے فارسی لبادہ اختیار کیا پھر ایرانی تجار اور سیاحوں کے ذریعہ اس نے ہند کی سرزمین پہ قدم رکھا۔ اردو داں طبقہ نے اس فن کا پر جوش اور پر تپاک انداز میں آگے بڑھ کر استقبال کیااور اسے عروج و بلندی کے معراج پر پہنچایا۔
اردو ادب میں داستان گوئی کا آغاز ملا وجہی کی داستان “سب رس” 1635ء سے ہوتا ہے،لیکن ملا وجہی کی یہ داستان ایک تمثیلی داستان ہے اور اس کی عبارت مشکل اور پیچیدہ ہے، جس کی وجہ سے داستان کا اصل مقصد اس سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ باقاعدہ داستان گوئی جس میں داستان کے مقاصد کا لحاظ کیا گیا ہو انیسوی صدی کے ابتداء سے شروع ہوتی ہے۔ پہلے عطاحسین تحسین نے “قصہ چہار درویش” کا ترجمہ کیا۔ پھر میر امن نے فورٹ ولیم کالج کے تحت ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی سرپرستی میں اسی قصہ کا ترجمہ “باغ و بہار” کے نام سے سادہ اور عام فہم زبان میں 1803ء تحریر کیا ۔ فورٹ ولیم کے کالج تحت کئی داستانیں تحریر کی گئیں جن چند بہت مقبول ہوئیں جو حسب ذیل ہیں:
باغ و بہار: میر امن۔
آرائش محفل،طوطا کہانی: حیدر بخش حیدری۔
داستانِ امیر حمزہ: خلیل علی خاں ولا۔
نثرِ بے نظیر: بہادر علی حسینی۔
بیتال پچیسی: للو لال جی، مظہر علی ولا۔
سنگھاسن بتیسی: کاظم علی جواں، للو لال کوی۔
فورٹ ولیم کالج کے علاوہ انفرادی طور پر بھی انیسویں صدی کے آخر تک بے شمار داستانیں تحریر کی گئیں جن میں چند مشہور داستانیں درج ذیل ہیں:
نورتن: میر محمد بخش مہجور۔
فسانۂ عجائب: رجب علی بیگ سرور۔
گل صنوبر: نیم چند کھتری۔
الف لیلہ، بوستانِ خیال، طلسم ہوش ربا،سروش سخن،طلسم حیرت اور ان شاء اللہ خاں انشاء کی رانی کیتکی کی کہانی(1803ء شمالی ہند کی سب سے پہلی داستان) وغیرہ شامل ہیں۔
رفتہ رفتہ لوگوں کی مشغولیات میں اضافہ ہونے لگا ، لوگوں کے پاس قصہ گوئی ، داستان سننے اور کہنے کا وقت نہیں رہا۔اس کی طوالت نے لوگوں کے دھیرے دھیرے اس سے دور کر دیا اور اس فن کے زوال کے بعد افسانے ،ناول وغیرہ فنون وجود میں آئے۔
داستان کے اجزائے ترکیبی
تواترِ مہمات، پیچیدگی، شش وپنج، استعجاب و اضتراب اور اطناب کو داستان کے اجزائے ترکیبی قرار دیا جا سکتا ہے۔
خواجہ امان نے حدائقِ انظار(ترجمہ بوستان خیال) کے دیباچے میں داستان کی چند خصوصیات تحریر کرتے ہیں:
اول: مطلب مطول و خوشنما جس کی تمہید و بندش میں تواردِ مضمون اور تکرارِ بیان نہ ہو۔
دوم: بجز مدعائے خوش ترکیب و مطلب دلچسپ کوئی مضمون سامعِ خراش و ہزل درج نہ کیا جائے۔
سوم: لطافت زبان۔
چہارم:عبارت سریع الفہم ،جو کہ قصہ گوئی کے فن کا لازمی جز و ہے۔
پنجم:تمہید قصہ میں بجنسہ تواریخِ گزشتہ کا لطف حاصل ہو، تاکہ نقل و اصل میں ہرگزفرق نہ ہو سکے۔
خواجہ امان کی تحریر کردہ خصوصیات کے مطابق داستان کا طویل ہونا اس کی خوبی شمار کی جاتی ہے خواہ یہ طوالت بے جا ہی کیوں نہ ہو۔ بس اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ طوالت واقعات کے تکرار سے پیدا نہ کیا جائے۔ داستان کو طول دینے کے لیے داستان گو اور قصہ گو مصنفین نے قصہ در قصہ یعنی ایک قصے کے اندر مزید ایک اور قصہ کی تکنیک کا استعمال کیا اور اس کی بہترین مثال ابن نشاطی کی پھول بن اور باغ و بہار میں ملتی ہے۔ ایک اچھے اور ماہر داستان گو کی مہارت اور خوبی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا تا کہ وہ داستان کو کس جگہ ختم کرتا ہے اور پھر اگلے دن کہاں سے شروع کرتا ہے۔ کتنی دیر داستان کو نقطۂ عروج پر پہنچا کر روک سکتا ہے۔
مسعود حسین رضوی نے داستان کو نقطۂ عروج پر پہنچا کر روکنے کی بہترین مثال تحریر کی ہے لکھتے ہیں:
ایک بار دو ماہر فن داستان گویوں میں مقابلہ ہوا کہ کون کتنی دیر داستان کو روک سکتا ہے۔ ایک داستان گو نے قصے کو نقطۂ عروج پر پہنچا دیا کہ عاشق معشوق کے پاس آ گیا ہے ، دونوں کے وصل کے بیچ محض ایک پردہ حائل ہے، جوں ہی پردہ ہٹے گا دونوں کا فصل وصل میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس مقام پر لا کر داستان گو داستان کو روک دیتا ہے۔ اپنی وسعتِ معلومات اور طاقت لسانی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ طرفین کے جذبات اور حائل ہونے والے حجاب کا عالمانہ بیان کرتا ہے اور اس میں کئی دن صرف کر دیتا ہے۔ ہر روز سامعین اپنے دل میں یہ آرزو لیے آتے ہیں کہ آج پردہ ضرور ہٹے گا، اب کچھ بیان کرنے کو باقی نہیں رہا۔ لیکن رات کو اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ بس پردہ اٹھنے میں تھوڑی کسر باقی رہ جاتی ہے۔ اس طرح اس صاحبِ کمال داستان گو نے ایک ہفتے سے زیادہ داستان کو روکے رکھا ۔
ایک کامیاب داستان نگار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی زبان صاف اور سلیس ہو تاکہ سننے والے کے کان پہ گراں نہ گزرے ۔ الفاظ کا انتخاب سامع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا جائے، کیونکہ الفاظ اظہار خیال کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر الفاظ کا انتخاب و چناؤ مناسب طریقے پر نہ کیا جائے تو دلچسپ سے دلچسپ تر مضامین بھی بے لطف اور بد مزہ معلوم ہوتے ہیں۔داستان کی عبارت سریع الفہم و عام فہم ہونی چاہیے ، تاکہ ہر خاص و عام بآسانی سمجھ سکے۔ لفاظی اور مشکل تراکیب کا استعمال داستان کیلئے عیب گردانا جاتا ہے۔
جواب:
تاریخ گوئی اور داستان گوئی ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہوئے انھیں ایک دوسرے سے ممیز بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور دونوں کا خمیر یکسان طور پر گندھا ہوا ہے۔ اس کا اثر ہندوستانی اور پاکستاںی ڈرامہ اور تھیڑیکل میدان پر گہرا نظر آتا ہے۔ داستان گوئی اور تاریخ گوئی کی نظری مبادیات کو تین نکات میں منقسم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ راوی،۔۔۔۔۔ قصہ گو کی صورت میں ایک کہانی یا داستان میں موجود ہوتا ہے۔
۲۔ زبانی داستان گوئی، تاریخ گوئی ، رویت، اساطیر تاریخ اور ثقافت کے روایتی سلسلے ہوتے ہیں
۳۔ داستان گوئی، الفاظ، تصاویر اور آواز کے زیر وبم کے زریعے سے واقعات کو برجستگی سے ابلاغ کرتے ہیں۔
فنِ تاریخ گوئی سے مراد کسی شعر، مصرع یا نثر کے حروف کے ابجد سے کسی واقعہ کی تاریخ کا برآمد کرنا ہے۔ یہ روایت اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ہے۔ جو شعر برآمد ہو اسے ‘مادہ’ یا مادۂ تاریخ’ کہا جاتا ہے۔ فارسی و اردو میں یہ ‘تاریخ’ اور عربی میں قطعہ تاریخ اور ترکی میں یہ ‘رمز’ بھی کہلاتا ہے۔ اردو میں یہ روایت کئی صدیوں سے جاری ہے مگر اب اس کا رواج اردو سے عدم واقفیت کی بناء پر کم ہوتا جا رہا ہے۔ تاریخ گوئی بامعنی الفاظ کے زریعے کسی واقعے کی تاریخ، بحساب ابجد نکلالنا ہے۔ اور تاریخ کو حتمی طور پر متعین کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخ دن مہینہ سال ایک جملے یا مصرعے سے اخذ کی جاسکتی ہے۔۔ اسے ” مادہ تاریخ ” کہا جاتا ہے۔ کبھی کبھار یہ پچیچدگی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اور ” تاریخ گوئی” کی ہیت کا مخاطبہ تشکیک اور ابہام کا شکار ہوکر ” معمہ گوئی” کی شکل بھی اختیار کرکے چیستانی سوال کی صورت میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ داستان گوئی کا دہلی میں سب سے زیادہ چرچا رہا اور یہاں داستان گوئی کے فن کے کو ایک پرفارمنس آرٹ کے طور پر رواج دیتے ہوئے، داستان کے بیانیہ اظہار کو خلقی اور نیا رنگ عطا کیا۔ اور یہ فن ارتقا کی منازل طے کرتا رہا۔ روایت ہے کہ ایک نشست میں میر تقی میر نے بھی داستاں گوئی کے جوہر دکھائے تھے۔ داستان سے اپنی گہری دلچسپی کا اظہار اپنے خطوط میں ملتا ہے۔ مگر غدر کے ہنگامے کے بعد داستان گوئی کا فن اٹھ کر لکھنّو چلا گیا۔ اور بھر یہ فن اودہ اور رام پور کے دربار میں ” داستان گویاں” کے نام سے معروف ہوا۔ اس کے علاوہ مرثیہ گوئی کے زیر اثر داستان سرائی میں حرکات اور سکنات، لب ولہجہ اور اعضئا اشارے اور جنبش سے داستان گوئی میں تنوع پیدا ہوا۔
داستان گوئی سے متعلق مرزا اسد اللہ خاں غالب کا خیال ہے کہ ”داستان طرازی من جملہ فنون سخن ہے ، سچ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے ۔“ بقول کلیم الدین احمد ”داستان کہانی کی طویل پیچیدہ اور بھاری بھرکم صورت ہے ۔“ گیان چند جین کے مطابق ”داستان کے لغوی معنی قصہ۔ کہانی اور افسانہ کے ہیں۔ خواہ وہ منظوم ہو یا منثور۔ جس کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ضرور ہو اور جس میں فطری اور حقیقی زندگی بھی ہو سکتی ہے اور اس کے علاوہ غیر فطری، اکتسابی اور فوق العادت شاذ و نادر فوق العجائب بھی ہو سکتے ہیں۔ افسانوں کی قسموں میں داستان ایک مخصوص صنف کا نام ہو گیا تھا۔“ یورپ میں جو عاشقانہ داستانیں تصنیف کی جاتی تھیں اور ان میں کچھ کہانیاں ہیجان انگیز اور پْرکشش ہوتی تھیں وہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ ان تخیلی عاشقانہ داستانوں کو ”رومان“ کہا جاتا تھا۔ رومان کی کئی قسمیں ہوتی تھیں۔ اردو میں تاریخ گوئی اور داستان گوئی ایک عرصے سے ہورہی ہے جس پر فارسی ادبیات کا خاصا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھی گئی۔ اس سلسلے میں تسلیم سہوانی کی ” ملخص تسلیم بہ زبان فارسی {۱۸۸۵۔} ۔۔ الم کی ” گبن تاریخ”{۱۸۹۵}، کافی مشہور ہوئی۔ اس حوالے سے حافظ فیروز الدین کی ایک عمدہ کتاب” تاریخی خزانہ ” ہے۔
جواب:
عہد وسطیٰ شعر کی نغمہ طرازیوں سے ایسا گونج اٹھا کہ ہم اب تک بھی میرؔ ، سوداؔ ، مومنؔ و غالبؔ پر سردھنتے ہیں لیکن دورِجدید کا تقاضہ یہ تھا کہ اردو، ادیب ، شاعری کی مسحورکن ترنم فضاؤں سے نثرکی صاف اورسلیس سرزمین پر اتریں۔ چنانچہ مولانا حالیؔ شبلی اورآزادؔ نے گو اپنی شاعرانہ تگ و دو کے شاہکار چھوڑے ہیں لیکن وہیں ان کے نثری کارنامے بھی کچھ کم شاندارنہیں ۔ اب اسے زمانے کی رفتار کہئیے یا روح العصراورپھرکچھ اور بہر کیف عہد وسطیٰ سے ادیبوں نے بجائے شاعری کے زیادہ نثر کی جانب مائل ہونے لگے۔ یوں سمجھئے کہ جدید نثر کی مثال تاریخ اورادب میں اس مصاحب کی سی ہے جو سب سے آخر دربارشاہی میں شرکت کرکے سب سے زیادہ دربار پر چھاگیا ہو۔ مولانا حالی ، علامہ اقبال اوراکبرؔ الٰہ آبادی کی اپنی طرز ادا ہے اردو شاعری میں نئی راہیں نکالی پھر بھی موضوعات کی جتنی وسعت نثر میں فروغ پائی وہ نظم نہ بن سکی۔ اورایسا ممکن بھی نہیں
ہے ۔ کیونکہ شاعری لطیف ترین جذبات کا اظہار ہوتی ہے جس میں سیاسیات ، عمرانیات تاریخ و تذکرے ، معاشیات و نفسیات اور سائینس و صحت جیسے موضوعات باربار نہیں پاسکتے۔ جدید نثر کی سب سے عظیم خوبی جذبات و خیالات کا آزادانہ اظہاررہتاہے۔ جس کے باعث تصنع اوربناوٹ کی گلکاریوں کے بجائے صفائی وسادگی ، تناسب صحت وحقائق زندگی کی سچی عکاسی ملتی ہے۔ لیکن دوہی ادیب ایسے ملتے ہیں جو باوصف ان خصوصیت کہ اپنے طرزتحریر میں یکتا و منفرد ہیں۔ وہ ہیں مولانا محمد حسین آزاد اورمولوی نذیر احمد دہلوی۔
اردو نثر نگاری میں مولوی نذیر احمد کی اہمیت دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہانھوں نے سب سے پہلے اردو زبان و ادب کو ناول سے روشناس کروایااور دوسرا دہلی کی اس بامحاورہ زبان کو اپنی تخلیقات میں اس طرح محفوظ کیا کہ اس کا ریکارڈ ہمیں انکی تخلیقات کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتا۔ طرزِ تحریر کا اندازہ کرنے کے لئے نذیر احمد کی نثری زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (۱) تراجم (۲) مذہبی تصانیف (۳) ناول نگاری۔
مولوی نذیر احمد کی مترجمی زندگی بھی دو حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے ایک تو قرآن معظم کا مشہور و مقبول عام ترجمہ اور دوسرا متفرق تراجم جو انگریزی سے اردو زبان میں کئے گئے ۔ انگریزی تصانیف کے تراجم انکم ٹیکس، تعزیرات ہند، ضابطہ فوجداری کا تعلق آپ کے ابتدائی دور ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو زبان میں تراجم کا آغاز اس سے کافی عرصہ قبل ہوچکا تھا۔ چنانچہ سرزمین دکن میں ۱۸۰۱ء سے ۱۸۴۰ء تک کا عرصہ تراجم کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ پھر فورٹ ولیم کالج دہلی کا دور جدید اور اواخر میں سائنٹفک سوسائٹی علی گڈھ کا قیام بھی اردو تراجم میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ بجز سائنٹفک سوسائٹی علی گڈھ کے دوسری علمی و تہذیبی ادارے اردو تراجم کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ نہیں کے مساوی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اردو زبان ابھی ترجمہ کی صلا حیت نہیں رکھتی تھی۔ مولوی نذیر احمد پہلے ادیب ہیں جنھوں نے ترجمہ کے لئے زبانوں کو موزوں کیا اور انگریزی علمی و فنی اصطلاحات کو اردو سانچہ میں اس طرح ڈھالا کہ وہ اس کا ایک مستقل جزبن گئی ۔خصوصاً قانونی اصطلاحات اس قدر برجستہ ہیں کہ آج بھی قانون داں اصحاب بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ازالہ حیثیت عرفی ، استحصال بالجبر ، تحقیر اختیار جائز، مجرمانہ ثبوت جرم سابق، حبس دوام ، حبس بیجا، حفاظت خود اختیاری وغیرہ وغیرہ ۔ ان کے علاوہ وہ اصطلاحات بھی جو آج کل عموماً متروک الاستعمال ہیں لیکن اپنی جامعیت و معنویت کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں ۔ بے نام کا پتہ ، مزاحمت بیجا ، شرک افعال، بیمہ ثبوت، متلزم سزا، عافیت ذاتی ، قانونی مخض المعراء وغیرہ ۔
معزز قارئین ایک ایسے دور میں جب کہ سرزمین ہند کو علوم و فنون (مغربی) کی ہوا تک نہ لگی ہو بلکہ عوام لفظ اصطلاح سے بھی واقف نہ تھے نذیر احمد کا انگریزی علمی اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کرنا ایک نہایت ہی کٹھن امر تھا۔ اور خوبی تو اس بات کی ہے کہ نذیر احمد کے پاس تراجم کے کوئی اولیات نہ تھے پھر بھی جس حسن و خوبی سے انجام دیا آپ ہی کی شخصیت تھی۔ اردو تراجم کے بعد ان اصطلاحات کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انگریزی اصطلاحات میں جو تاثیر و قوت رہتی ہے وہ ان میں بھی جوں کی توں باقی ہے۔ دراصل اس کی کامیابی کا راز آپ کی عربی زبان پر وہ دسترس ہے جو نذیر احمد کے لئے انگریزی اصطلاحات کو اردو زبان میں منتقل کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ یہیں اہلیت بیان آپ کے ترجمہ قرآن میں بھی پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت شاہ عبدالقادرؒ اور حضرت شاہ رفیع الدینؒ کے تراجم منظر عام پر آچکے تھے لیکن ان کا انداز بیان کچھ اس طرح تھا کہ اس سے نہ صرف د ادائے مطلب کا ہی حق ادا ہوتا اورنہ اردو کی لسانی شان برقرار تھی۔ یوں سمجھئے کہ ان کا اسلوب نگاراس قدر اجنبی ہے کہ ان کی زبان سرے سے اردو ہی معلوم نہیں ہوتی ۔ برخلاف اس کے مولوی نذیر احمد کے تراجم میں ایک آیتہ کریمہ بھی ایسی نہیں ہے کہ جو ادائے مطلب میں کوتاہی برتے یا پھر بے ترتیبی ظاہر کرے۔ یوں بھی قرآن معظم کی جملہ صفات عالیہ میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس سے نہایت ہی معمولی سے معمولی مطلب سے بھی انتہائی فلسفیانہ نکات اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا ان دو انتہاؤں کو اس طرح ملا دینا کہ عبارت عام فہم بھی ہو اور باعتبار ادبیت محاوہ روزہ مرہ کی شان بھی، برقرار ہے۔ یہ صرف نذیر احمد کا ہی کارنامہ ہے ۔ ہاں بلاشبہ بعض جگہ ایسے محاورے بھی مستعمل ہوئے ہیں جو کلام الٰہی کی شایان شان نہیں ۔ لیکن اول تا آخر محاورہ روزمرہ کو فنکارانہ عبارت کے ساتھ برقرار رکھنا آپ ہی کا حصہ تھا۔ بحیثیت مجموعی آپ کا قرآنی ترجمہ نہ صرف بہ اعتبار تراجم کہ ادب و دانش میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ آپ کی خصوصیت جس کو بعد کے مترجمین نے بھی تقلید کی ہے وہ یہ کہ مترجم نے جابجا اپنی جانب سے عبارتوں کا اضافہ کیا ہے اور امتیاز کے لئے اپنی خصوصی عبارت کو قوسین میں رکھا ہے یہ عبارتیں کہیں توسیع مطلب تو کہیں تسلسل کلام ، تو کہیں سابق و لاحق کلام کا تعلق بتلانے یا سلیقہاور پختگی ذوق کو ظاہرکرتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے ترجمہ کو بعد کے سارے مترجم ، زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
نذیراحمد کا دراصل سرمایہ کمال آپ کی ناول نگاری ہے۔ مولوی عبدالحق کیا خوب فرماتے ہیں ’’مرحوم نذیر احمد اگرمراۃ العروس کے سوا کوئی دوسری کتاب بھی نہ لکھتے تب بھی اردو کے باکمال ادیبوں میں شمار ہوتے اور آپ کی حیات جاودانی کے لئے صرف یہی ایک کتاب کافی ہوتی۔ واقعی نذیر احمد کی ادبی انفرادیت جس نقطہ کمال پر آپ کے ناول نگاری میں ملتی ہے نہ تراجم میں ہے اور نہ مذہبی تصانیف میں آپ کے ناول صرف مخصوص طرز ادا کی بناء پر اردو زبان و ادب میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ بلاشبہ ایک ایسے دور میں جبکہ اردو زبان ناول کی فضا سے روشناس ہی نہ تھی نذیر احمد کا ناول نگاری میں ید طولیٰ حاصل کرلینا اردو ادب میں ایک معرکہ عظیم ہے ۔ لیکن وہیں فنی نقطہ نظر سے نذیر احمد کے ناول خامیوں سے مبرا نہیں بلکہ بعض تو انہیں ناول ہی تسلیم کرنے سے تردید کی ہے لیکن نوزائیدہ اردو نثر کے ابتدائی دور ہی میں ایک نئے فن کی داغ بیل ڈالنا کوئی آسان کام نہیں ۔ اس دور کی زندگی کی سچی تصویر ہمیں نذیر احمد کے ناول کے بجز کہیں اور نہیں ملتی۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود زندگی ہمارے روبرو مجسم ہوکر آگئی ہے اور چلتی پھرتی باتیں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کے ان گنت پہلوؤں پر نذیر احمد نے جس صداقت اور وضاحت سے روشنی ڈالی ہے اس کی نظیر اس دور کی شاعری میں اور نہ تاریخ میں ملتی ہے۔
حیات النذیر میں رقم طراز ہیں کہ بعض افراد نے دہلی میں ’’مراۃ العروس‘‘ کے کردار اصغری و اکبری کا مسکان ڈھونڈنے آ نکلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سچ مچ ضرور اصغری و اکبری بھی ہوگزرے ہیں۔ یہ واقعہ بجائے خود نذیر احمد کی حقیقت۱ نگاری پر ایک برجستہ اور جامع تبصرہ ہے ۔ غالباً اردو ادب کی تاریخ میں ایک ایسا کوئی بھی واقعہ موجود نہیں کہ کسی ادیب کے افسانوں کو لوگ یقینی سمجھنے لگے ہوں۔ درحقیقت یہ صرف نذیر احمد کی قوت بیانی اور طرز اداکا ہی جادو تھا کہ لوگوں نے اصغری و اکبری کو سچ مچ کے انسان سمجھ بیٹھے اگر اس کا مطالعہ کریں تو اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ اس کے تمام کردار ہمیں بالکلیہ جانے پہچانے قریب تر محسوس ہونے لگتے ہیں بلکہ اس کے باوجود ہم سے وہ کسی قدر دوری پر بھی معلوم ہوتے ہیں یہی کسی قدر دوری ہی ہے جو ناول کی جان اور صحیح کردار کی عکاسی کی علامت ہے جس سے زندگی نیم حقیقی و ہم افسانوی معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا نذیر احمد کے ناولوں کو پڑھنے کے بعد قاری یوں محسوس کرنے لگتا ہے کہ انھیں متعارف انسانوں کا دھوکہ ہوتا ہے گویا انھوں نے ایسے انسانوں کو خوب دیکھا اور ان کی لطف صحبت اٹھاتے رہے ہیں۔ زندگی کی ایسی عجیب و غریب عکاسی کی نظیر ہمیں اردو ادب میں بمشکل دستیاب ہے وہ دراصل نذیر احمد کی سیرت نگاری اور ساتھ ساتھ زبان پر قدرت طرز ادا کا بانکپن ہے ۔ آپ کی عظیم ادبی شخصیت کا اندازہ آپ کے ناول کے کمالات اور واقعات ہیں جن میں آپ کا علم ایک خاص قوتِ حس لے کر اٹھتا ہے اور زندگی کی نکھری تصاویر پیش کرتا ہے۔
نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں فنی اور جمالیاتی قدر و قیمت کو پیش نظر رکھا۔ ایک ایسے دور میں جبکہ مسلم معاشرہ روبہ زوال تھا اسلامی روایات دم توڑ رہی تھیں آپ کے ناول قوم میں ترقی اخلاقی سماجی اور سیاسی بیداری پیدا کئے۔ یہ ایک عظیم معرکہ تھا یاد رہے کہ کوئی آرٹ اس وقت تک انسانی روح کی تسکین نہیں کرسکتا جب تک وہ اخلاقی عناصر کا حامل نہ ہو۔ ٹالسٹائی اپنی ڈائری کے ۱۸۹۶ء کے اوراق میں لکھتے ہیں ’’انتہائی جمالیاتی کیف ہمیں کبھی مکمل تسکین نہیں دیتا اور نہ انسان اس کے علاوہ کچھ اور بھی چاہتا ہے اور وہ مکمل تسکین صرف اس چیز سے پاتا ہے جو اخلاقی حیثیت سے اچھی ہو ‘‘ اس طرح نذیر احمد کے ناولوں کی اہمیت بھی سب سے زیادہ اسی اخلاقی قدر و منزلت پر موقوف ہے ۔ آپ نے محض عوامی دلچسپی کے لئے ناول نہیں لکھے بلکہ آپ کا مطمع نظر قوم کی اصلاح و فلاح بہبود تھا۔ اس لئے وہ کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قوم غیر شعوری طور پر اس کی حالت سے آگاہ ہوکر اصلاح و ترقی پر آمادہ ہوجائے کیونکہ ناول نگاری کی بڑی خوبی یہ ہے کہ زندگی کے ذریعہ کردار کو نہیں بلکہ کردار کے ذریعہ زندگی کو بنائیں۔
نذیر احمد کے ناول کے کردار اس قدر سادے اور واضح ہوتے ہیں کہ قاری بہت جلد سمجھ لیتا ہے لیکن جب یہی کردار مزاحیہ یا طنزیہ رنگ اختیار کرجاتے ہیں تو اور بھی دلچسپ بن جاتے ہیں ۔ مرزا ظاہر دار بیگ اور ابن الوقت اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔ زندگی بسر کرنے کا انداز سکھانا نذیر احمد کی تصانیف کا سب سے بڑا مقصد ہے۔اور اس کی ترقی و ترویج میں ان کی زبان نے جو کچھ کیا وہ محتاج بیان نہیں۔
البتہ محاورہ روز مرہ سے نذیراحمد نے انداز بیان کا تعلق کسی قدر تفصیل طلب ہے۔ سب سے پہلے یاد رہے کہ محاورے کے دو جز ہوتے ہیں اصلی مفہوم اورمجازی مفہوم دونوں آپس میں زنجیر کی کڑی کی طرح ایک دوسرے سے ایسے مربوط ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ عموماً ادیب زیادہ تر محاورے کے مجازی مفہوم کو بروے کار لاتا ہے ۔ وہ زبان کی مجازی دنیا میں تب ہی رسائی حاصل کرسکتا ہے جب کہ اس میں اعلیٰ قوت تنقید موجود ہو جس کی دخل اندازی صرف زبان کے مجازی پہلو ہی سے نمایاں ہوتی ہے۔ داخلی زبان یا بامحاورہ زبان تفکر تعقل اور تنقید ہی جس کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بے محاورہ یامعروضی زبان میں ان کا فقدان ہوتا ہے۔
فرنیکائزگوون محاورہ کے تعلق سے لکھتے ہیں یہ ایک داخلی حقیقت کا بالواسطہ ارتباطی اور دانستہ تمثیلی اظہار ہے۔ اسی طرح نذیر احمد کے ناول میں بھی اسی حقیقت نگاری کے خدو قال زیادہ نمایاں ہیں یہی داخلی انفرادیت ہے جو انھیں صاحب طرز ادیب کے زمرہ میں ایک وقیع حیثیت عطا کرتی ہے۔
آخرمیں نذیراحمد کے ناولوں کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہوئے آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔ نذیر احمد کے دوناول لڑکیوں کے لئے ہیں ان کا موضوع تعلیم ، تہذیب اور اخلاق ہے ۔ مراۃ العروس دو سگی بہنوں کا قصہ ہے جس میں ایک سمجھ داراورمتین اوردوسری پھوہڑ اوربدمزاج ۔ قصہ تمام تر اصلاحی ہے لیکن ان کے شگفتہ طرزبیانی مزاح کے لطف کی رنگارنگی سے اس میں دلآویزی پیدا ہوگئی ہے۔ بنات النعش میں افسانوی عنصر تقریبا مفقود ہے موضوع ایک بدمزاج اور پھوہڑ امیرزادی کی اصلاح ہے۔ اس کی آئے دن کی بدعنوانیوں سے تنگ آکر اصغری کے پاس بھیجا جاتا ہے جو پہلے ناول مراۃ العروس کی ہیروئین ہے ۔ نئی زندگی سے متاثر ہوکر وہ ایک سنجیدہ اور سمجھدار بن جاتی ہے۔ توبتہ النصوح تمام تر ایک انگریزی ناول سے ماخوذ ہے ۔ ابن الوقت کا موضوع ہنگامی ہے اس لئے آج ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ لیکن نذیر احمدکے زمانے میں یہ ایک نہایت ہی اہم سوال تھا ۔ نذیر احمد انگریزی تعلیم اور تہذیب کے مخالف تو نہیں تھے لیکن انہیں پسند بھی نہ تھا کہ مسلمان معاشرہ اپنی تہذیب کو چھوڑ کر انگریزیت اختیار کریں بعض کا خیال ہے کہ ابن الوقت کا اشارہ سرسید کی جانب ہے۔ اس کے پڑھنے سے یہ خیال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ یہ ناول دراصل ایک تاریخی واقعہ پر مبنی ہے ۔ جان نثاران کی بہترین تخلیق ہے جو خطوط رسانی کے فرائض کے بارے میں دلچسپ پیرائے میں پیش کی گئی ہے۔ فسانہ مبتلاً ایک طبع زاد ناول ہے جس میں تعدد ازدواج کے برے نتائج کو ایک قصہ کے پیرایہ میں دکھایا گیا ہے ۔ ’’ایامی‘‘ ایک اصلاحی ناول ہے جس میں بیوہ کے عقد ثانی کی ضرورت کو ایک قصہ کے پیرایہ میں سلیس زبان میں پیش کیا گیا ہے۔
ا
ناول اطالوی زبان کے لفظ Novellaسے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کے معانی ہیں انوکھا، عجیب ، نرالا، نئی چیز اور بدعت۔ اصطلاحی معنوں میں ناول وہ قصہ یا کہانی ہے جس کا موضوع انسانی زندگی ہو۔ یعنی انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور معاملات کا انتہائی گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل میں پیش کرنے کا نام ناول ہے۔ ناول کی تاریخ اتنی قدیم نہیں جتنی بقیہ اُردو اصناف کی ہے۔ ناول کی ابتد اٹلی کے شاعر اور ادیب جینووینی بو کا شیو نے ۵۵۳۱ءمیں ناویلا سٹوریا نامی کہانی سے کی۔ انگریزی ادب میں پہلا ناول ”پا میلا “ کے نام سے لکھا گیا اُردو ادب میں ناول کا آغاز انیسویں صدی میں انگریزی ادب کی وساطت سے ہوا۔
اردو ناول کا آغاز ارتقاء
اردو ناول کا پہلا دور (آغاز سے 1936 تک)
اردو میں ناول کی صنف انگریزی ادب سے آئی ہے۔انگریزی ادب میں سیمیوئیلیل رچرڈسن کا “پامیلا آرورچور ریوارڈڈ 1740 میں منظر عام پر آیا اور اس طرح گویا انگریزی قصہ کہانی نے ناول کا روپ اختیار کر لیا ۔اردو انگریزی زبانوں میں ناول کے آغاز کے درمیان ا29 برس کا فاصلہ حائل ہے۔اردو ناول کی پہلی اور مصبوط ترین کڑی ڈپٹی نذیر احمد کا ناول مراة العروس 1869 ہے ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کو اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیاجاتا ہے۔ دراصل ڈپٹی نذیر احمد کے اصلاحی قصوں کو ناول قرار دینا درست نہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں قصوں کو ایک نئے انداز میں رقم کرنے کا جو انداز ملتا ہے اس کے ناول کی تکنیک سے رشتے تلاش کیے جاسکتے ہیں مگر انہیں انہیں ناول تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی وہ ناول کی فنی خصوصیات پر پورا اترتے ہیں اس سلسلے میں
پروفیسر سید وقار عظیم کے مطابق
ڈپٹی نذیر احمد کے جن قصوں کو متفقہ طور پر ناول کہا گیا ہے اُن میں فن کے وہ لوازم موجود نہیں جن کا مطالبہ جدید ناول سے کیا جاسکتا ہے۔ پلاٹ اور اُس کے مختلف اجزائ، ایک اہم موضوع اور موضوع کو پیش کرنے کیلئے ایک موزوں اور پرکشش آغاز، الجھن، منطقی انجام، زندگی سے بھرپور کردار، ایک واضح نقطہ نظر کی موجودگی، مقصد اور فن کا باہمی توازن، موضوع اور بیان میں مکمل مطابقت، مصنف کی شخصیت کا گہرا پر تو اور اُس کی فکری وجذباتی صلاحیتوں کا پورا مشاہدہ، نذیر احمد کی قصوں میں یہ سب کچھ نہیں ملتا، یہ کہنے میں زرا تکلف نہیں برتا جاتا کہ یہ قصے ناول نہیں ہیں۔
ڈاکٹر احسن فاروقی کے مطابق
ڈپٹی نذیر احمد کے قصوں کو تمثیلی افسانے قرار دیا ہے۔ مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ نذیر احمد نے ادب میں ایک نئی چیز متعارف کرائی اگرچہ میں نذیر احمد کے فن سے اتفاق نہیں کرتا مگر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان سے قبل اردو ناول میں کوئی نقشِ تقلید موجود نہ تھا۔ ظاہر ہے جب پہلی دفعہ کسی نئی چیز کیبنیاد رکھی جاتی ہے تو اُس میں غلطیوں کا احتمال لازمی امر ہے۔ آج اردو ناول جس ترقی یافتہ شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اس کی بنیاد ڈپٹی نذیر احمد نے رکھی۔
ہمارے ناول سے جو بھی رابطے ہوں یہ طے ہے کہ ہم نے اپنی تکمیلی صورت مغرب سے مستعار لی یوں تو ہمارے ہاں کہانی سے ناول تک کا سفر اپنا ایک ارتقائی مقام رکھتا ہے اس سفر میں سرشار کے ہاں کرداروں کی کثرت، شیرر کے ہاں منتشر واقعات کے باوجود پلاٹ کی صورت اور نذیر احمد کے ہاں معاشرتی جھلکیاں ابھرتی ہیں۔ا بتدائی دور میں اردو ناول تمثیل کی سطح تک رہا جس میں جامد اور غیر تاثر پذیر قسم کے کردار تھے۔ ناول کے موثر کردار ہمارے ہاں درجہ بدرجہ اُبھرے، تب کہیں جا کر ”امرو جان ادا“ اور ”گﺅدان“ ابھرے۔
جب ہم مشرق و مغرب کے ہاں ناول نگاری کے مقاصد کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دونوں کے مقاصد میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں کے ناول کا مقصد نہ مغرب کی طرح لامحدود آزادی کی لگن ہے نہ محض زندہ رہنے کی آرزو نہ تقدیر کی وہ طنز جس کے آگے فرد محض بے معنی ہے اور نہ یہاں کی زندگی کسی Idiotکی ستائی ہوئی کہانی ہے۔ ہمارے ناول کا موضوع ہماری بدلتی ہوئی بنتی ہوئی اور بگڑتی ہوئی اقداءہیں اور ہمارے ہاں ناول کی شروعات اُن ایام میں ہوئی جب یہ خطہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہا تھا اس لیے ناول کے مرکز میں غیر یقینی ماحول کا پیدا ہونا عین فطری امر تھا۔ چونکہ ہمارے ہاں ناول کی عمر ۳۴۱ سال بنتی ہے اور جن زبانوں میں ناول کی عمر تین صدیوں سے زائد ہے اُن سے اردو ناول کا تقابل کرنا قرینِ قیاس نہیں۔ تاہم اُردو ناول کا افق اتنا محدود نہیں کہ اُردو ناول نگار کسی احساس کمتری کا شکار ہوں۔
مولوی نذیر احمد، مرزا ہادی رسوا اور عبدالحیلم شرر نے انیسویں صدی کے اواخر میں اردو ناول کو جو بنیاد فراہم کی تھی اس پر ایک قصرتعمیر کرنے کے آثار بیسویں صدی میں نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی ناول نگاروں میں منشی پریم چند، نیاز فتح پوری اور علی عباس حسینی کے نام اہم ہیں۔ پریم چند کے ناولوں میں اصلاحی رحجانات اور حقیقت نگاری نظر آتی ہے۔ نیاز فتح پوری کا ناول ”شہاب کی سرگزشت“ حقیقت کو فلسفے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ علی عباس حسینی نے طربیہ ناول لکھنے کی کوشش کی ”قاف کی پری“ اور ”شاید کہ بہار آئے“ ناولوں میں محبت کے عمل کو مثالی کرداروں کی مدد سے امتحان سے گزرنے کا موقع دیا۔ حسینی مرزا رسوا کے شاگرد تھے تاہم اُن کی ناول نگاری پر رسوا کے اثرات نظر نہیں آتے۔
اردو ناول کا دوسرا دور ( 1936 سے قیام پاکستان تک)
ترقی پسند تحریک چوں کہ ایک واضح اشتراکی رجحان رکھتی تھی اس لیے اس تحریک کے زیر اثر جو ادب تخلیق ہوا اس میں اشترکیت ہی متاثر سیاسی و معاشی اور اسی رحجانات کو ادب میں شعوری طور پر سمونے کی کوشش کی گئی دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ ناول میں بھی یہ موضوعات آئے اس سے ناول کو ایک طرح سے فائدہ بھی ہوا ہر نیا تجربہ ، نئی سوچ عمل اور نصیب العین ادب میں اضافے ہی کا باعث بنتا ہے۔ترقی پسند مصنفین سجاد ظہیر، کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک وغیرہ نے کسی نہ کسی حوالے سے ناول کی ضرور خدمت کی اور اس صنف کو آہستہ آہستہ ایک بڑے ناول نگار کیلئے ساز گار بنایا۔
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جس طبقاتی معاشرے کی نمائندگی کی گئی ہے اس کے اثرات بعد کے ناول نگاروں میں بھی موجود ہیں۔ والدہ افضال علی، اے آر خاتون، وحیدہ نسیم، الطاف فاطمہ، رضیہ بٹ، سلمی کنول اور بشری رحمن کے ہاں بھی طبقاتی لشکارے نظر آتے ہیں۔
ناول کا تیسرا دور (قیام پاکستان کے بعد اردو ناول)
1950ءکی دہائی میں ناول کے افق پر جو سب سے بڑی شخصیت رونما ہوئی وہ قرة العین حیدر کی شخصیت ہے۔ 1959میں قرة العین حیدر کا ناول ”آگ کا دریا“ شائع ہوا۔ اس سے پہلے ان کے ناول ”میرے بھی صنم خانے“ اور ”سفینہ غم دل“ شائع ہوچکے تھے۔ مگر ”آگ کا دریا“ اُن کا نمائندہ ناول ہے۔ آگ کا دریا بڑے کینوس کا ناول ہے جو گذشتہ چار ہزار سال کی تہذیبی، سیاسی ، تاریخی اور معاشرتی زندگی کی عہد بہ عہد ابھرنے والی علامتوں سے گزرتا ہوا عہد جدید تک آتا ہے۔ آگ کا دریا فنی اعتبار سے اُردو ناول نگاری میں ایک نیا تجربہ تھا۔ اس ناول میں مصنفہ نے مغربی ناول کی تکنیک ”شعور کی رو“ استعمال کی ہے۔
عبداللہ حسین اردو کے بڑے اہم ناول نگار ہیں وہ ”اداس نسلیں“ کے ذریعے اچانک اردو ناول کے منظر پر ابھرے۔ اس ناول کا سیاسی اور سماجی پس منظر انگریزی حکومت کے نوے سالوں پر محیط ہے۔ لیکن اس دور کے واقعات ناول کی بنت میں پوری طرح سما نہیں سکے۔
ناول نگار نے ایسے موضوع کا انتخاب کیا جو بہت وسیع تھا۔ ناول کے آخر میں قاری الجھاو کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ میری رائے میں ناول نگار آخر میں خود الجھاو کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہانی پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور ناول نگار جان چھڑانے کے چکر میں ہے۔
متماز مفتی کا ناول ”علی پور کا ایلی“ بھی اُردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ مفتی ہیت کے بجائے مواد پر زور دینے والے قلمکار ہیں۔ وہ اظہار کیلئے ہیت کی توڑ پھوڑ اور اس سے انحراف سے گریز نہیں کرتے۔ زندگی کا کوئی واضح نقطہ نظر ناول میں نظر نہیں آتا۔
محمد احسن فاروقی کا ناول ”شامِ اوودھ“ اُن کیلئے وجہ شہرت بنا۔ امراﺅ جان ادا کے بعد یہ اُردو کا پہلا ناول ہے جس میں لکھنو¿ کی مٹتی ہوئی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔
فضل کریم فضلی کا ناول ”خونِ جگر ہونے تک“ سماجی حقائق کو غیر آرائشی اور سادہ انداز میں سامنے لاتا ہے اس ناول کا پس منظر تقسیم سے قبل کا بنگال ہے۔
حیات اللہ انصاری کے ناول ”لہو کے پھول“ میں اشتراکی نظریے کی فوقیت ثابت کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ یہ ناول دراصل ترقی پسند تحریک کا منشور ہے۔
خدیجہمستور کا ناول ”آنگن“ گھر کی کہانی ہے۔ اس ناول سے نظریہ پاکستان کے بنیادی مباحث جنم لیتے ہیں۔
اس دور کے ایک اہم ناول نگار غلام اثقلین نقوی ہیں اُن کا ناول ”میراگاﺅں“ ایک بہت ہی مختلف قسم کا ناول ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا ایسا ناول تو کبھی کبھار تخلیق ہوتا ہے اور جب تخلیق ہوتا ہے تو اپنے عہد کا عظیم ناول قرار دیا جاتا ہے۔
قدرت اللہ شہاب کا ناول ”یا خدا “ قیام پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات کی عکاسی کرتا ہے ناول کا موضوع اس دور کا عام موضوع ہے۔ ناول کے اندر کوئی جدت اور ندرتِ خیال نہیں ہے بس ایک مظلوم عورت کی کہانی ہے جسے فسادات کے مظالم نے بے حس کر رکھا ہے۔ شوکت صدیقی کا ناول ”خدا کی بستی“ ایک اہم ناول ہے جس نے عام اور نچلے طبقے کی زندگی کے دو بھٹکے ہوئے نو عمر کرداروں کو زندگی کے سفر میں دکھایا ہے۔ یہ ناول بڑی سفاک حقیقت نگاری، زبان اور مکالمے کی کاٹ اور خارج کی عمدہ تصویر کشی کے باوجود ہمارے بعد کے ناولوں کیلئے کوئی روایت نہیں چھوڑتا۔
تاریخی ناول نگاری میں ربیس احمد جعفری کا ناول مجاہد، قیسی رام پوری کا جون نسیم حجازی کا خاک و خون زیادہ نمایاں ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ بیسویں صدی کے آخری ربع میں ایک اہم ناول نگار کے طور پر اُبھرتے ہیں اُن کا ناول ”بہاو“ ایک تہذیب کے اُجڑنے کا منظر پیش کرتا ہے۔ معاصر تاریخ کو موضوع بنانے کے حوالے سے انتظار حسین کا ناول ”آگے سمندر ہے“ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ناول میں کراچی کے فسادات کو انتہائی فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ موضوع بنایا گیا ہے۔ ان ناولوں کے علاوہ دستک نہ دو (الطاف فاطمہ) تلاش بہاراں (جمیلہ ہاشمی) نگری نگری پھرا مسافر (عزیز بٹ) باگھ (عبداللہ حسین) راجہ گدھ (بانو قدسیہ) بستی (انتظار حسین) محاصرہ (انیس ناگی) خوشیوں کا باغ (انور سجاد) وغیرہ وہ ناول ہیں
https://www.mediafire.com/file/nk254qe3tcddjbg/5603.pdf/file