aiou course code 4601-2 solved assignment autumn 2022

aiou course code 4601-2 solved assignment autumn 2022

 کورس کوڈ۔ 4601

مشق نمبر۔ 2۔

 

سوال نمبر 1۔ منکرین زکوۃ اور مرتدین کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق کے اہم اقدامات بیان کریں؟

جواب۔

منکرین زکوۃ سے جہاد

حضرت ابوبکر صدیق   کے خلیفہ مقرر ہوتے ہی انہیں ان لوگوں سے نپٹنا پڑا، جو دُور دراز علاقوں میں مُسلمان تو ہوچکے تھے لیکن جب اُنہیں آنحضرت  ﷺ کے انتقال کی خبر پہنچی تو انہوں نے خیال کیا کہ ان پر مذہب کی پابندی کی چنداں ضرورت نہیں۔ سب سے زیادہ انہیں زکوٰۃ دینا دو بھر ہو رہا تھا۔ جناب صدیق   کی خدمت میں مختلف قبیلوں سے کئی وفد بھی محض اِسی غرض سے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ زکوٰۃ معاف کر دی جائے۔ باقی ارکانِ اسلام بیشک ایسے ہی رہیں۔

صحابہ   اور خود حضرت عمر ؓ  کا یہ مشورہ تھا کہ

لوگوں سے نرمی کی جائے

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ  کی بات سُن کر فرمایا

عُمر!  جاہلیت میں تو تم بڑے جابر تھے کیا اسلام میں آکر ذلیل ہو گئے ہو؟ وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا۔ میری زندگی میں اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ خدا کی قسم! اگر زکوٰۃ میں کسی کے ذمے رسّی کا ایک ٹکڑا بھی نکلا اور اس نے دینے سے انکار کیا تو جہاد کا حکم دے دُوں گا۔

حضرت عمرؓ  کہتے ہیں کہ

یہ جواب سُن کر مجھے معلوم ہوا کہ ابوبکر ؓ کے دِل کو اللہ تعالیٰ نے جہاد کے لئے کھول دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ قبائل کے جو قاصد آئے تھے ٗ ناکام واپس لَوٹے۔

حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ کی وصولی کے لئے ایک زبردست لشکر تیار کِیا اور مدینہ منورہ سے باہر نکل کر لشکر کو گیارہ حصوں میں تقسیم کرکے بڑے بڑے بہادروں کو ان کا سردار مقرر کیا اور انہیں مختلف مرتد قبیلوں کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد مرتدین کے نام ایک اعلان جاری کیا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا

مجھ کو تم لوگوں میں سے اُن کا حال معلوم ہوا جو پہلے اِسلام لائے تھے مگر اب اس دین کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی نادانی سے اللہ تعالیٰ کو نہیں پہنچانا ٗ اور شیطان کے فریب میں آگئے۔ حالانکہ وہ انسان کا دُشمن ہے۔ میں تمہارے پاس فلاں شخص کو مہاجرین اور انصار کی فوج کے ساتھ بھیجتا ہوں۔ وہ تم کو اللہ کی طرف بلائے گا۔ جو اس کی بات کو مان لے گا اور نیک کام کرے گا تو اس کو نہ قتل کرے گا اور نہ اُس سے لڑے گا اور جو باز نہ آئے گا اس کے اُوپر تلوار اُٹھائے گا اور کسی سے بُجز اِسلام کے اور کچھ قبول نہ کرے گا۔

میں نے اپنے قاصد کو حکم دے دِیا ہے کہ میرے اِس نوشتہ کو تمہارے مجمع عالم میں سُنا دے اور نشانی یہ مقرر کی ہے کہ جس بستی کے لوگ اذان پُکاریں ٗ ان سے ہاتھ روک لیا جائے۔

یہ گیارہ اِسلامی جانبازوں کے دستے سارے عرب میں پھیل گئے اور آٹھ نو مہینوں میں ہی بے دینی کی جگہ اسلام اور بغاوت کی بجائے امن قائم کر دیا اور زکوٰۃ کا روپیہ باقاعدہ وصول ہونے لگا۔

یہ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن حضرت صدیق اکبر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی دُور اندیشی تھی ، آپ جان گئے تھے کہ لشکر کو روک لینا اپنی کمزوری کا اعلان کرنے والی بات ہے ، لشکر کو لازمی بھیجا جائے گا تاکہ لوگ جان جائیں کہ مسلمان کل بھی طاقت ور تھے ، مسلمان آج بھی طاقت ور ہیں ، مسلمانوں کی جان ، مسلمانوں کی آن ، بان شان ، نبی دو جہان  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  دُنیا سے پردہ فرما گئے مگر آپ کا دامنِ رَحْمت اب بھی مسلمانوں پر سایہ کئے ہوئے ہے۔

منکرینِ زکوٰہ کے خلاف جہاد

چوتھا اہم مسئلہ جو حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کو پیش ہوا وہ مُنْکِرین زکوٰۃ کا مسئلہ تھا۔ رسولِ اکرم ، نورِ مجسم  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کے دُنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کچھ قبیلوں نے زکوٰۃ کی فرضیت سے انکار کر دیا اور کہا : زکوٰۃ صِرف سرکار  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کی زِندگی مُبَارَک میں فرض تھی ، اب زکوٰۃ دینا ضروری نہیں ، انہوں نے زکوٰۃ کو ٹیکس شُمار کیا۔

 

اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن حضرت صدیق اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  نے اپنی ذہانت اور دینی بصیرت سے ان کے خلاف جہاد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن صحابۂ کرام  علیہم الرِّضْوَان  کو اس فیصلے پر اشکال تھا ،  حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  آپ کی خدمت میں حاضِر ہوئے ، عرض کیا : رسول اللہ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  نے فرمایا : جس نے لَا اِلٰہَ اِلّا اللہ کہا ، اس نے اپنا مال اور جان محفوظ کر لیا۔ اس فرمانِ مصطفےٰ کے ہوتے ہوئے آپ زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں سے جہاد کیسے کر سکتے ہیں حالانکہ وہ “ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ “ پڑھتے اور اسے مانتے ہیں۔ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن حضرت صدیق اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  نے فرمایا : جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا میں لازمی اس سے جہاد کروں گا ، آپ  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  نے مزید بھی باتیں ارشاد فرمائیں ، حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  فرماتے ہیں : آپ کاخطاب سُن کر مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ پاک نے اس معاملے میں آپ کا سینہ کھول دیا ہے۔

آخر حضرت صدیق اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  فرماتے ہیں : ابتداء میں ہم نے اس فیصلے کو ناپسند کیا  تھا ، ہم سمجھتے تھے : یہ فیصلہ دُرست نہیں ، زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں کے خِلاف جہاد نہیں ہونا چاہیے لیکن جب اس کا نتیجہ سامنے آیا ، زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں نے توبہ کی ، شرعی قاعدے کے مطابق زکوٰۃ دینے لگے تو ہم نے صدیقِ اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی ذہانت اور دور اندیشی اور دینی بصیرت کی تعریف کی۔ یقیناً حضرت صدیقِ اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  یہ فیصلہ نہ فرماتے تو قیامت تک کے لئے اسلام کا ایک بنیادی رُکن زکوٰۃ فوت ہو جاتا اور لوگ اس کے مُنْکِر ہو جاتے۔ حضرت ابو رَجاء  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  فرماتے ہیں : میں نے دیکھا : حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  نے اس وقت اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن حضرت صدیقِ اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی پیشانی چوم کر فرمایا : لَوْ لَا اَنْتَ لَہَلَکْنا اے ابو بکر! آپ  نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہو جاتے

 

سوال نمبر2 و عہد فاروقی میں جو فتوحات ہوئیں کوئی تفصیلات بیان کریں کریں

جواب۔

عہد فاروقی کی فتوحات:

حضرت ابو بکر صدیق نے تریسٹھ برس کی عمر میں اواخر جمادی الثانی دو شنبہ کے روز وفات پائی اور حضرت عمر مسند آرائے خلافت ہوئے۔ خلیفہ سابق کے عہد میں مدعیان نبوت، مرتدین عرب اور منکرین زکوۃ کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا، یعنی 12 ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ اس طرح 13 ہجری میں شام پر حملہ ہوا اور اسلامی فاجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت کا انتقال ہوا اور خلافت حضرت عمر کے ہاتھ میں آ گئی تو ان کا سب سے اہم فرض انہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔

مہم عراق

حضرت عمر نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو سب سے پہلے مہم عراق کی طرف متوجہ ہوئے۔ بیعت خلافت کے لیے اطراف و دیار سے بے شمار آدمی آئے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر مجمع عام میں جہاد کا وعظ کیا۔ حضرت عمر نے کئی دن تک وعظ کہا لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر چوتھے دن ایسی پر جوش تقریر کی کہ حاضرین کے دل ہل گئے۔ آپ نے کہا:

”مسلمانو! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے وہ مرد میدان نہیں ہیں ہم نے عراق کے بڑے بڑے اضلاع فتح کر لیے ہیں اور عجمی اب ہمارا لوہامان گئے ہیں”۔​

 

اس طرح قبیلہ ثقیف کے سردار ابو عبید ثقفی نے جوش میں آ کر کہا۔ انا لھذا یعنی میں اس کے لیے میں ہوں۔ ابو عبید کی بیعت نے تمام حاضرین کو گرما دیا اور ہر طرف غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں۔ حضرت عمر نے مدینہ اور اس کے مضافات سے ایک ہزار اور دوسری روایت کے مطابق پانچ ہزار آدمی منتخب کیے اور ابو عبید کو سپہ سالار مقرر کر کے روانہ کیا۔

حضرت ابو بکر کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایرانیوں کو بیدار کر دیا تھا، چنانچہ پوران دخت نے جو صغیر السن یزد گرد شاہ ایران کی نائب تھی فرخ زاد گورنر خراسان کے بیٹے رستم کو جو نہایت شجاع اور مدبر تھا دربار میں طلب کر کے وزیر جنگ بنایا اور تمام اہل فارس کو اتحاد و اتفاق پر آمادہ کیا، نیز مذہبی حمیت کا جوش دلا کر نئی روح پیدا کردی۔ اس طرح دولت کیانی نے پھر وہی قوت پیدا کر لی جو ہرمزو پرویز کے زمانہ میں اس کو حاصل تھی۔

رستم نے ابو عبید کے پہنچنے سے پہلے ہی اضلاع فرت میں غدر کرا دیا اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں آ چکے تھے وہ ان کے قبضہ سے نکل گئے۔ پوران دخت نے ایک اور زبردست فوج رستم کی اعانت کے لیے تیار کی اور نرسی و جابان کو سپہ سالار مقرر کیا، یہ دونوں راستوں سے روانہ ہوئے۔ جابان کی فوج تمارق پہنچ کر ابو عبید کی فوج سے برسر پیکار ہوئی اور بری طرح شکست کھا کر بھاگی۔ ایرانی فوج کے مشہور افسر جوشن شاہ اور مردان شاہ مارے گئے۔ جابان گرفتار ہوا مگر حیلے سے بچ گیا۔

ابو عبید سے جابان کو شکست دینے کے بعد سقاطیہ میں نرسی کی فوج گراں سے مقابلہ کیا اور شکست دی اور اس کا اثر یہ ہوا کہ قرب و جوار کے تمام رؤسا خود بخود مطیع ہو گئے، نرسی و جابان کی ہزیمیت سن کر رستم نے مردان شاہ کو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ ابو عبید کے مقابلہ میں روانہ کیا، ابو عبید نے باوجود افسران فوج کے شدید اختلاف کے فرات سے پار اتر کر نبرد آزمائی کی۔ چونکہ پار کا میدان تنگ اور ہموار تھا۔ نیز عربی دلاوروں کے لیے ایران کے کوہ پیکر ہاتھیوں سے یہ پہلا مقابلہ تھا اس لے مسلمانوں کو سخت ہزیمت ہوئی اور نو ہزار فاج میں سے صرف تین ہزار باقی بچے۔

حضرت عمر کو اس شکست نے نہایت برا فروختہ کیا انہوں نے اپنے پر جوش خطبوں سے تمام قبائل عرب میں آگ لگا دی۔ عام جوش کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ نمر و تغلب کے سرداروں نے جو مذہبا عیسائی تھے اپنے قبائل کے مسلمانوں کے ساتھ شرکت کی اور کہا کہ آج عرب و عجم کا مقابلہ ہے۔ اس قوی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں۔ غرض حضرت عمر نے ایک فوج گراں کے ساتھ حضرت جریر بجلی کو میدان رزم ک طرف روانہ کیا۔ یہاں مثنی نے عجمی سرحد کے عربی قبائل کو جوش دلا کر ایک زبردست فوج تیار کر لی۔

پوران دخت ان تیاریوں کا حال سن کر فوج خاص میں سے بارہ ہزار جنگ آزما بہادر منتخب کر کے مہران ابن مہرویہ کے ساتھ مجاہدین کے مقابلہ کے لیے روانہ کیے حیرہ کے قریب دونوں حریف صف آرا ہوئے۔ ایک شدید جنگ کے بعد عجمیوں میں بھاگڑ پڑ گئی مہران بنی تغلب کے ایک نوجوان کے ہاتھ سے مارا گیا، مثنی نے پل کا راستہ روک دیا اور اس قدر آدمیوں کو تہ تیغ کیا کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ اس فتح کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقوں میں پھیل گئے۔

پایہ تخۃ ایران میں یہ خبریں پہنچیں تو ایرانی قوم میں ایک زبردست انقلاب کا خیال پیدا ہو گیا۔ پوران دخت معزول کی گئی، یزد گرد جو سولہ سال کا نوجوان اور خاندان کیانی کا تنہا وارث تھا تخت سلطنت پر بٹھا دیا گیا۔ اعیان و اکابر ملک نے بالم متفق اور متحد ہو کر کام کرنے کا ارادہ کیا۔ تمام قلعے اور فوجی چھاؤنیاں مستحکم کر دی گئیں۔ اسی کے ساتھ کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات میں بغاوت پھیلائی جائے، ان انتظامات سے سلطنت ایران میں نئی جان پیدا ہوگئی وار تمام مفتوحہ مقامات مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئے۔

مثنی مجبور ہو کر عرب کی سرحد میں ہٹ آئے اور ربیعہ و مضر کے قبائل کو جو اطراف عراق میں پھیلے ہوئے تھے ایک تاریخ معین تک علم اسلامی کے نیچے جمع ہونے کے لیے طلب کیا۔ نیز دربار خلافت کو اہل فارس کی تیاریوں سے مفصل طور پر مطلع کیا۔

حضرت عمر نے ایرانیوں کی تیاری کا حال سن کر حضرت سعد بن وقاص کو بیس ہزار مجاہدین کے ساتھ مہم عراق کی تکمیل پر مامور کیا۔ حضرت سعد بن وقاص نے شراف پہنچ کر پڑاؤ کیا۔ مثنی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مقام ذی قار میں اس عظیم الشان کمک کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن اسی اثنا میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس لیے ان کے بھائی شراف آکر سعد بن وقاص سے ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیے تھے ان سے بیان کیے۔

حضرت عمر نے سعد بن وقاص کو خاص طور پر ہدایت کر دی تھی کہ فوج کا جہاں پڑاؤ ہو وہاں کے مفصل حالات لکھ کر آئیں۔ سعد بن وقاص نے اس مقام کا نقشہ، لشکر کا پھیلاؤ، فروگاہ کی حالت اور رسد کی کیفیت سے ان کو اطلاع دی۔ اس کے جواب میں دربار خلافت سے ایک مفصل فرمان آیا جس میں فوج کی نقل و حرکت، حملہ کا بندوبست، لشکر کی ترتیب اور فوج کی تقسیم کے متعلق مفصل ہدایتیں درج تھیں۔ اسی کے ساتھ حکم دیا گيا کہ شراف سے بڑ ھ کر قادسیہ کو میدان کارزار قرار دیں۔ اور اس طرح مورچے جمائیں کہ فارس کی زمین سامنے ہو اور عرب کا پہاڑ محافظت کا کام دے۔ سعد بن وقاص نے دربار خلافت کی ہدایت کے مطابق شرف سے بڑ ھ کر قادسیہ میں اپنا مورچہ جمایا اور نعمان بن مقرن کے ساتھ چودہ نامور اشخاص کو منتخب کر کے دربار ایران میں سفیر بنا کر بھیجا کہ شاہ ایران اور اس کے رفقا کو اسلام کی ترغیب دیں لیکن جو لوگ دولت و حکومت کے نشہ میں مخمورتھے وہ خانہ بدوش عرب اور ان کے مذہب کو کب خاطر میں لاتے تھے۔ سفارت گئی اور ناکام واپس آئی

اس واقعہ کے بعد کئی ماہ تک دونوں طرف سے سکوت رہا۔ رستم ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ ساباط میں پڑا تھا اور یزد گرد کی تاکید کے باوجود جنگ سے جی چرا رہا تھا، مجبور ہو کر رستم کو مقابلہ کے لیے بڑھنا پڑا اور ایرانی فوجیں ساباط سے نکل کر قادسیہ کے میدان میں خیمہ زن ہوئیں۔

رستم قادسیہ پہنچ کر بھی جنگ کو ٹالنے کی کوشش کرتا رہا۔ اور اس نے مدتوں سفراء کی آمد و رفت اور نامہ و پیام کا سلسلہ جاری رکھا لیکن مسلمانوں کا آخری اور قطعی جواب یہ ہوتا تھا کہ اگر اسلام یا جزیہ منظور نہیں ہے تو تلوار سے فیصلہ ہو گا۔ رستم جب مصالحت کی تمام تدبیروں سے مایوس ہو گيا تو سخت برہم ہوا اور اس نے قسم کھا کر کہا کہ اب تمام عرب کو ویران کر دوں گا۔

جنگ قادسیہ:

رستم نے فوج کو کمر بندی کا حکم دیا اور خود تمام رات جنگی تیاریوں میں مصروف رہا، صبح کے وقت کا قادسیہ کا میدان عجمی سپاہیوں کی کثرت سے جنگل کا سماں پیش کر رہا تھا۔ جس کے پیچھے ہاتھیوں کے کالے پہاڑ عجیب خوفناک منظر پیدا کررہے تھے۔ دوسری طرف مجاہدین اسلام کا لشکر جرار صف بستہ کھڑا تھا، اللہ اکبر کے نعروں میں جنگ شروع ہوئی، دن بھر ہنگامہ برپا رہا شام کو جب بالکل تاریکی چھا گئی تو دونوں حریف اپنے اپنے خیموں میں واپس آئے قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا اور عربی میں اس کو یوم الارماث کہتے ہیں۔

قادسیہ میں دوسرے دن کی جنگ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے شام کی چھ ہزار فوج عین معرکہ کے وقت پہنچی۔ حضرت عمر کے قاصد بھی جن کے ساتھ بیش قیمت تحائف تھے عین جنگ کے وقت پہنچے اور پکار کر کہا امیر المومنین نے یہ انعام ان لوگوں کے لیے بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کریں اس نے مسلمانوں کے جوش و خروش کو اوربھی بھڑکا دیا تمام دن جنگ ہوتی رہی مسلمان دو ہزار اور ایرانی دس ہزار مقتول و مجروح ہوئے لیکن فتح و شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔

تیسرا معر کہ یوم العماس کے نام سے مشہور ہے، اس میں مسلمانوں نے سب سے پہلے کوہ پیکر ہاتھیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ ایرانیوں کے مقابلہ میں مجاہدین اسلام کو ہمیشہ اس کالی آندھی سے زیادہ نقصان پہنچتا تھا، اگرچہ قعقاع نے اونٹوں پر سیاہ جھول ڈال کر ہاتھی کا جواب ایجاد کرلیا تھا تا ہم یہ کالے دیوجس طرف جھک پڑتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی، آخر کار مسلمانوں نے ہاتھیوں کی سونڈوں کو بے کار کر دیا جس سے وہ بھاگ گئے۔

اب بہادروں کوحوصلہ آزمائی کا موقع ملا، دن بھر میدان کارزار گرم رہا، رات کے وقت بھی اس کا سلسلہ جاری رہا، اور اس زور کا رن پڑا کہ نعروں کی گرج سے زمین دہل جاتی تھی، اسی مناسبت سے اس رات کولیلة الہریر کہتے ہیں، رستم پامردی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا، لیکن جب زخموں سے چور چور ہو گیا تو بھاگ نکلا اور ایک نہر میں کود پڑا کہ تیر کر نکل جائے۔ ہلال نامی ایک سپاہی نے تعاقب کیا اور ٹانگیں پکڑ کر نہر سے باہر کھینچ لایا، پھر تلوار سے کام تمام کر دیا رستم کی زندگی کے ساتھ سلطنت ایران کی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا، ایرانی سپاہیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، مسلمانوں نے دور تک تعاقب کر کے ہزاروں لاشیں میدان میں بچھا دیں۔

قادسیہ کے معرکوں نے خاندان کسری کی قسمت کا آخری فیصلہ کر دیا مسلمانوں نے قادسیہ سے بڑ ھ کر آسانی کے ساتھ بابل، کوثی، بہرہ شیر اور خود نوشیروانی دارالحکومت مدائن پر قبضہ کر لیا، ایرانیوں نے مدائن سے نکل کر جلولاء کو اپنا فوجی مرکز قرار دیا اور رستم کے بھائی حرزاد نے اپنے حسن تدبیر سے ایک بڑی زبردست فوج جمع کر لی، سعد نے ہاشم بن عتبہ کوجلولاء کی تسخیر پر مامور کیا جلولاء چونکہ نہایت مستحکم مقام تھا، اس لیے مہینوں کے محاصرے کے بعد فتح ہوا۔

تسخیر عراق کے بعد حضرت عمر کی دلی خواہش تھی کہ جنگ کا سلسلہ منقطع ہو جائے چنانچہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش ہمارے اور فارس کے درمیان آگ کا پہاڑ ہوتا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کر سکتے نہ ہم ان پر چڑ ھ کر جا سکتے، لیکن ایرانیوں کو عراق سے نکل جانے کے بعد کسی طرح چین نہیں آتا تھا، چنانچہ یزدگرد نے معرکہ جلولاء کے بعد مرو میں اقامت اختیار کر کے نئے سرے سے حکومت کے ٹاٹھ لگائے اور تمام ملک میں فرامین ونقیب بھیج کر لوگوں کو عربوں کی مقاومت پر آمادہ کیا۔

حضرت عمر نے نعمان بن مقرن کو تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس ایرانی طوفان کو آگے بڑ ھ کر روکنے کا حکم دیا، نہاوند کے قریب دونوں فوجیں برسر پیکار ہوئیں اور اس زور کا رن پڑا کہ قادسیه کہ بعد ایسی خونریز جنگ کوئی نہیں ہوئی تھی، یہاں تک کہ اس جنگ میں خود اسلامی سپہ سالار نعمان شھید ہو گئے، ان کے بھائی نعیم بن مقرن نے علم ہاتھ میں لے کر بدستور جنگ کو جاری رکھا، رات ہوتے ہوتے عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا۔ اس لڑائی میں تقریبا تیس ہزار بھی قتل ہوئے، نتائج کے لحاظ سے مسلمانوں نے اس کا نام فتح الفتوح رکھا۔

فتوحات شام:

ممالک شام میں سے اجنادین، بصری اور دوسرے چھوٹے چھوٹے مقامات عہد صدیقی میں فتح ہو چکے تھے۔ حضرت عمر مسند آرائے خلافت ہوئے تو دمشق محاصرہ کی حالت میں تھا، حضرت خالد سیف اللہ نے رجب 14 ہجری میں اپنے خاص حسن تدبیر سے اس کو مسخرکیا۔

رومی دمشق کی شکست سے سخت برہم ہوئے اور ہر طرف سے فوجیں جمع کر کے مقام جیان میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے جمع ہوئے مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل میں پڑاؤ ڈالا۔ عیسائیوں کی درخواست پر معاذ بن جبل سفیر بن کر گئے، لیکن مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلی، آخرکار ذوقعدہ 14 ہجری میں قتل کے میدان میں نہایت خوفناک معرکے پیش آئے خصوصا آخری معرکہ نہایت سخت تھا لیکن میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔

دمشق اور اردن مفتوح ہو جانے کے بعد مسلمانوں نے حمص کارخ کیا، راہ میں بعلبک حماة، شیرز اور معرة النعمان فتح کرتے ہوئے حمص پہنچے اور اس کا محاصرہ کر لیا حمص والوں نے ایک مدت تک مدافعت کرنے کے بعد مصالحت کر لی، ابو عبیدہ سپہ سالار اعظم نے عبادہ بن صامت کو وہاں متعین کر کے لاذقیہ کا رخ کیا اور ایک خاص تدبیر سے اس کے حکم قلعوں پر قبضہ کرلیا۔

حمص کی فتح کے بعد اسلامی فوجوں نے خاص ہرقل کے پایتخت انطاکیہ کا رخ کیا لیکن بارگاہ خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا جائے، اس لیے فوجیں واپس آ گئیں۔

 

سوال نمبر3 حضرت عثمان غنی کے دور حکومت میں اہم فتوحات پر روشنی ڈالیں

جواب۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت کے نمایاں کارنامے، سیرت و کردار

آپؓ واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت نبویﷺ سے 47 سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔آپ ؓ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے : عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف۔ گویا پانچویں پشت میں آپؓ کا سلسلہ نسب رسول اکرم ﷺ سے مل جاتا ہے۔ والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس بن عبدمناف۔ سیدنا عثمان ؓ کی نانی محترمہ بیضاء ام الحکیم؛ رسول اللہ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ کی سگی جڑواں بہن تھیں اور رسول اللہ ﷺ کی سگی پھوپھی تھیں۔ اس نسبت سے آپؓ کے بھانجے ہوئے۔ سیدنا عثمانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں نہ کبھی زنا کیا ، نہ شراب پی، نہ کسی کو قتل کیا، نہ کبھی چوری کی ، نہ کبھی مسلمان ہونے بعد دین سے پھرا، نہ دین بدلنے کی تمنا کی ، نہ ہی گانا بجایا۔ سیدنا عثمانؓ بہت خوب صورت تھے: گندمی رنگ ، قد معتدل ، گھنی داڑھی ، مضبوط جسم ، بارعب اور شخصیت کو نمایاں کرنے والا چہرہ تھا۔ ام المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ نے حضرت عثمانؓ کا نکاح اپنی بیٹی سیدہ ام کلثومؓ سے فرمایا تو ان سے کہا کہ بیٹی!آپ کے شوہر نامدار(سیدنا عثمان ) تمہارے دادا حضرت ابراہیم اور تمہارے باپ محمدﷺ سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ علامہ سیوطی ؒ نے بحوالہ ابن عساکر ابو ثور فہمی ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عثمان ؓنے ایامِ محاصرہ کے دوران مجھ سے کہا : میں اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہوں۔

اخلاق و عادات :

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت عثمان ؓ کے بارے میں فرمایا : میں اس شخص(سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ )کا حیاءکرتا ہوں جس کا فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : میری امت میں سب سے زیادہ باحیاء عثمانؓ ہیں۔انکساری و تواضع کا یہ عالم ہے کہ تین براعظموں کے فاتح ہیں لیکن جب ایک غلام نے آپ کی دعوت کی تو آپؓ اسے خوشی خوشی قبول فرما لیا چنانچہ صحیح بخاری باب اجابة الحاکم الدعوة میں روایت ہے کہ حضرت عثمانؓنے مغیرہ بن شعبہ کے ایک غلام کی دعوت کو قبول فرمایا۔ زہد و تقویٰ کی بلندی ملاحظہ فرمائیے ابو ثور تمیمی ؓ کی روایت ہے حضرت عثمانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی لہو لعب کی تمنا نہ کی۔ آپ نے مسلسل دس حج ادا فرمائے ، آپ مناسک حج کے بہت بڑے عالم تھے ، امہات المومنین کو بھی آپ نے حج کرایا۔آپ نے سیدناحسین ؓ کو بھی حج کرایا۔اس موقع پر آپ لوگوں سے عمال کی شکایات دریافت فرماتے اور ان کا ازالہ فرماتے۔

صلح حدیبیہ اوربیعت ِرضوان :

6 ہجری میں رسول پاک نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ہمراہ مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور کعبة اللہ کا طواف کیا اس کے بعد کسی نے سر کے بال منڈوائے اور کسی نے کتروائے۔ آپ نے یہ خواب صحابہ کو سنایا سب نہایت خوش ہوئے۔ اس کے بعد آپ ﷺ اسی سال ذو القعدہ کے مہینے میں عمرہ کے ارادہ سے مکہ معظمہ کا سفر شروع کیا ، صحیح روایات کی بنیاد پر آپ کے ہمراہ جماعت صحابہ کرامؓ کی تعداد 1400 اور 1500 کے درمیان ہے۔ مقام ذوالحلیفہ پہنچ کر سب نے احرام باندھا ، پھر آگے حدیبیہ تک پہنچے ، کفار مکہ نے مزاحمت کی کہ ہم مکہ نہیں آنے دیں گے۔ نبی پاک ﷺ نے صحابہ کرام کے مشورے سے اپنا سفیر سیدنا عثمان ؓ کو بنا کر بھیجا کہ آپ جا کر مکہ والوں کو سمجھائیں کہ ہم لڑنے کی نیت سے نہیں آئے بلکہ کعبہ کا طواف کر کے واپس چلے جائیں گے۔ سیدنا عثمانؓ مکہ پہنچے اور ان کو یہ بات سمجھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن کفار مکہ نے ضدکی وجہ سے اسے قبول کرنے سے صاف صاف انکار کر دیا۔جب سیدنا عثمان ؓ مکہ جانے لگے تو کسی صحابی نے یہ بات کہہ دی کہ عثمانؓ کی قسمت اچھی ہے وہ مکہ جا کر کعبہ کا طواف کریں گے مگر ہمیں کفار اجازت دیں یا نہ دیں۔ یہ بات رسول اللہ ؓ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: عثمان کے متعلق ہمیں یہ وہم بھی نہیں کہ وہ ہمارے بغیر کعبہ کا طواف کر لیں گے۔ ادھر دوسری طرف جب سیدنا عثمان ؓ مکہ پہنچے تو سردار مکہ ابو سفیان نے کہا : عثمان ؓ اگر تم چاہو تو میں تمہیں طواف کی اجازت دے سکتا ہوں لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ تمہارے نبی کو طواف کی اجازت نہیں دیں گے۔ سیدنا عثمان ؓ نے ابو سفیان کو جواب دیا : رسول اللہ ﷺکے بغیر میں ہرگز طواف نہیں کروں گا۔ آپ کے اس جواب پر ابو سفیان نے سیدنا عثمانؓاور آپ کے ہمراہ دس صحابہ کرام کو قید کر دیا۔ کسی نے یہ غلط خبر اڑا دی کہ کفار مکہ نے سیدنا عثمانؓ اور ان کے ہمراہ دس صحابہ کرامؓ کو شہید کر دیا ہے۔ اس خبر سے رسول اللہ ﷺ کو شدید صدمہ پہنچا ، آپ اٹھے اور میدان حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے تشریف لے گئے۔ آپ نے صحابہ کرام ؓ کو بلایا اور سیدنا عثمان ؓ کا بدلہ لینے کے لیے موت کی بیعت کی۔ جب آپ بیعت لے رہے تھے تو آپ نے اپنے ایک ہاتھ کو سیدنا عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا۔ اسی بیعت کو ”بیعتِ رضوان“ کہتے ہیں۔لیکن بعد میں پتہ چلا کہ شہادت عثمان والی خبر سچی نہ تھی۔آپ نے حکم دیا کہ کفار کے کچھ لوگوں کو قید کر لو ، مسلمانوں نے کفار کے چند لوگوں کو قید کرلیا۔ تب کافروں نے مجبور ہو کر سیدنا عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کو رہا کیا اور اس کے بدلے اپنے لوگوں کو رہا کروایا۔

خلافت عثمانی کے نمایاں کارنامے:

سیدنا عثمان ؓ نے جن حالات میں عہدہ خلافت اٹھایا اگرچہ وہ مشکل ترین حالات تھے لیکن اس کے باوجود آپ کی فراست ، سیاسی شعوراور حکمت عملیوں کی بدولت اسلام کو خوب تقویت ملی۔ اسلام پھیلا، اسلامی تعلیمات سے زمانہ روشن ہوا۔ آپ نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے لوگوں کو نماز عصر پڑھائی۔ آپ نے فوجیوں کے وظائف میں سو سو درہم کے اضافے کا اعلان کیا۔اس کے ساتھ ساتھ طرابلس ، قبرص اور آرمینیہ میں فوجی مراکز قائم کیے۔چونکہ اس وقت فوجی سواریاں اونٹ اور گھوڑے ہوا کرتے تھے اس لیے فوجی سواریوں کے لیے چراہ گاہیں بنائیں۔ مدینہ کے قریب ربذہ کے مقام پر دس میل لمبی دس میں چوڑی چراگاہ قائم کی ، مدینہ سے بیس میل دور مقام نقیع پر ، اسی طرح مقام ضربہ پر چھ چھ میل لمبی چوڑی چراہ گاہیں اور چشمے بنوائے۔ آپؓ کے زمانہ خلافت میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ضربہ کی چراہ گاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔اسلامی بحری بیڑے کی بنیاد حضرت معاویہ کے اصرار پر سیدنا عثمان ؓ نے رکھی۔ملکی نظم و نسق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کیا ، رائے عامہ کا تہہ دل سے احترام فرمایا کرتے تھے ،اداروں کو خود مختار بنایا اور محکموں الگ الگ تقسیم فرمایا : سول ، فوجی ، عدالتی ، مالی اور مذہبی محکمے جدا جدا تھے۔ حضرت عثمان لوگوں کی بے جا تنقید اور عیب گوئی کی پروا کئے بغیر روزانہ لوگوں میں مال تقسیم فرماتے ، عطیات عطا فرماتے ،کھانے پینے کی اشیاءتقسیم فرماتے ، یہاں تک کہ گھی اور شہد بھی تقسیم کیا جاتا۔ اس کے علاوہ امن وخوشحالی کے عوام سے قرب و ربط ،مظلوم کی نصرت و حمایت ، فوجی چھاونیوں اوراسلامی مکاتب و تعلیم گاہوں کا جال، تعمیر مساجد اور مسجد نبوی کی توسیع، تعلیم القرآن کو عام کرنا ، خون وخرابہ سے دارالخلافت کو بچائے رکھناوغیرہ۔سیدنا عثمان ؓ کے دور ِخلافت میں بعض وہ ممالک جو سیدنا عمرؓ کے زمانہ خلافت میں فتح ہو چکے تھے وہاںبغاوت پر قابو پاکر ان کو دوبارہ فتح کیا گیا۔ اس سے بڑھ کر آذربائیجان ، آرمینیہ ، اسکندریہ کا طبری اور البدایہ والنہایہ میں تفصیلاً ذکر ملتا ہے۔ بلاد روم اور رومی قلعے ،بلاد مغرب، طرابلس، انطاکیہ ، طرطوس ،شمشاط ، ملطیہ ،افریقہ ، سوڈان ، ماوراءالنہر ،ایشائے کوچک ، ایران ، ترکستان ، اندلس ، اصطخر، قنسرین ، قبرص ،فارس ، سجستان ، خراسان ، مکران ، طبرستان ، قہسستان ، ابر شہر ، طوس ، بیورو ، حمران ، سرخس ، بیہق ، مرو، طالقان ، مروروذ ، فاریاب ، طخارستان، جوزجان ، بلخ ، ہرات ، باذغیس ،مروین وغیر کے ہر علاقے کی تفصیل تاریخ کی کتب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔گویا براعظم ایشیا ، یورپ اور افریقہ کے بڑے بڑے ممالک فتح کیے گئے۔ فارس و روم کی سیاسی قوت کا استیصال کر کے روئے زمین کا بیشتر حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں لایا گیا۔

سیدنا عثمان ؓنے سرحدوں پر موجود اسلامی افواج کو یہ ہدایات بھیجیں کہ تم لوگ مسلمانوں کی حمایت اور ان کی طرف سے دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہے ہو۔تمہارے لیے حضرت عمر ؓنے جو قوانین مقرر فرمائے تھے وہ ہماری مشاورت سے بنائے تھے۔ اس لیے مجھ تک یہ خبر نہیں پہنچنی چاہیے کہ تم نے ان قوانین میں رد و بدل سے کام لیا ہے۔ اور اگر تم نے ایسا کیا تو یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئیں گے۔ اب تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے کیسے بن کے رہنا ہے ؟اور جو ذمہ داری مجھ پر میں بھی اس کی ادائیگی کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔ 18 ذوالحج بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان ? کو شہید کر دیا گیا۔آپ نے کل 82سال کی عمر پائی۔حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپؓ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی۔ اللھم اجمع امة محمد۔ اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔

 

سوال نمبر چار خلفائے راشدین کے عہد کے نظام حکومت پر تفصیلی نوٹ لکھیں

جواب۔

خلیفہ کا مفہوم۔

حضرت محمد ﷺ نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت کسی شخص کو حکومت کے انتظامات کے لیے اپنا جانشین نامزد نہ فرمایا۔ بلکہ جانشینی کا مسلہ جمہور مسلمانوں کی مرضی پر چھوڑ دیا کہ وہ جس شخص کو پسند کریں، اپنا حکمران منتخب کرلیں۔اس جانشینی کو خلافت کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیوکہ حضرت ابوبکر ؓ نے مسلمانوں کا امیر منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا تھا کہ میں رسول خدا ﷺ کا خلیفہ یعنی جانشین ہوں۔ یہیں سے خلیفہ اور خلافت کی ابتداء ہوئی۔

خلافت کا مفہوم۔

اصطلاحی طور پر ریاست کا یہ مفہوم ہے کہ دینی اور دنیوی امور کے انتظامات کے لیے ایک ایسی جمہوری ریاست قائم کی جائے جس میں نبی کریم ﷺ کی پوری نیابت اور نمائندگی ہو۔ اس ریاست کے رئیس کو خلیفہ یعنی رسول ﷺ کا جانشین اور قائم مقام کہتے ہیں۔ خلیفہ مسلمانوں کی تمام دینی اور دنیوی ضروریات کا کفیل اور نگران ہوتا ہے۔ نیابت رسول ﷺ کی وجہ سے رعایا کا فرض ہے کہ خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور خلیفہ کا فرض ہے کہ امن و امان قائم کرکے شریعت نافذ کرے اور دین کو پوری طرح جاری او ر قائم کرے۔ خلیفہ مسلمانوں کا سیاسی اور روحانی قائد اور امیر ہوتا ہے۔

خلفاء اربعہ۔

رسول کریم ﷺ کے بعد آپ کے چار جان نثار ساتھیوں نے باری باری اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ یہ چار وں صحابی رسول کریم ﷺ کے نائب، خلیفہ اور جانشین مشہور ہوئے۔ پہلے حضرت ابوبکر ؓ پھر حضرت عمر ؓ پھر حضرت عثمان ؓ ااوراس کے بعد حضرت علی ؓ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ چار وں خلفاء کا عہد تقریباً تیس برس کا تھا۔ ان خلفاء کو خلفائے راشدین اور خلفائے اربعہ کہتے ہیں۔یہ تاریخ اسلام میں زریں عہد کہلاتا ہے۔

جمہوری طریقہ انتخاب۔

خلافت راشدہ کے نظام حکومت کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ ہر خلیفہ جمہوری طریق سے منتخب کیا جاتا تھا۔ اگرچہ وہ طریق آج کل کے جمہوری طریقہ انتخاب سے قدرے مختلف تھا۔ لیکن یہ پونے چودہ سوسال پہلے کی بات ہے اس ماحول اور زمانے کو ملحوظ خاطررکھتے اس انتخاب کو جمہوری قرار دینا بالکل بجا ہے۔ اس انتخاب میں یہ بات نمایاں ہے کہ حکومت کو وراثت نہیں بنایا گیا۔ بلکہ جمہور اہل اسلام کے پیش نظر بہترین ترین آدمی کو اس بار کے اٹھانے کے لیے مجبور کیاگیا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے کو خلافت سے محروم قرار دیا تاکہ وراثت کا سوال ہی پیدا نہ ہو ا۔

عہدہ وزارت۔

اگرچہ خلفائے راشدین کے زمانے میں وزارت اوروزیر کے الفاظ سیاسی طور پر مروج نہ تھے۔ لیکن معنوی طور پر یہ عہدہ موجود تھا۔ یوں کہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کے عہد خلافت میں عہدہ وزارت حضرت عمر ؓ کے سپرد تھا اور خلافت فاروقی میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ وزیر کے فرائض انجام دیتے تھے۔

عہدہ کا تب۔

خلفائے راشدین کے زمانے میں کاتب کا عہدہ بھی موجود تھا۔ نظام حکومت میں خلیفہ کا ہاتھ بٹانے کے لیے کاتب ایک اہم منصب دار تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ کے کاتب حضرت عثمان ؓ بن عفان تھے۔ حضرت عمر ؓ نے زید بن ثابت ؓ اور عبداللہ بن ارقم ؓ کو اپنا کاتب مقرر فرمایا۔

خلفاء کا ذاتی کردار اور شخصی زندگی۔

خلفاء میں شاہانہ جاہ و جشم کی کوئی بات نہ تھی خلیفہ کی زندگی بڑی سادہ ہوتی تھی۔ وہ ہر کام اپنے ہاتھ سے کر لیتا تھا۔ کھانے، پینے اور پہننے میں سادگی کا خیال رکھتا۔ رعایا کے عام افراد کی طرح بازاروں اور سڑکوں پر پیدل چلتا تھا۔ ہر شخص کو خلیفہ تک رسائی تھی بلکہ خلیفہ خود گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لیتا۔ رعایا کی دیکھ بھال میں خلیفہ ذاتی طور پر دلچسپی لیتا۔ خلفاء مسلمانوں کی اجازت کے بغیر اپنی ذات پر کوئی خرچ نہ کرتے تھے۔

عدالت۔

حضرت ابوبکر ؓ کے عہد خلافت تک انتظامیہ اور عدلیہ دونوں محکمے اکٹھے تھے۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرکے عدلیہ کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے عدلیہ کو براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت کردیا اور عدالتوں کے لیے قاضیوں اور ججوں کو مقرر کرتے ہوئے دیگر خوبیوں کے علاوہ خاندانی و جاہت و شرافت اور دولت مندی کا بھی لحاظ رکھا جاتا تھا اور ان کے لیے معقول تنخواہ مقرر کردیں تاکہ کسی حقیر جذبے کے تحت کے وقار کو نقصان نہ پہنچے یعنی رشوت وغیرہ سے بچے رہیں

سوال نمبر 5 درج ذیل پر تفصیلی نوٹ لکھیں

1۔عہد فاروقی کی مذہبی خدمات

2۔حضرت علی المرتضی کی خلافت کے نمایاں پہلو

 

جواب۔

عہد فاروقی کی مذہبی خدمات:-

امن و سکون اور بنیادی ضروریات کا حصول عوام کا حق ہے اور ان کی فراہمی حکمرانوں کا فرض اور یہی رفاہِ عامہ کا بنیادی فلسفہ ہے۔ امن و سکون اور احساسِ تحفظ آج کے دور میں ناپید ہوتا چلا جارہا ہے۔ حکمران Good Governance (بہترین طرز حکومت) کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اس کے عملی مظاہر ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے حکمران ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، قومی اداروں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، قانون و آئین کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے اور اپنی نااہلیت و کرپشن چھپانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

 

اسلام کی تاریخ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ ایک ایسا عہدِ زریں ہے جو کہ رہتی دنیا تک تمام حکمرانوں کے لئے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ریاست کو باقاعدہ منظم شعبہ جات دیئے اور بعد ازاں بہت سی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اقدامات سے جہاں لوگوں کو تحفظ اور امن و امان فراہم ہوا وہیں کئی لوگوں کو مستقل روزگار فراہم ہو گیا۔ معمول کے حالات ہوں یا ہنگامی حالات قحط ، سیلاب، زلزلہ اور جنگ ہر دو حالات میں عوام کی رفاہ وبہبود کے لیے تاریخی اقدامات کئے گئے۔ رفاہِ عامہ کے وسیع تر مقاصد کے حصول کے لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے چند اقدامات کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے:

 

محکمہ پولیس کا قیام

اندرونی خلفشار اور برائیوں پر قابو پانا ایک اچھے حکمران کی ضرورت ہوا کرتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم نے اس مسئلہ کے حل کے لیے پولیس کے محکمہ کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو فوری اور آسان انصاف کی فراہمی اور جرائم کی روک تھام کے لیے اس محکمے کو منظم کیا۔ سیدنا فاروق اعظم نے لوگوں کی فلاح اور بہتری کے لیے بہت سے ایسے قوانین نافذ کیے جن کا تقاضا انسانی اخلاقیات کرتی ہیں۔

 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قیام امن کی خاطر پولیس کے محکمے کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے شہروں اور قصبوں کی اندرونی حفاظت کا انتظام لوگ خود ہی کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہرے داروں کا تقرر کیا جن کا کام راتوں کو گشت کرنا اور تاریکی کے اوقات میں حفظ امن تھا۔ اس محکمہ کے ساتھ جیل بھی قائم کی۔ عرب میں اس سے پہلے جیل کا رواج نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مختلف شہروں میں جیل خانے قائم کیے اور بعض جرائم کی سزائوں میں ترمیم کر کے قید کی سزا مقرر کی۔ مثلاً عادی شرابیوں کو شرعی حد جاری کرنے کے بعد جیل میں بھیجا جانے لگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قائم کردہ محکمہ پولیس کے آفیسر کو ’’صاحب الاحداث‘‘ کہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کو بحرین میں پولیس کے اختیارات دیے، تاکہ دکاندار ناپ تول میں دھوکا نہ دیں، کوئی آدمی سڑک پر مکان نہ بنا لے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، علانیہ شراب نہ بکے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو بازار کی نگرانی کے لیے مقرر کیا۔

 

(شبلی نعمانی، الفاروق، 2: 307)

 

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نظام پولیس کے تحت عربوں کے برے اخلاق کی اصلاح بھی کی۔ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ لوگ اپنے انساب پر فخر و غرور اور عام لوگوں کی حقارت، ہجو اور بدگوئی کرتے تھے۔ حضرت عمرص نے مساوات کا اس درجہ خیال رکھا کہ آقا و خادم کی تمیز اٹھا دی۔ ہجو کو ممنوع قرار دے دیا۔ شعر و شاعری کو روک دیا۔ کیونکہ عشق و ہوا پرستی کا یہ بہت بڑا ذریعہ تھا۔ شعراء کو تشبیب (عورتوں کی نسبت عشقیہ اشعار) لکھنے کی ممانعت کر دی۔ روک تھام کی غرض سے شراب نوشی کی سزا بڑھا دی۔ پہلے شراب نوش کو 40 درے مارے جاتے تھے انہوں نے 80 درے مارے جانے کا حکم دے دیا۔ الغرض فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اسلام کو اسی حیثیت سے چلایا، جس پاک اور مقدس طریقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بنیاد ڈالی تھی۔ ان سب باتوں سے یہ اثر پیدا ہوا کہ باوجود ثروت، دولت اور وسعت کے اس زمانے میں لوگوں نے اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ مقدم رکھا۔

 

عہدہ قضاء کی ابتداء

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مسلمانوں کو جب کسی معاملے میں مشکل پیش آتی تو اس کے حل کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ سلسلہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی جاری رہا مگر عدل سے متعلق کوئی باقاعدہ ادارہ قائم نہیں ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قاضیوں کا باقاعدہ تقرر کیا جاتا تھا، ان کی تنخواہ بھی متعین کی جاتی تھی، عدل کا معیار بھی چیک کیا جاتا تھا اور اس منصب کے لیے اہلیت کو بھی دیکھا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے منصب عدل کی ابتدا کی۔

 

عدالت میں عدل قاضی کے ذریعے ہی ممکن ہے، مگر قاضی کیلئے نظم ونسق اور قواعد وضوابط کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ملک کے اطراف و اکناف میں قضاء کے منصب پر فائز لوگوں کو تحریری ہدایات فرمائیں۔ اس سلسلے میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ (گورنر) کو منصب قضاء سے متعلق تحریری احکام صادر فرماتے ہوئے لکھا:

 

فإن القضاء فريضة محکمة وسنة متبعة فافهم إذا أدلی إليک فإنه لا ينفع تکلم بحق لا نفاذ له.

 

(دارقطني، السنن، 4: 607، رقم: 16)

 

’’ قضاء (عدالتی فیصلہ) محکم فریضہ اور اتباع کی جانے والی سنت ہے۔ پس سمجھ لے کہ جب تیرے سر پر کوئی فیصلہ ڈالا جائے تو محض ایسے حق بتا دینے سے کوئی نفع نہیں جس کو نافذ العمل نہ کیا جائے ‘‘۔

 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قاضیوں کے انداز اور کردار سے متعلق فرمایا:

 

آس بين الناس في مجلسک وفي وجهک وعدلک حتی لا يطمع شريف في حيفک ولا ييأس ضعيف.

 

(نميري، اخبار مدينة، 1: 411، رقم: 1325)

 

’’ لوگوں کے درمیان اپنے چہرے سے، اپنی نشست و برخاست سے اور اپنے فیصلے سے امید دلائے رکھو تاکہ کوئی معزز آدمی تیرے ظلم کی وجہ سے بری طمع نہ کرے اور کوئی کمزور آدمی تیرے عدل سے مایوس نہ ہو‘‘۔

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان تمام امور کا اتنے احسن اندازسے انتظام کیا کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا تھا۔ قانون کے بنانے کی تو کوئی ضرورت نہ تھی۔ اسلام کا عملی قانون قرآن مجید کی صورت میں موجود تھا البتہ چونکہ اس میں جزئیات کا احاطہ نہیں، اس لیے حدیث و اجماع و قیاس سے مدد لینے کی ضرورت تھی۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایات کی روشنی میں اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ملک میں عدل و انصاف کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ اور مخلص تھے۔

 

جج کا کردار

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب منصب عدل پر فائز ہوتے تو اس بات کی پرواہ نہ کرتے کہ فیصلہ کس کے حق میں ہو گا یا کس کے خلاف ہو گا؟ یہی اللہ کا فرمان اور دین کا طرہ امتیاز بھی ہے۔ اس طرح انسان بے باکی اور حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور عدل و انصاف کرتے ہوئے رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی لحاظ نہیں ہوتا۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

 

ما أبالی إذا اختصم إلی الرجلان لأيهما کان الحق.

 

(الطبقات الکبری، 3: 290)

 

’’جب میرے پاس دو شخص اپنا کوئی مقدمہ لے کر آتے ہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ حق کس کی طرف ہو‘‘۔

 

اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف کی بہت بڑی اہمیت ہے اس کی اہمیت کو قرآن کریم بھی متعدد جگہوں پر ارشاد فرماتا ہے تا کہ معاشرہ امن وسکون کا گہوارا بن سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور میں عدل کے قیام کے لیے اپنے عمال کو ہمیشہ نصیحتیں فرماتے تھے۔ آپ نے عمال کے نام ایک خط لکھا جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (عامل گورنروں) کو لکھا: لوگوں کو اپنے نزدیک حق میں برابر رکھو۔ ان کا قریبی اور دور والا برابر ہے اور ان کا دور والا بھی ان میں سے قریب ترین کے برابر ہے۔ نیز رشوت سے بچو، خواہش پر فیصلہ کرنے سے بچو اور غصے کے وقت لوگوں کی پکڑ کرنے سے اجتناب کرو اور حق کو قائم کرو خواہ دن کے کچھ حصہ میں کیوں نہ ہو‘‘۔

(کنزالعمال، 5: 320، رقم: 14444)

حضرت عمر نہ صرف جج کو تعینات کرتے تھے بلکہ اس کو ایسی ہدایات کے ساتھ نوازتے تھے کہ اس سے منصب قضاء پر اعتماد مضبوط ہوتا تھا اور ہر طرح کی معاشرتی برائیوں سے بچنے کا راستہ بھی اس میں موجود ہوتا تھا۔ یہی ہر دور کا تقاضا ہے جیسا کہ ابن عساکر نے بیان کیا ہے:

قال عمر لشريح حين استقضاه لا تشار ولا تضار ولا تشتر ولا تبع ولا ترتش.

(تاريخ مدينة دمشق، 33: 21)

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب قاضی شریح کو منصب قضاء پر فائز کیا تو فرمایا: اب تم خرید وفروخت نہ کرنا، کسی کو نقصان نہ دینااور نہ رشوت لینا‘‘۔

دوران خلافت عدالت میں پیشی:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی چیز سے متعلق آپس میں جھگڑا تھا، حضرت عمرص نے فرمایا: آپ اپنے اور میرے درمیان کسی کو ثالث مقرر کر لیں، چنانچہ دونوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنا فیصل مقرر کر لیا۔ پھر دونوں ان کے پاس چل کر آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ہم تمہارے پاس اس لئے آئے ہیں تاکہ تم ہمارے درمیان فیصلہ کردو۔ جب دونوں حضرات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بچھونے پر حضر عمر رضی اللہ عنہ کے لئے جگہ چھوڑ دی اور بولے: اے امیر المومنین! یہاں آئیے، حضرت عمر بے شک خلیفہ وقت تھے مگر اس وقت ایک سائل کی طرح حاضر تھے۔ حضرت زید کے اس طرز عمل پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

هذا أول جورک جرت فی حکمک أجلسنی وخصمی.

’’یہ پہلا ظلم ہے (جو تم نے اپنے فیصلے میں ظاہر کیا ایسی صورت میں ) میں اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا پسند کروں گا‘‘

(ابن جعد، المسند، 1: 260، رقم: 1728)

اس کے بعد آپ دونوں حضرات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے۔ حضرت ابی بن کعبص نے کسی چیز کے متعلق دعوی ظاہر کیا، حضرت عمرص نے انکار کر دیا۔ قاعدہ کے مطابق ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر گواہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قسم آتی تھی لیکن حضرت زید بن ثابتص نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فرمایا: امیر المؤمنین کو قسم اٹھانے سے تم معاف رکھو اور ان کے علاوہ میں کسی اور کے لئے ایسا مطالبہ کبھی نہ کرتا۔ مگر حضرت عمرص نے از خود قسم اٹھا لی۔ معاملہ حل ہوجانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ جب تک عمر زندہ ہے زید کبھی عہدہ قضاء پر فائز نہیں ہوسکتا کیونکہ عمر کے نزدیک تمام مسلمانوں کی عزت و آبرو برابر ہے۔

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدل وانصاف کرنے میں کسی سے بھی رعایت نہ برتتے تھے ۔ آقا وغلام اور اپنے پرائے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا تھا۔ شروع شروع مین انتظامی اور عدالتی عہدے ایک ہی شخص کے ماتحت ہوتے تھے مگر بعد میں انصاف کا محکمہ الگ کر دیا گیا۔ اس محکمہ کو قضاء کا محکمہ کہتے تھے۔ تمام ضلعوں میں عدالتیں قائم کی گئیں اور قاضی مقرر ہوئے۔ مقدمات کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جاتا اور اگر کسی معاملہ میں قرآن وسنت خاموش ہوں تو ایسی صورت میں اجتھاد سے کام لے کر فیصلہ کر دیا جاتا تھا۔

بیت المال کا مثالی اور باقاعدہ نظام:

عہد فاروقی میں بیت المال باقاعدہ ایک نظام کی صورت میں قائم ہوا۔ اس سے متعلق علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں:

ولم يکن النبی صلی الله عليه وآله وسلم بيت المال ولا لابی بکر الصديق و اول من اتخذ بيت المال عمر بن الخطاب.

 

(مناقب اميرالمومنين عمر بن خطاب، 87)

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ادوار میں بیت المال (واضح) ادارہ کی صورت میں نہ تھا سب سے پہلے بیت المال کا قیام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا ‘‘۔

صوبہ جات اور اضلاع کے حکام کو یہ ہدایت تھی کہ وہاں کے ضروری مصارف کے لئے رقم نکال کر بقیہ جس قدر ہو سال تمام ہونے پر مدینہ منورہ کے بیت المال میں بھیج دیا کریں۔ چنانچہ عمر و بن العاص والی مصر کو ایک فرمان لکھا جس کے یہ الفاظ تھے:

فاذا حصل اليک و جمعه اخرجت مند عطاء المسلمين وما يحتاج اليه ما لا بل منه ثم انظرفما فضل بعد ذلک فاحمله الی.

(شبلی نعمانی، الفاروق: 232)

 

’’یعنی جب تجھ کو کل مالیہ وصول ہو جائے اور تو اس کو جمع کر لے اور اس میں سے مسلمانوں کے وظائف اور ضروری مصارف نکال لے۔ اس کے بعد جو کچھ ہو اس کو میرے پاس بھیج دے۔‘‘

 

بیت المال میں جو کچھ آمدنیاں آتی تھیں ان کا حساب و کتاب نہایت صحیح طور سے مرتب کیا جاتا تھا۔ اکثر اوقات خود فاروق اعظم رضی اللہ عنہ زکوۃ اور صدقہ کے مویشیوں کو شمار کرتے اور ان کا رنگ، حلیہ، عمر دیکھ کر لکھا کرتے تھے۔

ذرائع آمدن کے استعمال کا قانون:

حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں بیت المال کی آمدنی زکوٰۃ، عشر، جزیہ، خراج اور مالِ غنیمت پر منحصر ہوتی تھی اور یہ تمام کفالت کے معاشرتی قانون کے تحت مستحق افراد پر خرچ کر دی جاتی تھی۔پس جب ملک وسیع ہو گیا اور آمدنی بڑھ گئی اور دفاتر بنائے گئے

۔حضرت علی المرتضی کی خلافت کے نمایاں پہلو۔

اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان نبوت اور جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا اعلان ایمان ہم عمر ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ مذہب اسلام سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا تعلق صدیوں پر محیط ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سیرت مبارکہ کو افراط و تفریط کے ترازو میں بانٹنے کی بجائے اگر اعتدال سے لکھا اور بیان کیا جائے تودور حاضر میں پروان چڑھتی فرقہ واریت اور تشدد کافی حد تک کنٹرول ہو سکتی ہے۔ اس نیک جذبے کے پیش نظر آنجناب رضی اللہ عنہ کی سیرت کے چند پھول چنے ہیں۔

ولادت

صحیح بخاری کے مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت مکۃ المکرمہ کی مشہور وادی شعب بنی ہاشم میں ہوئی۔ صحیح مسلم کے معروف شارح امام نووی قصہ ذی قرد کے تحت لکھتے ہیں کہ جن دنوں آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی آپ کے والد گرامی جناب ابو طالب اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے بلکہ کسی سفر پر تھے آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت اسد نے آپ کا نام اپنے والد کے نام پر اسد رکھا۔ جب خواجہ ابو طالب واپس تشریف لائے تو انہوں نے آپ کا نام ’’علی‘‘ رکھا۔

نام و نسب اور القاب

نام :علی بن ابی طالب۔ کنیت :ابو الحسن ، ابو تراب۔ القاب : اسد اللہ ، حیدر اور المرتضیٰ

خاندانی پس منظر

مشہور مورخ امام ابن کثیر نے اپنی مشہور زمانہ کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں ، اور بنو ہاشم سرداران مکہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ حرم کعبہ کی جملہ خدمات ، چاہ زمزم کے انتظامی معاملات ، حجاج کرام کی مہمان نوازی ، ان کا اعزاز و اکرام اور معاونت کرنا بنو ہاشم کا طغرہ امتیاز تھا۔

خاندان

والد: عبدمناف کنیت ابو طالب والدہ:فاطمہ بنت اسد برادران : طالب، عقیل اور جعفر طیار ہمشیرگان: ام ہانی ، جمانہ

ازدواجی زندگی

1:حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان سے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت زینب الکبریٰ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہم پیدا ہوئیں۔

فائدہ : حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا۔

نوٹ:بعض روایات میں تیسرے صاحبزادے حضرت محسن رضی اللہ عنہ کا نام بھی ملتا ہے۔

دیگر ازواج اور اولاد

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے علاوہ مختلف اوقات میں کئی نکاح فرمائے اور ان سے اولادیں بھی ہوئیں۔

1:ام البنین بنت حذام:ان سے عباس ، جعفر ، عبداللہ اور عثمان

2:لیلیٰ بنت مسعود :ان سے عبیداللہ اور ابوبکر

3: اسماء بنت عمیس :ان سے محمد اصغر اور یحیٰ

4:صہباء بنت ربیعہ :ان سے عمر اور رقیہ

5:امامہ بنت ابی العاص :ان سے محمد اوسط

6:خولہ بنت جعفر :ان سے محمد بن حنفیہ

7: سعید بنت عروہ :ان سے ام الحسن ، رملۃ الکبریٰ اور ام کلثوم۔

نوٹ:یاد رہے کہ بیک وقت چار سے زائد نکاح نہیں فرمائے۔

قبول اسلام

اسلام لانے میں سبقت کرنے کے مسئلہ پر سب سے راجح ترین تحقیق وہ ہے جسے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ و النہایہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے :آزاد مردوں میں سیدنا ابو بکر صدیق ، خواتین میں ام المومنین زوجہ رسول سیدہ خدیجہ الکبریٰ ، غلاموں میں زید بن حارثہ اور نوجوانوں میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سب سے پہلے ایمان لائے۔مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو تربیت میں آپ رضی اللہ عنہ پروان چڑھتے رہے گلستان نبوت میں کھلے اس گل کی ہر پتی سے بوئے نبوت مہک رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی عادات ، اخلاق ، اقوال و افعال میں نبوی تربیت میں ڈھلے ہوئے تھے۔

مکی زندگی

اس میں اہل اسلام کے حالات اس قدر ناموافق ، خطرناک اور دشوار گزار تھے کہ آج یہ لفظ ابتلاء ، آزمائش اور امتحان کا استعارہ بن چکا ہے مشرکین مکہ دعوت اسلام کے پھیلاؤ سے بری طرح خائف اور پریشان تھے۔ ان حالات کی منظر کشی اور اسباب ہجرت بیان کرتے ہوئے امام ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں : قریش اپنی مخالفانہ کوششوں کے سلسلے میں آپس میں مشورہ کر رہے تھے بعض کی رائے یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو قید کر دیا جائے۔ جبکہ بعض یہ کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو دیس نکالا دیا جائے اور بعض کا مشورہ یہ بھی تھا کہ سارے قبائل مل کر یکبارگی حملہ کر کے آپ کو قتل کردیں۔سیرت حلبیہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو سازشوں کی اطلاع فرما دی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سفر کے انتظامات کرنے کاحکم دیا اور جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا: آپ میرے بستر پر لیٹ جانا۔ اور کچھ وقت کے لیے مکہ میں ہی ٹھہرنا اور لوگوں کی امانتیں ان تک پہنچادینا اس کے بعد مدینہ طیبہ پہنچ جانا۔

امام ابن سعد رحمہ اللہ نے طبقات میں لکھا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق لوگوں کی امانتیں حوالے کر کے 13 بعثت نبوی ربیع الاول کے وسط میں مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور مقام قباء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

مدینہ طیبہ میں

مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں ہر لمحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے۔ صحابہ کرام جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ان کے پاس رہنے کے لیے مکان ، پہننے کے لیے نئے لباس اور کھانے کے لیے خوراک کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس وجہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کا تعلق قائم کرایا۔ تاکہ انصار مدینہ اپنے مہاجر بھائیوں کی ہر ممکن امداد کر سکیں۔ اس موقع پر سیرت نگاروں نے بہت تفصیل سے لکھا ہے کہ کس مہاجر کی کس انصاری سے مواخات قائم ہوئی ؟ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں مناقب علی بن ابی طالب کے تحت لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فرمایا :آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں۔

غزوہ بدر میں

2 ہجری 17 رمضان المبارک کو بدر کے مقام پر کفر و اسلام کا پہلا معرکہ لڑا گیا۔ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غلبے کے وعدے شامل حال رہے۔ امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ کفار قریش کی طرف سے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ میدان میں آئے۔ ان کے مقابلے میں پہلے چند انصاری نوجوان آئے۔ کفار نے کہا کہ ہم اپنے مدمقابل قریشیوں سے لڑیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ، چچازاد حضرت عبیدہ بن حارث اور اپنے چچازاد حضرت علی بن ابی طالب کو رزمگاہ میں کودنے کو کہا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے شیبہ کو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عتبہ کو موت کے گھاٹ اتارا،اس کے بعد آپ نے نضیر بن حارث کو بھی تہ تیغ کیا۔جبکہ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ جانبازی سے لڑتے ہوئے شہادت کا جام پی گئے۔ اسلام کے اس عظیم معرکہ میں مہاجرین کا جھنڈا جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تھا۔جنگ بدر کی غنیمت جب تقسیم ہونے لگی تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو ایک اونٹنی ، ایک اعلی تلوار جسے ذوالفقار کہا جاتا ہے(یہ تلوار پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے پسند فرمائی تھی لیکن بعد میں آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عنایت فرما دی)

حضرت فاطمہ الزہرا سے شادی:

2 ہجری غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا۔مسند احمد میں ہے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : جب میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اپنے نکاح کا پیغام دینے کا ارادہ کیا تو میں نے (دل میں) کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، پھر یہ کام کیسے ہو گا؟ لیکن اس کے بعد ہی دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا خیال آگیا۔ لہذا میں نے حاضر خدمت ہوکر پیغام نکاح دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال فرمایا : تمہارے پاس (مہر میں دینے کے لیے) کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری زرہ کہاں گئی؟ میں نے عرض کی : وہ تو موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو (فروخت کرکے مہر میں) دے دو۔

غزوہ احزاب میں

5 ہجری شوال میں غزوہ احزاب جسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے، پیش آیا۔ دشمن کی دس ہزار کی فوج خندق کے قریب آ کر رک گئی، اور تعجب سے کہنے لگی: یہ نئی جنگی تدبیر ہے عرب اس سے واقف نہیں۔اس کے بعد وہ خندق کے ایک تاریک اور تنگ راستے سے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے : دشمن کی فوج میں عمرو بن عبدود نامی ایک بہادر سپاہی بھی تھا جس کے بارے مشہور تھا کہ وہ تنہا ایک ہزار شہسواروں سے لڑ سکتا ہے ، اس نے اہل اسلام کو لڑنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: من یبارز؟ کوئی ہے تم میں جو مجھ سے لڑنے کی ہمت رکھتا ہو؟ اس کے مقابلے میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے عمرو! کیا تو نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اگر کسی قریشی نے مجھے دو چیزوں کی دعوت دی تو میں ایک کو ضرور قبول کروں گا؟ اس نے کہا کہ ایسے ہی ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ ، اس کے رسول اور اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ عمرو نے حقارت آمیز لہجے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: پھر میں تمہیں مقابلہ آرائی کی دعوت دیتا ہوں۔ عمرو نے متکبرانہ لہجے میں کہا : بچے !میں تجھے قتل نہیں کرنا چاہتا۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے دشمن دین کی رعونت کو خاک تلے روندتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم!میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں۔ عمرو غصے سے لال پیلا ہوا ، گھوڑے سے نیچے اترا ، اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور تلوار سونت لی ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور تلوار کو سونت لیا۔ تلواروں کی جھنکار سے رزم گاہ گونج اٹھی ، دشمنان اسلام کے دلوں میں اسلام کی ہیبت اترنا شروع ہوئی اور اہل اسلام کے قلوب میں نصرت خداوندی کی امید؛ یقین کا روپ دھارنے لگی۔ کچھ ہی لمحوں میں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے عمرو جیسے دیوہیکل انسان کو خاک و خون میں ڈھیر کر دیا۔

صلح حدیبیہ میں

6 ہجری ذوالقعدہ میں صلح حدیبیہ کا اہم واقعہ پیش آیا، (صحیح مسلم میں باب صلح الحدیبیہ کے تحت اس کی تفصیل موجود ہے) کفار کا معاندانہ رویہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا ، مسلمانوں کا حرم کی حدود میں داخلہ بند کر دیا گیا ، قریش نے سہیل بن عمرو کو بھیجا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کا ارادہ صلح کرنے کا ہے اس لیے ’’سہیل ‘‘کو بھیجا ہے۔ سہیل نے کہا کہ ہمارے درمیان معاہدہ تحریری طور پر آجائے ، اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو بلایا اور فرمایا کہ لکھو: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، سہیل نے کہا کہ رحمٰن کیا ہے ؟ میں نہیں جانتا۔ اس نے کہا کہ(عربوں کے دستور کے مطابق) باسمک اللھم لکھا جائے آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ علی!یہی لکھ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا : یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے۔ اس پر سہیل نے کہا یہی تو جھگڑا ہے اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو بیت اللہ آنے سے کیوں روکتے ؟ اور جنگ کیوں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ تم جھٹلاتے رہو لیکن صحیح بات یہی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ سہیل نے کہا کہ محمد بن عبداللہ لکھا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی !پہلا لکھا ہوا مٹا دو۔

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ محبت کی دونوں رمزوں سے آشنا تھے کہ کبھی محبت کا تقاضا الامر فوق الادب ہے کہ حکم کا درجہ ادب سے زیادہ ہوتا ہے اور کبھی محبت کا تقاضا الادب فوق الامر ہوتا ہے یعنی حکم کے باوجود ادب کی انتہاء کو فوقیت دی جائے، اس لیے نے نہایت مودبانہ لہجے میں عرض کی: بھلا میں کیسے مٹا سکتا ہوں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے وہ جگہ بتاؤجہاں رسول اللہ لکھا ہے میں خود مٹا دیتا ہوں۔

غزوہ خیبر میں

7 ہجری محرم کے آخر میں یہ معرکہ شروع ہوا، مدینہ کے شمال مغرب میں خیبر نامی ایک یہودیوں کی ایک کالونی آباد تھی، یہ نہایت زرخیز مقام تھا یہاں پر یہودیوں نے چند قلعے بنا رکھے تھے۔ یہود دیگر قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر مدینہ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک عرصے سے جنگی اسلحہ جمع کر رکھا تھا۔ قبیلہ بنو غطفان اور قبیلہ بنو اسد کو نصف کجھوروں کے باغات کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا چکے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تیاریوں اور اسلحہ جمع کرنے کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر فرمایا اور خود 1400افراد پر مشتمل صحابہ کرام کے قافلے کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ادھر رئیس المنافقین عبداللہ بن اْبی نے کسی طریقے سے یہودیوں کو خفیہ طور پر مسلمانوں کی روانگی کی اطلاع دے دی۔پہلے تو یہود نے کھلے میدان میں لڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک میدان میں نکل آئے ان کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کو خیبر پہنچنے میں کچھ دن لگ جائیں گے،چند دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامِ رجیع میں فوجیں اتاریں، خیمے، مستورات اور بار برداری کا سامان یہاں اتار دیا گیا جبکہ اصل لشکر نے خیبر کا رخ کیا۔مقام صہبا ء پر پہنچ کر نمازِ عصر ادا کی گئی اور اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ستو نوش کیے۔ رات ہوتے ہوتے لشکر خیبر کے قریب پہنچ گیا تھا اور عمارتیں نظر آنے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکنے کا حکم دیا اور یہاں رک کر دعا فرمائی۔دوسرے دن خیبر پہنچے۔ یہود ایسی بزدل قوم تھی جب انہوں نے اہل اسلام کی جنگی تیاریاں دیکھیں تو کھلے میدان کے بجائے قلعہ بند ہو کر لڑنے لگے۔خیبر کی آبادی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی، ایک حصے میں پانچ قلعے تھے۔ 1:قلعہ ناعم2:قلعہ صعب بن معاذ3:قلعہ زبیر 4:قلعہ اْبی5: قلعہ نزار ۔

Leave a Reply

Ad Blocker Detected

Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by disabling your ad blocker.

Refresh
Scan the code