aiou course code 4601-1 solved assignment autumn 2022

aiou course code 4601-1 solved assignment autumn 2022

تاریخِ اسلام۔ 4601

مشق نمبر۔1

 

 

سوال نمبر 1۔۔مطالعہ سیرت کی افادیت و اہمیت بیان کریں؟

جواب۔ مطالعہ سیرت کی اہمیت و ضرورت پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ سیرت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف، سیرت اور حدیث کے مابین فرق، سیرت اور تاریخ کے درمیان فرق نیز سیرت کے بنیادی اور اہم مآخذ پر روشنی ڈال دی جائے تاکہ مطالعہء سیرت کی اہمیت اور ضرورت کو بیان کرنا اور سمجھنا دونوں آسان ہوجائے۔

سیرت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف

 

سیرت کے لغوی معنیٰ طریقہ کار یا چلنے کی رفتار اور انداز کے آتے ہیں۔ عربی زبان میں ”فِعلہ“ کے وزن پر جو مصدر آتا ہے اس کے معنیٰ کسی کام کا طریقہ یا کسی کام کو اختیار کرنے کے انداز اور اسلوب کے ہوتے ہیں مثلاً ذِبحہ کے معنیٰ ہیں طریقہء ذبح اور قِتلہ کے معنیٰ ہیں: طریقہء قتل لہٰذا سیرت کے لغوی اور لفظی معنیٰ ہوئے ”چلنے کا طریقہ“۔ بعد میں اس معنیٰ میں مزید توسع پیدا ہوا اور زندگی گزار نے کے اسلوب اور انداز کے معنیٰ میں اس کا استعمال ہونے لگا۔ پھر بہت جلد ہی سیرت کا یہ لفظ آنحضورﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہوگیا۔ چنانچہ آج دنیا کی تمام بولی جانے والی زبانوں میں سیرت کا لفظ عموماً آنحضورﷺ کی مبارک زندگی کے لیے استعمال ہوتاہے۔

 

اسلامی علوم و فنون کی اصطلاح میں سیرت کا لفظ ابتداء میں آنحضورﷺ کے اس طرزعمل کے لیے استعمال کیا گیا جو آپ ﷺ نے غیرمسلموں سے معاملہ کرنے اور جنگوں یا صلح اور معاہدات کے معاملات میں اپنایا۔ چنانچہ قدیم مفسرین، فقہاء، محدثین اور سیرت نگاروں نے سیرت کا لفظ اسی مفہوم میں استعمال کیاہے۔ قاضی محمد اعلیٰ تھانوی نے اپنی مشہور کتاب ”کشاف اصطلاح الفنون“ میں سیرت کے لغوی معنیٰ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے : ثم غلبت فی الشرع علی طریقة المسلمین فی المعاملة مع الکفار والباغین وغیرھما من المستأمنین والمرتدین وأھل الذمة یعنی شریعت کی اصطلاح میں اس لفظ کا زیادہ استعمال مسلمانوں کے اس طریقہء کار پر ہوتا ہے جو وہ کفار، غیرمسلم محاربین ، مسلمان باغی، مرتدین، اہل ذمہ وغیرہ سے معاملہ کے بارے میں اختیار کرتے ہیں۔ علامہ ابن ہمام نے بھی فتح القدیرمیں یہی بات لکھی ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں ”سیرت “ سے مراد وہ طریقہ ہے جوکفار کے ساتھ جنگ وغیرہ میں اپنایا جائے۔

 

بعد کے ادوار میں سیرت کے اصطلاحی معنیٰ میں بھی توسع پیدا ہوا۔ چنانچہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے سیرت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: آنچہ متعلق بہ وجود پیغمبر و صحابہ کرام و آل عظام است و از ابتدائے تو لد آں جناب تاغایت وفات آں را سیرت گویند یعنی آنحضورﷺ کے وجود گرامی ، آپ کے صحابہ کرام، اہل بیت، آل عظام سے جوچیز بھی متعلق ہے ۔ آنحضورﷺ کی ولادت مبارکہ سے آپ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے تک ، ان سب کی تفصیل کو سیرت کہتے ہیں۔

 

چنانچہ جن جن قبائل سے آپ کا کسی نہ کسی درجہ میں تعلق رہا جس معاشرت اور معیشت کا قیام فرمایا جو انتظامات اور ادارے قائم کیے جو وثائق اور دستاویزات آپ نے مرتب کرائیں، آپ کے خدام، عمال، کارندگان حکومت حتی کہ آپ کی سواریاں، گھوڑے ، اونٹنیاں وغیرہ بھی سیرت کے موضوعات میں شامل ہیں۔

 

حدیث اور سیرت کے درمیان فرق

 

آنحضورﷺ کی ذات سے متعلق سابقہ تمام معلومات حدیث کا بھی حصہ ہیں اور سیرت کا بھی۔ محدثین اور سیرت نگار دونوں حضرات نے ان معلومات کی طرف توجہ دی ہے ، البتہ محدثین کا اصل زوراور اہتمام آنحضورﷺ کے ارشادات ، آپ کے افعال و اعمال اور تقریرات پر اس اعتبار سے ہے کہ کیا چیز جائز ہے اور کیا ناجائز؟ اس کے برعکس سیرت نگاروں کا زور اس پر ہے کہ آنحضورﷺ کا ذاتی طرزعمل، شخصیت مبارکہ اور آپ کا رویہ کیاتھا؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتاہے کہ حدیث میں اصل بحث اقوال و افعال اور تقریرات سے ہوتی ہے اور ذات و شمائل رسول ضمناً زیربحث آتے ہیں۔ جبکہ سیرت میں ذات و شمائل رسول اصلاً زیربحث آتے ہیں اور اقوال و افعال پر ضمناً اور تبعاً بحث ہوتی ہے ۔

 

دونوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ سیرت میں درجہء صحت سے فروترروایات بھی لائق اعتناء ہوتی ہیں جب کہ حدیث میں اس کی گنجائش نہیں۔ دونوں کے درمیان ایک اہم فرق یہ بھی ہے کہ صحیح و سقیم مرویات کے مابین امتیاز پیدا کرنے کے لیے محدثین نے جو میزان اور معیار مقرر کیا ہے وہ سیرت نگاروں کے اختیار کردہ معیار سے بلند تر ہے ۔

 

سیرت اور تاریخ کے درمیان فرق

 

سیرت تاریخ کی ایک نوع ہونے کے باوجود فن تاریخ سے الگ اور ممتاز ہے۔ تاریخ کی چند تعریفیں کی جاتی ہیں . مشہور ماہرتاریخ کافیجی متوفی 879ھ نے اپنی کتاب ”المختصر فی علم التاریخ“ میں یہ تعریف کی ہے کہ تاریخ زمانے کے حالات اور ان حالات کے متعلقات کی یقینی تلاش کا نام ہے ۔

 

سخاوی متوفی 902ھ نے اپنی مشہور کتاب ”الاعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ“ میں لکھا ہے کہ زمانے کے واقعات کی موقت جستجو کا نام تاریخ ہے جب کہ سیرت میں بطور خاص آنحضورﷺ سے متعلق واقعات سے بحث کی جاتی ہے۔

 

نیز یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ سیرت کے مآخذ جس قدر مستند اور قابل اعتبار ہیں تاریخ کوان کا دسواں حصہ بھی حاصل نہیں ہے ۔ تاریخ کا مدار صحت مندمآخذ کے بجائے قیاس پر زیادہ ہوتاہے جبکہ سیرت میں قیاس کو قطعاً دخل نہیں ہوتابلکہ روایات کو من وعن ذکرکردینا سیرت نگار کا پہلا فرض ہے۔

 

سیرت کے مآخذ

 

سیرت نبوی کے دو اہم مآخذ ہیں: پہلا ماخذ قرآن کریم ہے ، جس کی صحت اور جس کا درجہء استناد شک و شبہ سے بالا تر ہے ۔ آپ کی زندگی کے اہم پہلوؤں کے لیے صحیح اور بنیادی معلومات قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے آپﷺ کے اخلاق سے متعلق سوال کیاگیا ، آپ نے فرمایا: کان خلقہ القرآن ۔ گویا قرآن آپ کے اخلاق کی صحیح اور سچی تفسیر و تصویر ہے۔ چنانچہ بہت سے علماء نے صرف قرآن پاک کی روشنی میں حیاتِ رسول مرتب کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ اس سلسلے کی ایک اہم کتاب مولانا محمد میاں دیوبندی کی ہے ۔

 

دوسرا اہم ماخذحدیث نبوی ہے جس کی حفاظت وادا میں لاکھوں نفوس قدسیہ نے اپنی جانیں کھپادیں۔ چنانچہ زندگی کے مختلف شعبہ جات سے متعلق آپ ﷺ کے اقوال و افعال پر مشتمل محدثین عظام نے جو مجموعے تیار کیے ہیں وہ سیرت نبوی کو جاننے اور سمجھنے کے اہم ذرائع ہیں۔

 

ان کے علاوہ کچھ ثانوی مآخذ اور مصادر بھی ہیں مثلاً (1) کتب المغازی و السیر (2) دلائل النبوة کے تحت تصنیف کردہ کتابیں مثلاً دلائل النبوة لأبی نعیم، أعلام النبوة للماوردی وغیرہ (3) کتب الشمائل: یعنی وہ کتابیں جو آنحضورﷺ کے اخلاق و اوصاف سے متعلق لکھی گئی ہیں مثلاً الشمائل للترمذی، شمائل الرسول لابن کثیر وغیرہ(4) وہ کتابیں جو تاریخ اور سیرت دونوں کو جامع ہیں۔ مثلاً تاریخ الأمم والملوک للطبری ، تاریخ الاسلام للذھبی وغیرہ۔

 

مطالعہء سیرت کی اہمیت

 

مطالعہء سیرت کی اہمیت کے سلسلے میں علامہ ابن القیم فرماتے ہیں کہ سیرت کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے فرض ہے ، اس لیے کہ سعادت دارین آپﷺ کی لائی ہوئی رہنمائی اور ہدایت پر مبنی ہے ، لہٰذاجوشخص بھی سعادت کا طالب ہو اور نجات کا خواہش مند ہو وہ آپ کی لائی ہوئی ہدایت ، آ پ کی سیرت اور آپ کے معاملات سے آگاہی کا مکلف اور پابند ہے۔

 

دورجدید میں مطالعہء سیرت کی اہمیت کے بعض نئے پہلو ہمارے سامنے آئے ہیں مثلاً تہذیبی نقطہء نظر سے اس کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے کیونکہ اسلامی تہذیب سابقہ تمام تہذیبوں کی روح اور خلاصہ ہے ۔ یہ اسلامی تہذیب ہی ہے جوجدید تہذیبوں کا ربط ماضی کی تہذیبوں سے قائم کرتی ہے ۔ گویا اسلامی تہذیب سابقہ اور لاحقہ تہذیبوں کا نقطہء اتصال ہے ۔ یہ ایک ایسی علمی حقیقت ہے جسے غیرمسلم مؤرخین نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ لہٰذا تمام تہذیبوں کے حقائق کی معرفت کے لیے اسلامی تہذیب سے بھرپور واقفیت لابدی ہے اور اسلامی تہذیب سے واقفیت سیرت کے مطالعہ کے بغیرممکن نہیں۔

 

اسی طرح علمی اور تحقیقی اعتبار سے بھی مطالعہء سیرت کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے یعنی اسلامی تہذیب کی وجہ سے انسانی سطح پر جو زبردست علمی ، تحقیقی اور فکری انقلاب برپاہوا جس کے ذریعہ علوم و فنون کی تحقیق اور اس میدان میں ایک نئے عالمی دور کا آغاز ہوا ۔ آخریہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ اس کی تفصیلات اور اس کے حقائق تک رسائی کے لیے بھی ہمارے لیے سیرت کامطالعہ ناگزیرہے۔

 

بین الاقوامی نقطہء نظر سے بھی سیرت کا مطالعہ کافی اہمیت کا حامل بن گیا ہے یعنی اس وقت جو عالمی مسائل پوری دنیا کو درپیش ہیں ان کا صحیح حل مسلم قوم کو شامل کیے بغیر تلاش نہیں کیاجاسکتا۔ مسلمانوں کو جو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے اسے نظرانداز کرکے اس سمت میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاجاسکتا۔ اس سلسلے میں مسلمانوں سے تعاون حاصل کرنے کے لیے ان کا مزاج اور ان کا تہذیبی پس منظرجاننا از بس ضروری ہے اور اس کے لیے پوری اسلامی تہذیب سے آگاہی ضروری ہے اور یہ سیرت کے بھرپور مطالعہ کے بغیرممکن نہیں ۔

 

نیز یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سیرت محض ایک شخصیت کی سوانح عمری نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب ، ایک تمدن، ایک قوم، ایک ملت اور ایک الٰہی پیغام کے آغاز اور ارتقاء کی ایک انتہائی اہم، دلچسپ اور مفید داستان ہے۔ لہٰذا دور جدید کو خواہ وہ مسلمانوں پہ مشتمل ہو یا غیرمسلموں پر، پوری سنجیدگی کے ساتھ سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

 

مطالعہء سیرت کی ضرورت

 

ایک مسلمان کے لیے مطالعہء سیرت کی ضرورت اظہر من الشمس ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے اسوہء حسنہ صرف آنحضور ﷺ کی ذات گرامی ہے اور اس اسوہء حسنہ کی تفصیلات تین ذرائع سے ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک تو قرآن پاک، دوسرے حدیث و سنت کے وہ ذخائر جن کے جمع کرنے اور مدون کرنے پر ہزاروں انسانوں نے اپنی زندگی وقف کردیں، تیسرا ذریعہ سیرت مبارکہ اور آپ کے وہ شمائل اور خصائل ہیں جو سیرت کی مختلف کتابوں میں بالتفصیل نقل کردئے گئے ہیں۔ اس لیے سیرت کے مطالعہ کے بغیرکوئی چارہء کار نہیں۔

 

نیز اسلام میں خدا کی معبودیت اور وحدانیت کے اعتراف کے بعد سب سے اہم آنحضورﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا ہے ۔ جو ذات ہمارے لیے اتنی اہمیت کی حامل ہو کہ اس کا نام لئے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہ ہوتا ہو ، اس کے حالات سے لاعلمی ایک بدترین جرم ہے۔

 

مطالعہء سیرت کی ضرورت انسانی حیثیت سے بھی ہے ، قرآن پاک نے آنحضورﷺ کے ”رحمة للعالمین“ ہونے کا جو دعویٰ کیا ہے ، ایک انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ حیات طیبہ میں اس دعویٰ کی صداقت تلاش کرے اور حیات طیبہ سے متعلق پوری تفصیلات سیرت کی کتابوں میں درج ہیں۔

 

مطالعہء سیرت کی ضرورت اس پہلو سے اور بھی بڑھ گئی ہے کہ موجودہ دور ایک عالمگیریت کا دور ہے ۔ پوری دنیا ایک عالمگیر نظام کی ضرورت محسوس کررہی ہے ۔ انسانی خودساختہ نظام یکے بعد دیگرے فیل ہورہے ہیں۔ پوری دنیا متبادل نظام کی ضرورت شدت سے محسوس کررہی ہے ۔ یہ ضرورت اگر کوئی مذہب پوری کرسکتاہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے ۔ کیونکہ عالمگیرنظام کا نمونہ اگرکسی نے پیش کیا ہے تو وہ یہی اسلام ہے ۔ گویا عالمگیر نظام برپا کرنے اور اسے صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے اگر کسی شخصیت کی زندگی صحیح رہنمائی کرسکتی ہے تو وہ صرف آنحضورﷺ کی زندگی ہے اور آپ کی پوری زندگی کی عکاسی سیرت کی کتابوں میں موجودہے۔

 

مطالعہء سیرت کی ضرورت اس پہلو سے بھی ہے کہ اسلام ہر دور میں اشاعت کے لحاظ سے ایک تیز رفتار مذہب رہاہے ۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ جن ادوار میں مسلمانوں کو سیاسی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور مادی اور عسکری اعتبار سے بہ ظاہر شکست ہوئی ان ادوار میں بطور خاص اسلام اور تیزی کے ساتھ پھیلا۔ نائن الیون(۱۱/۹) کا واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ اور یورپ میں قبول اسلام کی جو رفتار رہی وہ اس سے پہلے نہیں رہی۔ اس سانحہ کے بعد اسلامی لٹریچرز کی طباعت و اشاعت بھی کئی گنا بڑھ گئی۔ آخراس کے پیچھے راز کیا ہے؟ وہ کیا قوت اور اسپرٹ ہے جو اسلام کو اس تیزی کے ساتھ پھیلارہی ہے؟ اسے جاننے کے لیے سیرت کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے ۔

دورجدید میں مستشرقین کی طرف سے سیرتِ رسول اور تاریخ اسلام سے متعلق غلط قسم کے نظریات قائم کیے جانے اور بے بنیاد الزامات و اعتراضات وارد کئے جانے کی وجہ سے مطالعہء سیرت کی ضرورت اور بھی دوچند ہوگئی ہے ۔ جب تک سیرت کا مطالعہ گہرا اور وسیع نہ ہو ان کی طرف سے پیش کردہ شبہات اور اعتراضات کا رد علمی اور تحقیقی انداز میں بہت ہی مشکل ہے۔

مطالعہء سیرت کی اہمیت اور ضرورت کے یہ چند نمایاں پہلو ہیں جن کا یہاں اختصار کے ساتھ ذکرکیاگیاہے مزید غوروفکر کرنے سے اور بھی پہلو سامنے آسکتے ہیں۔

مطالعہء سیرت کی اہمیت

سوال نمبر2  غزوات نبوی کے نتائج اور واقعات بیان کریں

جواب۔

غزوات نبوی

دور نبوی کے غزوات جن کا تذکرہ مورخین اور سیرت نگار غزوات نبویﷺ کے عنوان سے کرتے ہیں ان کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں دین اسلام کے غلبہ کے بعد سے ہی ہو گیا تھا۔

غزوات کے معنی

غزوہ کی جمع غزوات ہے غزوہ کا معنی ہے قصد کرنا اور غزوات یا مغازی کا لفظ رسول اللہ ﷺ کا بنفس نفیس کفار کے مقابلے کے لیے لشکر لیکر نکلنے کے ہیں اور یہ قصد کرنا یا نکلنا شہروں کی طرف ہو یا میدانوں کی طرف عام ہے

غزوات کا مقصد

قرآن کریم میں جہاد کا حکم آنے پر اس کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم یہ غزوات دیگر عام جنگوں کی طرح نہیں تھے جن میں صرف قتل وغارت گری مقصود ہوتی ہے، بلکہ ان میں اسلامی احکامات کی انتہائی سختی سے پابندی کی جاتی تھی اور بے جا جانوں کے ضیاع، ضعیفوں، عورتوں، بچوں اور غزوہ میں غیر موجود افراد سے قطعی تعرض نہیں کیاجاتا تھا اور نہ ہی مویشیوں، درختوں اور کھیتیوں کو تباہ برباد کیا جاتا تھا۔ البتہ غزوہ بنی نضیر میں اس قبیلہ کے جو باغات ختم کردیے گئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ باغات دشمن کی کمین گاہیں تھیں جہاں یہ سازشیں رچا کرتے تھے، اس لیے انہیں تباہ کرنا پڑا۔

 

تاریخی پس منظر

تفصیلی مضمون کے لیے جہاد ملاحظہ کریں۔

پہلی مرتبہ جہاد کا حکم نبوت کے مدنی دور میں نازل ہوا۔ اس سے قبل مسلمانوں کو طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں تھی بلکہ صبر کی تلقین اور اس پر جنت کی بشارت دی جاتی تھی۔ جہاد کا حکم بھی بتدریج نازل ہوا۔ آغاز میں صرف اپنے دفاع کے لیے لڑنے کی اجازت دی گئی:

جن سے جنگ کی جائے، اُنہیں جنگ کی اجازت دی گئی، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے، اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دئیے گئے، صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔پھر بتدریج حکم نازل ہوا کہ اب اسلام کی شوکت اور غلبہ کے لیے جہاد کریں تاکہ دنیا سے فتنہ ختم ہو اور اللہ کی وحدانیت کو فروغ ملے:اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ ناپید ہو جائے اور دین کامل اللہ کے لیے ہو جائے۔

غزوات کی تعداد تقریباً 28 ہے۔ اس سے قبل کچھ سرایا بھی ہوئے تھے۔

غزوہ اور سریہ کا لغوی مفہوم

غزوہ اور سریہ یہ دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں جو درج ذیل مفہوم کے حامل ہیں:

غزوہ: دشمن سے جنگ کے لیے جانا۔

سَرِیَّہ: فوج کی ٹکڑی جس میں پانچ سے تین چار سو تک افراد ہوں۔

مصنفین سیرت کی یہ اصطلاح میں وہ جنگی لشکر جس کے ساتھ حضور ﷺ بھی تشریف لے گئے اس کو غزوہ کہتے ہیں اور وہ لشکروں کی ٹولیاں جن میں حضور ﷺ شامل نہیں ہوئے ان کو سرِیّہ کہتے ہیں۔غزوہ عموما ایسے جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے بنفس نفیس خود شرکت فرمائی ہو اور سریہ /سرایااس جنگ کوکہتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺخود تشریف نہ لے گئے ہوں بلکہ صحابہ کرام کو کسی صحابی کی سپہ سالاری میں بھیجا ہو۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق غزوات کی تعداد 27اور سرایا کی تعداد 47 ہے۔ بعض مؤرخین نے اس سے اختلاف کر کے غزوات کی تعداد 25 اور سرایا کی تعداد 48 بتائی ہے اور بعض تبوک کے واقعہ کو شامل کر کے غزوات کی تعداد28بتاتے ہیں۔ آج کی تحریر کا موضوع رسول اللہ  ﷺ کے غزوات کا مختصر تعارف ہے۔ تمام غزوات میں مجموعی طور پر کل 148مسلمان شہید ہوئے۔ 293کفار ہلاک ہوئے اور 6070جنگی قیدی بنے۔

اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا غزوہ ’’غزوۃ الابواء‘‘ ہے اس کا دوسرا نام غزوہ ودان بھی ہے۔ یہ پہلی ہجری کے صفر کے مہینے میں پیش آیا۔ اس میں لڑائی کی نوبت نہ آئی۔ اس غزوہ میں پرچم کا رنگ سفید تھا اور علمبردار سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ تھے۔

غزوہ بواط : یہ ربیع الاول کے ماہ اور 2ہجری میں پیش آیا، اس میں کل دو سو صحابہ شریک تھے۔ اس غزوہ کے دوران مدینہ کے امیر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے، پرچم سفید تھا۔

 

غزوہ العشیرہ : یہ جمادی الاول 2 ہجری میں پیش آیا، اس میں بھی پرچم سفید تھا۔

غزوہ بدر الاولی: یہ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق غزوہ عشیرہ کے چند دن کے بعد پیش آیا، اس غزوہ میں آپ کرز بن جابر الفہری کے پیچھے نکلے تھے۔ اس نے چند مشرکین کے ساتھ مدینہ منورہ کی چراہ گاہ پر چھاپا مارا تھا اور کچھ مویشی لوٹ لئے تھے۔ اس میں جنگ کی نوبت نہ آئی، اس غزوہ میں پرچم سفید تھا اور علمبردار سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔

غزوہ بدر الکبری: اسلامی تاریخ کا پہلا بڑا معرکہ جو اسلام اور کفر کے درمیان ہوا وہ غزوہ بدر الکبری ہے۔ جسے عام طور پر غزوہ بدر کہا جاتا ہے۔ یہ 17رمضان المبارک 2ہجری بمطابق 17 مارچ 624 عیسوی کو پیش آیا۔ اس کا مقام بدر جو مدینہ منورہ سے جنوب مغرب کی سمت 80 میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 اور کفار کی تعداد 1000 تھی۔ اس معرکہ میں 14صحابہ شہید ہوئے اور بشمول ابو جہل کے 70کفار ہلاک ہوئے اور 70قیدی ہوئے۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتح نصیب ہوئی۔

غزوہ بنی سلیم :  غزہ بدر کے بعد رسول اللہ  ﷺ کو مصدقہ اطلاع ملی کہ قبیلہ غطفان کی شاخ بنو سلیم کے لوگ مدینہ پر چڑھائی کے لئے فوج جمع کر رہے ہیں۔ آپ کدر نامی چشمے تک مقابلے کے لئے تشریف لے گئے، وہاں تین دن قیام فرمایا لیکن کوئی لڑائی نہ ہوئی۔

غزوہ بنی قینقاع: یہ 2 ہجری میں شوالی کی پندرہ تاریخ کو پیش آیا، یہ مدینہ منورہ میں موجود یہودیوں کا قبیلہ تھا جس نے عہد شکنی کی تھی اور جنگ کے لئے قلعہ بند ہو گئے۔ ان کے قلعے کا محاصرہ کیا گیا اور بالآخر وہ معاہدہ کر کے قلعہ سے باہر آگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے مال و اسباب سمیت جلا وطن ہونے کا حکم صادر فرمایا اور وہ اذرعات کی طرف چلے گئے۔

سوال۔3۔ رحمت و شفقت جودوسخا اور ایفائے عہد نبی کریم صل وسلم کے اس نے رحمت میں ہےتفصیل سے بیان کریں؟

جواب۔

حضرت جریر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ رب العزت اس شخص پر رحم نہیں کرتے جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔“(بخاری ومسلم)

 

رحم اتنی اعلیٰ صفت ہے کہ خالق کائنات کی دو صفات اسی لفظ سے بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایک رحمان دوسرے رحیم۔ ہم جب بھی کوئی کام شروع کریں تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیا کرو جس کا ترجمہ یہ ہے کہ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان‘ نہایت رحم کرنے والا ہے معلوم ہوا کہ رحم کرنا خدائی صفت ہے۔ خدا تو انتہائی رحم و کرم کرنے والا ہے، لیکن اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی عہدہ عطا فرمایا۔

تمام جہانوں اور تمام مخلوق کے لئے آپ کیسے رحمت اور مہربانی والے بنے؟ جب ہم آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی رحمت سے نباتات اور جمادات یعنی پودوں اور بے جان پتھروں نے بھی فیض حاصل کیا، چنانچہ جب بارش نہ ہوتی‘ زمین بیابان ہو جاتی آپ دعا فرماتے بارانِ رحمت کا نزول ہوتا‘ اس سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی۔

 

حتیٰ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں پر بھی انتہائی رحم فرماتے۔ اسی وجہ سے آپ نے جانوروں کو باہم لڑا کر تماشا دیکھنے سے منع فرمایا۔ زمانہ جاہلیت میں شکاری جانوروں کو باندھ کر انہیں نشانہ بناتے اور تیر اندازی کی مشق کرتے آپ نے اس سنگدلی سے منع فرمایا۔ ایک دفعہ ایک صحابی حاضر ہوئے ان کے ہاتھ میں چادر کے اندر لپٹے ہوئے کسی پرندے کے بچے تھے آپ نے فرمایا جاؤ ان بچوں کو ان کے گھونسلوں میں رکھ آؤ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے لئے بھی خیر سگالی کے جذبات رکھتے تھے۔ آپ ان کی حالت کو دیکھ کر کڑھتے تھے کہ یہ لوگ کفر و شرک سے باز نہیں آتے۔ کاش یہ کسی طرح صراط مستقیم پر چل پڑیں حتیٰ کہ کافروں کی طرف سے بدسلوکی اور اذیت ناک تکالیف کے پہنچنے کے باوجود بھی آپ نے اُن کے حق میں بددعا نہ فرمائی۔

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رحم کی حقیقت اور فضیلت معلوم تھی۔ جب ہی آپ کی پوری حیات طیبہ رحم و کرم کی بلندپایہ مثالوں سے لبریز ہے اور رحم کی وہ فضیلت آپ نے اُمت تک پہنچائی اور ارشاد فرمایا:

ترجمہ:”یعنی جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اُس پر رحم نہیں کرتا۔“

لوگوں پر رحم کامفہوم اس حدیث قدسی سے بہت اچھی طرح سمجھ آجاتا ہے جسے صحیح مسلم میں کتاب البروالصلۃ میں روایت کیا گیا ہے۔

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن ضرور فرمائیں گے اے بنی آدم میں بیمار ہوا تونے میری عیادت نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا میں تیری عیادت کس طرح کرتا تُو تو خود سارے جہان کا پروردگار ہے۔ خدا فرمائے گا کیا تجھے نہیں معلوم میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی عیادت نہ کی اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے قریب پاتا۔ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہو گا اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے نہیں کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا اے رب العالمین تمام جہانوں کو پالنے والے میں تجھے کس طرح کھلاتا خدا فرمائے گا۔ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے اُسے نہیں کھلایا اگر تو اُسے کھلاتاتو مجھے اس کے پاس پاتا۔ پھرارشاد باری ہو گا اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا اے پروردگار میں تجھے کس طرح پلاتا تُو تو رب العالمین ہے خدا فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے نہیں پلایا اگر پلاتا تو میرے پاس موجود ہوتا۔“

بچوں پر شفقت بھی رحم کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ بچوں کو پیار فرما رہے تھے اس دیہاتی نے عرض کیا کہ آپ بچوں کو پیار بھی کرتے ہیں ہم تو نہیں کرتے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ترجمہ:”یعنی کیا میں اس پر قادر ہوں کہ تیرے دل سے خدا نے جو رحم نکال لیا ہے وہ پھر رکھ دوں۔“

حضرت نعما ن بن بشیر سے ایک روایت بخاری اور مسلم میں موجود ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رحم کا تعلق ایسا ہے کہ پوری اُمت مسلمہ یک جان و یک قالب نظر آتی ہے۔

 

3سال میں ترکیہ کے ساتھ تجارتی حجم کو 5بلین ڈالرز تک بڑھائیں گے ،وزیراعظم شہبازشریف

فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ تو مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائے گا جیسا کہ ایک بدن ہو جب بدن کا کوئی عضو دُکھتا ہے تو سارے بدن کے اعضاء اس دُکھ میں شریک ہوتے ہیں اور سارا جسم بیداری اور بخار سے سارے جسم کا شریک ہوتا ہے۔ارشاد نبوی ہے:

 

ترجمہ:”یعنی جو شخص چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔“

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رحم کرنے کی جو فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم فضیلت کسی یتیم بچے پر رحم کرنے کے بارے میں بیان فرمائی۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں،جو شخص خدا کی خوشی حاصل کرنے کی خاطر کسی یتیم بچے کے سر پر ہاتھ پھیرے تو یتیم بچے کے سر کے ہر بال کے عوض جس پر اس کا ہاتھ پھرے نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور سب سے بڑی فضیلت اور قیمتی بات تو یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ:”تم ان لوگوں پر رحم کرو جو زمین میں ہیں تم پر وہ رحم کرے گا جو آسمان میں ہے۔“

اسی حدیث کا مفہوم مولانا حالی نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرمایا   :

خدا رحم کرتا ہے نہیں اس بشر پر

نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر

کرو مہربانی تم اہل زمین پر

خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر

جواب۔

ہجرت کے آٹھویں سال رَمَضانُ المبارَک کے مہینے میں آسمان و زمین نے ایک ایسی فتح کا منظر دیکھا کہ جس کی مثال نہیں نہیں ملتی ، اس فتح کا پس منظر و سبب کیا تھا اور نتائج کیا رونما ہوئے اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجئے۔ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت و اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی مکۂ مکرمہ کے وہ لوگ جو آپ کو صادق و امین ، شریف ، محترم ، قابلِ فخر اور عزت و کرامت کے ہر لقب کا اہل جانتے تھے یَک لخت آپ کے مخالف ہوگئے ، انہیں دینِ اسلام کے پیغام پر عمل پیرا ہونے میں اپنی سرداریاں کھوجانے کا ڈر ہوا ، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اگر آج رسولِ خدا کی پُکار پرلَبَّیککہہ دیں تو 14صدیاں بعد تو کیا قیامت تک صحابیِ رسولِ آخرُالزّماں کے عظیم لقب سے جانے جائیں گے ، ہر کلمہ گو انہیں  رضی اللہُ عنہم  کہہ کر یاد کرے گا ، قراٰن (وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-  کا مُژدہ سنائے گا ، بہر کیف یہ ان کے نصیب میں ہی نہ تھا ، (جن کے مقدر میں تھا انہوں نے لَبَّیک بھی کہا) اور پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مخالفت کرنے والوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں اٹھائیں ، لیکن صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا ، جب کفارِ مکہ کا ظلم و ستم ساری حدیں پار کر گیا اور اللہ کریم نے بھی اجازت دے دی تو مسلمان مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت کرگئے تاکہ آزادی کے ساتھ اپنے ربِّ کریم کی عبادت کریں۔ لیکن افسوس کہ کفارِ مکہ پھر بھی باز نہ آئے اور مسلمانوں کو مدینۂ منورہ میں بھی اذیت دینے کے درپے رہے ، ان کی انہی کارستانیوں کے سبب غزوۂ بدر ، اُحُد ، خندق اور کئی سرایا کا وقوع ہوا ، وقت گزرتے گزرتے ہجرت کا چھٹا سال آگیا ، مسلمان مکۂ مکرمہ میں بیتُ اللہ شریف کی زیارت کے لئے بے قرار تھے ، چنانچہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  1400 صحابۂ کرام کی ہمراہی میں ادائیگی ِعمرہ کے لئے مکۂ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے ، کفارِ مکہ نے پھر جفا کاری سے کام لیا اور پُراَمْن مسلمانوں کو مکۂ مکرمہ میں داخل ہونے سے منع کردیا ، بالآخر طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا۔ ظاہری طور پر اس معاہدہ کی اکثر شرائط مسلمانوں کے حق میں بہت سخت تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کاموں میں حکمت ہے اور رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اسی کے بھیجے ہوئے حکیمِ کائنات ہیں ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سب شرائط منظور فرمالیں ، ان شرائط میں یہ بھی تھا کہ فریقین دس سال تک جنگ موقوف رکھیں گے ، اس کے ساتھ ساتھ معاہدے میں ایک بات یہ طے پائی کہ عرب کے دیگر قبائل کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ دونوں فریقوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں باہمی امداد کا معاہدہ کر لیں۔ عرب کے دو قبیلے خزاعہ اور بنوبکر آپس میں دشمن تھے اور ان میں بہت عرصے سے لڑائیاں جاری تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کا دوست بن گیا اور بنوبکر نامی قبیلے نے قریش کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ اب چونکہ صلح کے معاہدے کی وجہ سے مسلمانوں کی طرف سے حملے کا کوئی امکان نہیں تھا اس لئے بنوبکر کی ایک شاخ بَنُو نُفاثہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کفارِ قریش کے ساتھ مل کر بنوخزاعہ پر اچانک حملہ کر دیا۔ [1]یہ واضح طور پر صلح حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی جس میں بنوخزاعہ کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس واقعے کی خبر جب رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ہوئی تو آپ نے قریش کی طرف پیغام بھیجا کہ تین شرطوں میں سے کوئی ایک شرط قبول کر لیں : (1)خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا (یعنی ان کے قتل کا بدلہ) دیں (2)بنو نفاثہ کی حمایت سے دست بر دار ہو جائیں (3)اعلان کردیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ قرطہ بن عمرنے قریش کا نمائندہ بن کر کہا کہ ہمیں صرف تیسری شرط منظور ہے۔ [2] 10رمضان المبارک 8ہجری کو نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  دس ہزار کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہو گئے۔ مکہ شریف پہنچ کر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یہ رحمت بھرا فرمان جاری کیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لئے امان ہے ، جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لئے امان ہے ، جو مسجدِ حرام میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔ مزید فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے بھی امان ہے۔ [3] پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کعبۂ مقدّسَہ کو بُتوں سے پاک فرما کر کعبہ شریف کے اندر نفل ادا فرمائے ، اور باہر تشریف لا کر خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد کفارِ قریش سے ارشاد فرمایا : بولو! تم کو کچھ معلوم ہے؟ کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟

کفار آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رحمت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بولے : اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے بھائی کے بیٹے ہیں۔

 

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رحمت جوش میں آئی اور یوں فرمایا : لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ آج تم پر کوئی الزام نہیں ، جاؤ تم آزاد ہو۔ بالکل غیر متوقع طور پر یہ اعلان سُن کر کفار جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔

اس عام معافی کا کفار کے دلوں پر بہت اچھا اثر پڑا اور وہ آ آ کر آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرنے لگے ، فتحِ مکہ کے روز دو ہزار افراد ایمان لائے تھے۔

حضرت سہیل بن عمرو  رضی اللہُ عنہ  سردارانِ قریش میں سے تھے۔ پہلے اس خوف سے اپنے گھر میں بند ہو گئے تھے کہ کہیں مجھے قتل نہ کر دیا جائے کیونکہ حالتِ کفر میں انہوں نے اسلام کی بہت زیادہ مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے جو مسلمان تھے ، ان کے ہاتھ سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں امان کا پیغام بھیجا تو آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے انہیں امان عطا فرما دی اور اس کے بعد وہ ایمان لے آئے۔ [6] حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح  رضی اللہُ عنہ  یہ بھی قریش کے سرداروں میں سے تھے۔ حضرت سیّدُنا عثمان بن عفان  رضی اللہُ عنہ  کے رضاعی بھائی تھے۔ یہ پہلے اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گئے تھے ، اس لئے یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ جہاں ملے قتل کر دیا جائے۔ حضرت عثمان انہیں لے کر سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان کے لئے امان طلب کی ، سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے انہیں امان عطا فرمائی اور بیعتِ اسلام لے لی ، یوں یہ بھی مسلمان ہو گئے اور ایسے زبردست مسلمان ہوئے کہ پھر کوئی ایسی بات ان سے سرزد نہیں ہوئی جو ان کے دین کو داغدار کرے۔ [7] حضرت سیّدُنا امیر معاویہ اور ان کے والدِ محترم حضرت سیّدُنا ابوسفیان  رضی اللہُ عنہم  سمیت کئی اہم شخصیات فتحِ مکہ کے موقع پر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئیں ، جن میں سے چند نام یہ ہیں : حضرت ابو قحافہ ، حضرت حکیم ابن حزام ، حضرت جبیر ابن مُطعِم ، حضرت عبدالرحمٰن ابن سَمُرہ ، حضرت عَتَّاب بن اَسِید ، حضرت عَتَّاب بن سُلَیم اور حضرت عبداللہ بن حکیم  رضی اللہُ عنہم ۔

 

اللہ پاک اپنے پیارے حبیب فاتحِ مکہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے حُسنِ اخلاق کے صدقے ہمیں بھی بااخلاق بنائے اور دنیا و آخرت میں اس خُلقِ عظیم والے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا سایۂ رحمت عطا فرمائے

سوال نمبر پانچ درج ذیل پر تفصیلی نوٹ لکھیں

ا۔اہم کتب مغازی و سیر

ب۔مدنی عہد نبوت کے اہم واقعات

جواب۔

اہم کتب مغازی و سیر:-

اردو زبان میں سیر و مغازی کی تدوین و تالیف اور اس فن کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب عرف قاضی اطہر مبارک پوری ؒ نے “تدوین سیر و مغازی” کے عنوان سے کتاب تحریر فرمائی۔اس کتاب میں مصنف رحمہ اللہ نے فن سیر و مغازی کے ابتدائی اور ارتقائی نقوش کو مسلسل محنت ، تحقیق اور جاں فشانی سے فراہم کرنے کی کوشش کی  ہے۔ اردو زبان میں اپنے موضوع پر یہ اولین کتاب ہے جو پہلی صدی ہجری کے نصف آخر سے تیسری صدی ہجری تک فن سیر و مغازی کے آ غاز و ارتقا پر روشنی ڈالتی ہے۔اس ضمن میں اس دور کے علمائے سیر و مغازی اور ان کی تصانیف کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ علم حدیث کی اس خاص نوع کے بارے میں ان کی تصنیفی، تعلیمی اور روایاتی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس کتاب کا سب سے پہلا ایڈیشن شیخ الہند اکیڈمی، دیوبند، انڈیا سے سن ۱۴۰۰ھ (بہ مطابق ۱۹۸۰ء)میں شائع ہوا۔پاکستان میں اسے دار النوادر، لاہور سے سن ۲۰۰۵ میں شائع کیا گیا۔ پاکستانی اشاعت میں کتاب کی ابتدا میں فن سیر و مغازی کے حوالے سے پروفیسر عبد الجبار شاکر ؒ کا پر مغز مقدمہ شامل ہے۔ مصنف نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔

۱۔ سیر و مغازی تدوین سے پہلے۔اس باب میں مصنف نے ابتدا میں سیر و مغازی کے لغوی و اصطلاحی معانی بیان کرنے کے بعد اس سے متعلقہ ابحاث اور مغازی کے چند خاص راویوں اور ان کے معیار کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔پھر آ ں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ۲۷ غزوات اور ۵۷ سرایا کی تفصیلات کو جدولی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس باب میں مصنف نے اصحاب المغازی اور اصحاب الحدیث کا فرق بیان کیا ہے اور ان کے روایتی معیار کو متعین کیا ہے۔ مغازی کے کصوصی راویوں کا بسط و تفصیل سے ذکر کرتے ہو ئے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عرب، دورِ جاہلیت سے ہی اپنے ایام و وقائع کا تذکرہ بطور مفاخرت کیا کرتے تھے ۔ اسلام کے بعد غزوات و سرایا کے ذکر اذکار نے اس آ بائی مجد و شرف کا مقام بجا طور پر حاصل کر لیا تو ان غزوات و سرایا کا تذکرہ گھر گھر میں ہو نے لگا، خصوصی مجلسوں اور دروس کی عمومی مجالس میں ، پھر مساجد اس کا چرچا کر کے خیر و برکات کو حاصل کیاجانے لگا۔ان مجالس میں سے “مجلس القلادہ” کا حال نہایت مؤثر پیرائے میں بیان کیا ہے۔

 ۲۔ سیر و مغازی کا تحریری سرمایہ۔

اس باب میں قرآن کریم کی ان سورتوں کے بارے میں ذکر ہے جن میں غزوات کا ذکر آ یا ہے ،ان سورتوں کی طرف آپ نے اجمالی اشارہ کیا ہے کہ کن کن غزوات کا ذکر کن کن سورتوں میں ہوا ہے مثلا ً غزوہ بدر سورہ انفال میں ، غزوہ احد اور بد ار الصغری سورہ آ ل عمران میں ، سریہ ابن الحضرمی سورہ البقرۃ میں وغیرہ وغیرہ۔ اسی حوالے سے عہد نبوی کی سولہ یادگار تحریروں کو بھی پیش کیا گیا ہے ۔جن میں کچھ مفصل ہیں اور کچھ مختصر ہیں نیز ہر تحریر کا مستند ماخذ بھی ذکر کیا ہے۔

۳۔ تدوین سیر و مغازی کی ابتدا پہلی صدی کے نصف آ خر میں ۔

اس باب میں پہلی صدی ہجری میں سیر و مغازی پر ہونے والے کام کے بارے میں تفاصیل موجودہیں ۔مصنف کے مطابق اس صدی کے نصف آ خر میں ہی عروہ بن زبیر، ابان بن سعید بن العاص اور ابن شہاب زہری نے اپنی اپنی کتب کو مدون کر دیا تھا لیکن نا موافق حالات و واقعات کی بناپر وہ محفوظ نہ رہ سکیں ۔

 

مصنف علیہ الرحمۃ نے سیر و مغازی کے دو دور بتائے ہیں۔پہلا دور پہلی صدی کے نصف آ خر سے اس کت اختتام تک ہے جب کہ اس میں باقاعدہ تصنیف و تالیف کا کام شروع نہیں ہوا تھا۔ پہلے دور کی چھ کتب اور سات رواۃ ِ مغازی کے حالات تحریر کئے ہیں۔

دوسرے دور کا آ غاز دوسری صدی کی ابتدا سے ہو ا ہے۔اس دور کی سات کتب اور سات رواۃِ مغازی کا تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے۔

 ۴۔ مختلف شہروں کے علمائے سیر و مغازی اور مصنفین ۔

اس باب میں سیر و مغازی کے ماہرین و مصنفین کے حالات قلم بند کئے گئے ہیں ۔ جن میں کوفے کے نو، بصرے کے سات، واسط کے ایک، اور بغداد کے دس مصنفینِ سیر و مغازی  کے حالات اور ان کی بیش قیمت تصانیف کا تعارف دلکش انداز میں کروایا گیا ہے ۔ ان کے علاوہ رے، مرو، بیہق، نیشا پور، جزیرہ، صنعا، دمشق، شام، مصر اور اندلس کے علما اور ان کی تصانیف کا تعارف بھی کروایا گیا ہے۔

 ۵۔ سیر کی فقہی تدوین ۔

 

اس باب میں سیر و مغازی کی فقہی تدوین پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس ضمن میں امام محمد کی السیر الصغیر، السیر الکبیر ، حسن بن زیاد لولوئی کی کتاب السیر، واقدی کی کتاب السیر اور داود بن علی اصفہانی، صالح بن اسحاق جرمی، محمد بن سحنون تنوخی وغیرہ کی کتب سیرت کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔

اپنے موضوع کے لحاظ سے یہ کتاب ایک بلند پایہ تحقیقی کتاب کا مقام رکھتی ہے۔سیر و مغازی کی تدوین کے حوالے سےانتہائی جان دار اور بہترین کتاب ہے۔ دستی کتابت سے مزین اس کتاب کی پیش کش کا انداز اچھا ہے اور طباعت میں بھی سلیقہ مندی نمایاں ہے۔

ب۔مدنی عہد نبوت کے اہم واقعات

مدینہ منورہ آمد کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ مسجدِ نبوی ؐ کی تعمیر تھی۔ مسجدِ نبوی کے ایک گوشے میں ایک سائبان اور چبوترہ (صفہ) بنایا گیاجس پر وہ مہاجرین صحابہ کرامؓ مدینہ منورہ آکر رہنے لگے تھے جو نہ تو کچھ کاروبار کرتے تھے اور نہ ان کے پاس رہنے کو گھر تھا۔ مکہ مکرمہ اور دیگر علاقوں سے دین متین کی تعلیمات حاصل کرنے کے لیے آنے والے صحابہ کرام بھی یہاں قیام کرتے تھے ۔گویا صفہ ان غریب اور نادار صحابہ کرام کی جائے پناہ تھی جنہوں نے اپنی زندگی تعلیمِ دین ،تبلیغِ اسلام ،جہاد اور دوسری اسلامی خدمات کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

 

مدنی عہد نبوت میں مذہبی تعلیم وتربیت کے دو طریقے تھے ۔ ایک غیر مستقل، جس میں مختلف قبائل کے آدمی مدینہ آکر چند دن قیام کرتے اور ضروری مسائل سیکھ کرواپس چلے جاتے اور اپنے اپنے قبائل کو جاکر تعلیم دیتے۔ ضروری مسائل کی تعلیم کے بعد رسول اللہﷺ انہیں ان کے قبائل میں واپس بھیج دیتے ،چنانچہ مالکؓ بن الحویرث کو بیس دن کی تعلیم کے بعد حکم دیا:

اِرجعوا الی أھلیکم فعلّموھم ومروھم وصلواکما رأیتمونی أصلی ،واذا حضرت الصلوٰۃفلیؤذّن لکم احد کم ثم لیؤمکم اکبر کم۔ (۱)

’’تم اپنے خاندان میں واپس جاؤ اور ان میں رہ کر ان کو امور شریعت کی تعلیم دو اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح پڑھانا، اور جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے سب سے زیادہ پڑھالکھا امامت کرائے‘‘۔

اسی طرح وفد عبد القیس نے رسول اللہ ﷺ کے دست اقدس پر اسلام کی بیعت کی تو آپ ﷺ نے ان کو ادائے خمس ، نماز ، روزہ اور زکوٰۃ وغیر ہ کی تعلیمات دیں اور پھر فرمایا :

 

احفظوہ واخبروہ من وراء کم۔ (۲)

’’ان باتوں کو یاد کر لو اور جاکر دوسروں کو بھی بتا دو۔‘‘

دوسرا طریقہ مستقل تعلیم وتربیت کا تھا اور اس کے لیے صفہ کی درس گاہ مخصوص تھی۔ اس میں وہ لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے جو علائق دنیوی سے بے نیاز تھے اور انھوں نے اپنے آپ کو دینی تعلیم وتربیت اور عبادت و ریاضت کے لیے وقف کررکھا تھا۔مسجد نبوی کی اس درس گاہ کے دوحلقے تھے، ایک درس وتعلیم کاحلقہ اور دوسرا ذکر وفکر اور عبادت وریاضت کا۔حضرت عبداللہؓ بن عمر وفرماتے ہیں:

خرج رسول اللّٰہ ﷺذات یوم من بعض حجرہ،فدخل المسجد، فاذا ھو بحلقتین احدھما یقرؤن القرآن ویدعون اللّٰہ، والاخریٰ یتعلّمون ویعلّمون، فقال النبی ﷺکل علی خیر، ھؤلآء یقرءون القرآن ویدعون اللّٰہ، فان شاء اعطاھم وان شاء منعھم، وھولاء یتعلّمون و یعلّمون، وانما بعثت معلما، فجلس معھم۔ (۳)

’’ایک روز رسول اللہ ﷺاپنے کاشانۂ اقدس سے باہر تشریف لائے تو مسجد میں دو حلقے دیکھے۔ ایک حلقہ کے لوگ تلاوت ودعا میں مصروف تھے اور دوسرے حلقے کے لوگ تعلیم وتعلم میں، آپ ﷺ نے دونوں کی تحسین فرمائی اور فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور اللہ سے دعا مانگتے ہیں ،اگر چاہے تو ان کو عطا فرمائے اور اگر چاہے تو روک لے،اوریہ لوگ سیکھتے ہیں اور سکھاتے ہیں۔( پھر آپ ﷺیہ فرماتے ہوئے کہ) ’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘حلقہ ء درس وتعلیم میں جاکر بیٹھ گئے‘‘

اصحابِ صفہ کے لیے اساتذہ کا تقرر

اصحابِ صفہ کے معلمِ اول تو خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس تھی۔چنانچہ حضرت انسؓ سے روایت ہے:

اقبل ابو طلحۃؓ یوما فاذا النبیﷺ قائم یقرئ اصحاب الصفۃ علی بطنہ فصیل من حجر یقیم بہ صلبہ من الجوع۔ (۴)

’’ایک دن حضرت ابو طلحہؓ آئے تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺاصحابِ صفہ کو کھڑے قرآن پڑھا رہے ہیں،آپؐ نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر کا ٹکڑا باندھاہوا تھا تاکہ کمرسیدھی ہوجائے‘‘۔

رسول اللہ ﷺ جب تعلیم ونصیحت سے فارغ ہوکر تشریف لے جاتے تو حضرت عبداللہؓ بن رواحہؓ حلقہ میں بیٹھ کر تعلیم کے سلسلہ کو اسی طرح جاری رکھتے ۔پھر جب رسول اللہﷺ دوبارہ تشریف لاتے تو لوگ خاموش ہوجاتے۔ آپ ﷺ تشریف فرما ہونے کے بعد فرماتے کہ اسی عمل میں مشغول رہیں اور اس کو جاری رکھیں۔ کبھی کبھارحضرت معاذؓ بن جبل بھی تعلیمی حلقہ سنبھا ل لیتے تھے۔(۵)

رسول اللہ ﷺکے علاوہ کئی مستقل معلمین بھی اصحابِ صفہ کی تعلیم وتربیت پر متعین تھے۔حضرت عبادہؓ بن صامت کا بیان ہے:

علّمت ناسا من أھل الصفۃ القرآن والکتاب فاھدیٰ الیّ رجل منھم قوساً۔ (۶)

’’میں نے اصحاب صفہ میں سے چند لوگوں کو قرآن مجید پڑھایا اور لکھنے کی تعلیم دی تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی‘‘۔

اسی طرح حضرت عبداللہؓ بن سعید بن العاص جو خوشخط تھے اور زمانۂ جاہلیت میں بھی کاتب کی حیثیت سے مشہور تھے، اصحابِ صفہ کو لکھنا سکھاتے تھے۔(۷)

اوقاتِ تعلیم

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نمازِ فجر ادا فرمالیتے تو ہم لوگ آپ ﷺ کے پاس بیٹھ جاتے اور ہم میں سے کوئی آپ سے قرآن کے بارے میں سوال کرتا، کوئی فرائض کے بارے میں دریافت کرتا اور کوئی خواب کی تعبیر معلوم کرتا تھا۔(۸)

سماک بن حرب نے حضرت جابرؓ بن سمرہ سے پوچھا :کیا آپ رسول اللہ ﷺکی محفل میں بیٹھا کرتے تھے ؟ تو انھوں نے کہا:ہاں،میں بہت زیادہ آپﷺ کی مجلس میں شریک رہا کرتا تھا۔ جب تک آفتاب طلوع نہیں ہوتا تھا آپ ﷺ مصلیٰ پر رہتے تھے ،اور طلوع آفتاب کے بعد اٹھ کر مجلس میں تشریف لاتے تھے،اور مجلس کے درمیان صحابہ زمانۂ جاہلیت کے واقعات بیان کرکے ہنستے تھے اور آپﷺ مسکرادیتے تھے۔

اصحابِ صفہ انتہائی نادار اور مفلس تھے اس لیے ان میں سے بعض لوگ دن میں شیریں پانی بھرلاتے،جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتے اور ان کو بیچ کر جو آمدنی ہوتی، اس سے اپنے مصارف پورے کرتے تھے۔ (۹)

اس مصروفیت کی وجہ سے ان میں سے بعض حضرات کو دن میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا، اس بنا پر ان کی تعلیم کا وقت رات کو مقرر کیا گیا تھا۔حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ سترکے قریب اصحاب صفہ رات کے وقت تعلیم حاصل کرتے تھے۔

فکانوا اذا جنّھم اللیل انطلقوا الی معلم لھم بالمدینہ، فیدرّسون اللیل حتٰی یصبحوا۔ (۱۰)

’’جب رات ہوجاتی تھی تو یہ لوگ مدینہ میں ایک معلم کے پاس جاتے اوررات بھر پڑھتے حتیٰ کہ صبح ہو جاتی۔‘‘

Leave a Reply

Ad Blocker Detected

Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by disabling your ad blocker.

Refresh
Scan the code