aiou course code 4602-2solved assignment autumn 2022/23

aiou course code 4602-2solved assignment autumn 2022/23

اسلام۔۱۱. 4602

مشق۔2۔

 

سوال نمبر ایک برصغیر میں برطانوی عہد کے آغاز و ارتقاء کی تعریف بیان کریں

جواب۔

ہندوستان میں برطانوی راج: مہاراجے اور حکمران جنھیں انگریزوں نے ’زوال پذیر‘ شخصیات کے طور پر دیکھا

ادھے پور کے فتح سنگھ نے اپنے جاہ و جلال کو بڑی حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا

آزادی سے قبل ہندوستان کے مہاراجوں یا شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کے بارے میں ہاتھیوں، رقص کرتی لڑکیوں اور عظیم الشان محلات جیسے تصورات عام رہے ہیں لیکن تاریخ دان منو پلئی نے ان مہاراجوں یا حکمرانوں کی میراث پر نظرثانی کی ہے۔

اگر آپ ان کے زیورات، محلوں اور عالیشان درباروں سے ہٹ کر دیکھیں تو آپ ایک بات ضرور نوٹ کریں گے کہ ان کو بڑے پیمانے پر طعنے دیے گئے، ان کا مذاق اڑایا گیا یا پھر ان میں عیب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔

انگریز اپنے دور میں ہندوستان کے ’مقامی‘ شہزادوں کو زوال پذیر شخصیات کے طور پر دیکھتے تھے جو حکومت کی بجائے سیکس اور زرق برق ملبوسات میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

مثال کے طور پر ایک سفید فام آفیسر نے مہاراجوں کو ’ہیبت ناک، گھناؤنا اور ظاہری شکل و صورت میں قابل نفرت‘ قرار دیا، جو کسی رقاصہ کی طرح ’بالیاں اور ہاروں سے آراستہ‘ ہوتے تھے۔

سفید فام آفیسر نے یہ بھی کہا کہ ’سفید فام مردوں کے برعکس یہ مہاراجے مردانہ وجاہت نہیں بلکہ زنانہ صفات کے مالک احمق لوگ ہیں۔‘

مہاراجوں کو بدنام کرنے کی سوچی سمجھی کوشش

مہاراجوں کے بارے میں یہ دقیانوسی خیالات دہائیوں تک قائم رہے۔ سنہ 1947 میں لائف میگزین نے بھی کچھ اعداد و شمار پیش کیے جن کے مطابق ایک مہاراجہ کے پاس اوسطاً ’11 خطاب، تین یونیفارم، 5.8 بیویاں، 12.6 بچے، پانچ محل، 9.2 ہاتھی اور کم از کم تین رولز روئس گاڑیاں ہوتی تھیں۔‘

میسور کے چمرجندر وڈیار نے صنعتی منصوبوں پر کام کی گمراہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اعدا و شمار مضحکہ خیز بھی تھے کیونکہ یہ کل 562 ریاستوں پر مشتمل تھے جن میں زیادہ تر چھوٹی ریاستیں شامل تھیں اور ان کی سیاسی اہمیت بہت ہی کم تھی۔

لاکھوں لوگوں پر حکمرانی کرنے والے تقریباً 100 مہاراجوں کو بہت چھوٹی ملکیت والے زمینداروں کے برابر کھڑا کر دینا ٹھیک نہیں تھا۔ اس سے ان کی نہ صرف حیثیت کمزور ہوئی بلکہ عوام کے سامنے وہ کارٹونوں جیسے کردار بن کر رہ گئے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ شاہی علاقے برصغیر کے چالیس فیصد حصے پر پھیلے ہوئے تھے اور براہ راست نوآبادیاتی کنٹرول میں نہیں آتے تھے بلکہ مختلف معاہدوں کے ذریعے برطانوی راج سے منسلک تھے، لیکن سبھی راجہ ویسے نہیں تھے جیسی ایک عام تصویر پیش کی جا رہی تھی۔

لائف میگزین نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ ریاست کوچِن کے مہاراجہ کسی لونڈی کی گود میں ہونے کی بجائے سنسکرت کی کسی کتاب سے لطف اندوز ہو رہے تھے جبکہ ریاست گوندل کے حکمران ایک تربیت یافتہ ڈاکٹر تھے۔

بڑی ریاستوں پر ’خود کو عظیم سمجھنے والے‘ ایسے آمروں کی حکومت نہیں تھی جو شراب اور سیکس کے نشے میں ڈوبے رہتے تھے بلکہ یہاں سنجیدہ سیاسی شخصیات کی حکومت تھی جو اپنی ریاستوں کو جائز سیاسی جگہوں کے طور پر دیکھتے تھے۔ہاں البتہ مہاراجوں پر غیر سنجیدگی کے الزامات میں کچھ سچائی ہے۔ جیسے ایک بار ایک مہاراجہ نے ایک سکاٹش ریجمنٹ کو دیکھا اور فوراً اپنے سپاہیوں کو سکرٹس پہنا دیں جبکہ ایک اور مہاراجہ کا دعویٰ تھا کہ وہ فرانس کے حکمران لوئس چودھویں ہیں جن کا پنجابیوں میں دوبارہ جنم ہوا ہے۔

ویسے اس طرح کی احمقانہ کہانیا برطانوی حکمرانوں سے بھی جوڑی جاتی رہی ہیں۔ جیسے ہندوستان کے وائس رائے رہنے والے لارڈ کرزن کو ایک مرتبہ برہنہ ہو کر ٹینس کھیلتے پایا گیا تھا۔

بڑودا کے سیاجی راؤ برطانوی سامراج کے تیز ترین شاہی نقاد کے طور پر ابھرے

سوال نمبر2 خلافت عثمانیہ کے زوال کے اسباب بیان کریں

جواب۔

خلافت عثمانیہ کے زوال کے اسباب

علامہ ابو الحسن علی ندویؒ خلافت عثمانیہ کے زوال کی تاریخ اور وجوہات کوبیان کرتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ:

“کہ سب سے بڑا مرض جو ترکوں میں پیدا ہوا تھا وہ جمو دتھا اور جمود بھی دونوں طرح کے علم وتعلیم میں بھی جمود اور فنون جنگ اور عسکری تنظیم وترقی میں بھی ۔۔۔ علمی جمود اورذ ہنی اضمحلال اس وقت صرف تر کی اور اس کے علمی اور دینی حلقوں کی خصوصیت نہیں تھی ، واقعہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلامی مشرق سے مغرب تک ایک علمی انحطاط کا شکار تھا ، دماغ تھکے تھکےسے تھے اور طبیعتیں بجھی بجھی سی نظر آتی تھیں اور ایک عالمگیر جمود اور افسردگی چھائی ہو ئی تھی ،اگر ہم احتیاطًا آٹھویں صدی سے اس ذہنی اضمحلال کی ابتدا ء نہ کریں تو اس میں شبہ نہیں کہ نویں صدی وہ آخری صدی تھی ،جب جدت فکر ،قوت اجتہاد اور ادب وشاعری ،حکمت وفن میں ندرت اور تخلیق کے آثار نظر آے ہیں ، یہی وہ صدی ہے جس میں مقدمہ ابن خلدون جیسی مفکرانہ تصنیف عالم اسلام کو حاصل ہو ئی ،دسویں صدی سے بہت واضح طور پر افسردگی ، شدت تقلید اور نقالی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں ، یہ افسردگی اور اضمحلال کسی خاص شعبہ اور کسی خاص فن کے ساتھ مخصوص نہیں تھا ، دینی علوم ، شعر وادب ،انشاٗ وتاریخ تعلیمی نصاب ونظام سب کے سب کم وبیش اس سے متا ثر نظر آتے ہیں ، پچھلی صدیوں کے علماء کے تذکرے اور کتب وسوانح پڑھئے ، سینکڑوں ناموں میں ایک ایسے شخص کا ملنا مشکل ہو گا جس پر عبقری کے لقب کا اطلاق کا لقب درست ہو یا جس نے کسی موضوع پر کوئی نئی چیز پیش کی ہو ، یا کسی خاص علم میں اس نے کو ئی گرانقدر اضافہ کیا ہو ۔۔۔۔ سوائے مجدد الف ثانی کے مکتو بات اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ البا لغہ ۔شاہ رفیع الدین کی تکمیل الاذہان ،شاہ اسماعیل شہید کی چند ایک تصانیف۔۔۔۔

صرف علم دین پر منحصر نہیں ،ادب وشاعری بھی اپنی زندگی اور تازگی کھو چکی تھی اور ان پر بھی تقلید وتتبع کا غلبہ تھا ،نثر وانشاٗ پردازی کو تکلف وتصنع وقافیہ پیمائی ، لفظی صناعی اور عبارت آرائی نے بے رونق وبے روح بنا رکھا تھا ، دوستوں کے خطوط ،تاریخ کی کتابیں اور دفتریں ،تحریریں اور فرامین سے بھی س عیب پاک نہیں تھے ، کہیں کہیں ادب وانشاٗ کا کوئی ایسا نمونہ آجاتا ہے جو اس زمانے کے مذاق عالم سے الگ اور پست سطح سے بلند نظر آتا ہے ”

پھر آگے فرماتے ہیں کہ:

” سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی ہی سے ترک تنزل وانحطاط ، علمی پسماندگی اور جمود کا شکار ہو چکے تھے ،تاریخ انسانی کا یہ وہ اہم ترین عہد ہے جس کا اثر بعد کی صدیوں پر نقش ہے ، یو رپ اس میں اپنی لمبی نیند سے بیدار وا تھا اور ایک جوش وجنوں کی حالت میں اٹھ کر غفلت اور جہالت کے اس طویل زمانہ کی تلا فی کر نا چاپتا تھا ، وہ ہر شعبہ حیات میں ناگریز ترقی کر رہا تھا ، طبعی قوتوں کو مسخر ، کا ئنات کے اثرات کو منکشف اور نا معلوم سمندروں اور اقلیموں کی دریا فت کر رہا تھا، ہر علم وفن میں اس کی فتو حات اور زندگی کے ہر شعبہ میں اس کے انکشافات جاری تھے ،اس مختصر سی مدت میں اس کے یہاں ہر علم میں بڑے بڑے محقق ، مو جد اور مجتہد فن پید اہو ئے ،کو پرینکس ، گلیلو ، کیپلر اور نیو ٹن وہ عالم وہ محقق تھے ،جنہوں نے ہیئات وطبعیات کا ایک جدید نظام پیدا کردیا ،سیاحوں اور جہاز رانوں میں کو لمبس ،واسکو ڈی گا ما اور میگلن جیسے عالی ہمت ،اولو العزم پید اہو ئے ، جنہوں نے نئی دنیا اور نا معلوم ممالک در یا فت کئے ۔

علم وصنعت کے میدان میں تر کوں کی پسماندگی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ سولہویں صڈی مسیحی سے پہلے تر کی میں جہاز سازی کی صنعت شروع نہیں ہو ئی تھی ، اٹھارویں صدی عیسوی میں ترکی پریس ومطابع حفظانِ صحت کے مراکز اور فوجی تعلیم طرز کےمدارس سے روشناس ہو ئے ۔،اٹھارویں صدی کے آخر تک ترکی نئی ایجادات اور ترقیوں سے اس قدر بیگا نہ تھا کہ جب قسطنطنیہ کے با شند وں نے دار السطنت پر ایک غبارہ کو پرواز کرتے ہو ئے دیکھا تو اس کو سحر یا کیمیا کی کر شمہ سازی سمجھے ، نہ صرف یو رپ کی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں تر کی سے اس میدان میں بازی لے جا چکی تھیں ،بلکہ مصر بھی بعض مفید چیزوں سے فا ئدہ اٹھانے میں پیش قدمی کر چکا تھا ،ترکی سے چار سال پہلے مصر میں ریلوے نظام قائم ہو چکا تھا ،ڈاک ٹکٹ بھی چند مہینے پہلے مصر میں را ئج ہو چکا تھا ۔

سوال۔3۔ عالم اسلام کے اہم مسائل کون کون سے ہیں تفصیل سے بیان کریں

جواب۔

موجودہ وقت میں مسلمانوں کے لیے جس قدر سنگین یہ مسئلہ ہے کہ وہ ہر سطح پر اور ہر علاقہ میں مشکلات کا شکار ہیں اسی قدر؛ بلکہ اس سے بڑھ کر خطرناک، وہ صورتِ حال ہے جو مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی مذموم مساعی کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے؛ بلکہ درحقیقت پہلا مسئلہ بڑی حد تک اسی صورتِ حال کا نتیجہ اور اس کا شاخسانہ ہے۔ یہ واضح کرنے کے لیے کسی دلیل وحجت کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ صورتِ حال کن طاقتوں کی پیدا کردہ ہے۔

 

حالات پر سرسری نظر رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ تازہ صورتِ حال، جن واقعات وحادثات کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، ان کا واضح طور پر آغاز، اکیسویں صدی عیسوی کے پہلے سال ۲۰۰۱/ میں پیش آنے والے نائن الیون کے حادثہ سے ہوا ہے، جس سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے مضرثابت ہونے والا کوئی دوسرا واقعہ گذشتہ چوتھائی صدی میں پیش نہیں آیا۔ اس سے قطع نظرکہ اس واقعہ اصلی ذمہ دار کون ہے اور اس کے پس پشت کن لوگوں کا کردار ہے، اس سے زیادہ مسلمانوں کے لیے نقصان دہ اور امریکہ ومغربی طاقتوں اور صہیونیت کے لیے فائدہ مند کوئی دوسرا واقعہ ملنامشکل ہے۔ اس واقعہ کے بعد ہی اسلام دشمن طاقتیں اپنی اس خواہش کو پورا کرنے میں کامیاب ہوسکیں کہ مسلمانوں کو برملا دہشت گرد کہیں، اسلام کو دہشت گردی کامنبع قرار دیں اور ہربرائی کا انتساب مسلمانوں کی جانب کردیا کریں۔

سوال نمبر۔4 برصغیر میں مغل عہد حکومت کے نمایاں پہلوؤں پر روشنی ڈالیں

جواب۔

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اور ان کے رویے کے بارے میں یہ تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی اردو پر چار مارچ 2018 کو شائع کی گئی تھی جسے اب قارئین کے لیے دوبارہپیش کیا جا رہا ہے۔

مغل بادشاہوں میں صرف ایک شخص انڈیا کی اکثریتی برادری میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس شخص کا نام اورنگزیب عالمگیر تھا۔ انڈین افراد کے درمیان اورنگزیب کی تصویر ایک سخت گیر مذہبی ذہنیت والے بادشاہ کی ہے جو ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا اور جس نے اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ کو بھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے نہیں بخشا۔علاوہ ازیں اس نے اپنے معمر والد شاہجہاں کو ان کی زندگی کے آخری ساڑھے سات سال تک آگرہ کے قلعے میں قید رکھا۔

پاکستان کے ایک ڈرامہ نگار شاہد ندیم نے لکھا ہے کہ ’تقسیم ہند کے بیج اُسی وقت بو دیے گئے تھے جب اورنگزیب نے اپنے بھائی دارا کو شکست دی تھی۔‘

’انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے بھی سنہ 1946 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ‘ڈسکوری آف انڈیا’ میں اورنگزیب کو ایک مذہبی اور قدامت پسند شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔

لیکن حال ہی میں ایک امریکی تاریخ داں آڈرے ٹرسچکی نے اپنی تازہ کتاب ‘اورنگزیب، دا مین اینڈ دا متھ’ میں بتایا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ اورنگزیب نے مندروں کو اس لیے مسمار کروایا کیونکہ وہ ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا

ٹرسچکی نیوارک کی رٹجرس یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کی تاریخ پڑھاتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ اورنگزیب کی اس شبیہ کے لیے انگریزوں کے زمانے کے مؤرخ ذمہ دار ہیں جو انگریزوں کی ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت ہندو مسلم مخاصمت کو فروغ دیتے تھے۔

اس کتاب میں وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اگر اورنگزیب کی حکمرانی 20 سال کم ہوتی تو جدید مؤرخوں نے ان کا مختلف ڈھنگ

سے تجزیہ کیا ہ

وتا۔

لال قلعہ ہندوستان میں مغل سلطنت کی تاریخ کا امین ہے

اورنگزیب نے 49 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت اتنی وسیع ہوئی کہ پہلی بار انھوں نے تقریباً پورے برصغیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔

ٹرسچكی لکھتی ہیں کہ اورنگزیب کو ایک کچی قبر میں مہاراشٹر کے خلدآباد میں دفن کیا گیا جبکہ اس کے برعکس ہمايوں کے لیے دہلی میں لال پتھر کا مقبرہ بنوایا گیا اور شاہ جہاں کو عالیشان تاج محل میں دفنایا گیا۔

ان کے مطابق؛ ’یہ ایک غلط فہمی ہے کہ اورنگزیب نے ہزاروں ہندو منادر توڑے۔ ان کے حکم سے براہ راست چند منادر ہی توڑے گئے۔ ان کے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جسے ہندوؤں کا قتل عام کہا جا سکے۔ دراصل، اورنگزیب نے اپنی حکومت میں بہت سے اہم عہدوں پر ہندوؤں کو تعینات کیا۔‘

اورنگزیب تین نومبر 1618 کو دوہاد میں اپنے دادا جہانگیر کے دور میں پیدا ہوئے۔ وہ شاہجہاں کے تیسرے بیٹے تھے۔ شاہ جہاں کے چار بیٹے تھے اور ان تمام کی ماں ممتاز محل تھیں۔

اسلامی علوم کے علاوہ اورنگزیب نے ترکی ادب کی تعلیم بھی حاصل کی اور خطاطی میں مہارت حاصل کی۔ دوسرے مغل بادشاہوں کی طرح اورنگزیب بھی بچپن سے ہی ہندوی میں فراٹے کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔

سوال نمبر 5 درج ذیل پر نوٹ لکھیں

۔1کر بلا

2۔ حضرت عبداللہ بن زبیر

جواب۔

سانحہ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء ) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں مشہور عام تاریخ کے مطابق اموی خلیفہ یزید اول کی بھیجی گئی فوج نے رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام عالی مقام حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام،22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی خواتین و بچے شامل تھے۔

اسباب

شخصی حکومت کا قیام

اسلامی نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہ کریں گے مگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے اسی اصول کی خلاف ورزی کی تھی کیونکہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دور دیکھا تھا۔ لہذا ان کے لیے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

یزید کا ذاتی کردار

یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیروشکار اور شراب و شباب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے لہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا حضرت امام حسین عالی مقام رضی اللہ عنہ کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا؟

بیعت پر اصرار

یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کی وساطت سے امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کی۔ ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم بزور بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں امام حسین علیہ السلام نے سفر مکہ اختیار کیا اور وہاں سے اہل کوفہ کی دعوت پر کوفہ کے لئے روانہ ہوئے۔

اہل کوفہ کی دعوت

جب امام حسین علیہ السلام مکہ پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں لیکن غدار اہل کوفہ نے ان سے غداری کی اور اپنے وعدوں سے پھر کر امام حسین علیہ السلام کا ساتھ نہ دیا۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے کربلا میں نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ اور اصحاب کو شہید کر دیا۔

امام حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ روانگی

ولید بن عتبہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قاصد کے ذریعہ بلایا۔ ابھی تک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی۔ تاہم بلاوے کا مقصد دونوں حضرات نے سمجھ لیا۔امام حسین علیہ السلام سے جب بیعت کے لیے کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جب بیعت عام ہوگی اس وقت آ جاؤں گا۔ ولید راضی ہو گیا اور انھیں واپس لوٹنے کی اجازت دے دی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ایک دن کی مہلت لے کر مکہ روانہ ہوگئے۔ بعد میں ان کا تعاقب کیا گیا مگر اس اثناء میں وہ کہیں دور جا چکے تھے۔ جب مروان کو اس صورت حال کا علم ہوا تو ولید سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بیعت کا وقت کھو دیا۔ اب قیامت تک ان سے بیعت نہ لے سکو گے۔ امام حسین علیہ السلام عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا۔ لٰہذا وہ27 رجب 60 ہجری میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر شعب ابی طالب میں قیام کیا۔

 

Leave a Reply

Ad Blocker Detected

Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by disabling your ad blocker.

Refresh
Scan the code