5601 کورس ۔ تاریخ ادب اردو ا
2022 سمسٹر بہار
1سوالنمبر۔
اردو زبان کے تشکیلی مراحل تفصیل سے بیان کر یں ۔
جواب
زبان،ادب اورتخلیق اپنی اصل میں لفطون کا کھیل ہی تو ہے اور لفظ. کیا ہے حلق ہونٹوں زبان اور تالوکے تال میل سے جنم لینے والے وہ آوازیں جنھین سننے وال اپنے حلق ہونٹون ، زبان اور تالو میں سےجنم لینے والی آوازون سے مشابہ پاتا ہے تو انہیں معنی دے دیتا ہے-یہی آوازیں جب سرتال مین اداہوتی ہے تو نغمہ کہلاتی ہیں-جبکہ لفظون کی بامعنی اور کوبسورت ترتیب ادب پارہ کا نام پاتی ہے۔الفاط کے حسن انتخاب سے کلام معرض وجود میں اتا ہے-جبکہ بے ترتیب الفاظ پاگل کی بڑ سمجھےجاتے ہیں ۔زبان کیا ہے اسکی ساخت اور تشکیل کن عوامل اور مھرکات کی مرہون منت ہوتی ہے، زبان نے کنلوگوں میں جنم لیا؟مختلف زبانین کیسے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے؟ وقت تہذیب تمدن اور تعلیمکیسے الفاظ کو سنوارتی ہے الفاظ مردہ ہو کر کیسے متروک ہوتے ہیں اور زبان میں نے الفاظ کی آمداورقبولیت کا عمل کیسے جاری رہتا ہے اور اسطرع کے متعدد سوالت کا جواب جو علم دیتا ہے وہ ہے،، علم اللسان،علم لسانیات کے میلے میں-
زبان کی پیدائش–
جہاں تک اردو زبان کی جائےپیدائش ،تشکیلی مراحل اور مخصوص صورت پزیری کا تعلق ہے تو اسضمن می ماہر لساینات نے خاصی خامی فراسائی کی ہے – اردو لسانیات کا مجوعی مطالعہ کرنے پریہ امر بھی واضع ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ زور اردو زبان کی جائے پیدائش پر دیا جاتا ہے – ابزبان کوئی انسان تو نہیں کہ سکی جائے پیدائش کا قطع طور پر تعین کیا جا سکے-زبان انسان تو نہیں –ہاں مگر انسانون کی ضرورتہے،اینٹ پتھر کی ماند الفاظ مادی وجود نہیں رکھتےانکا وجود اور ساتھہی عمر بھی انکے استمعال سے مشروط ہے-چناچہ فرد،افراد،گروہ قوم کے ساتھ ساتھ الفاظ بھی حیات پاتے سفرکرتے اور ماضی کے ساتھ حال ومستقبل میں بھی اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں-تاریخ اس بات کی امر ہے کہ قوموں اور نسلون کےمعدوم ہونے کے ساتھ انک عمارت کی مانند انکی زبانیں بھی آثار قدیمہ میں شمار ہوئیں،ہم اردو ہندی بنگلہ تامل اور بڑی زبانوں کی تعداد اگر ہزاروں تک نہیں تو سینکڑوں تک ضرور پہنچی ہے-اس لسانی تنوع کا سب سے برا سبب اس خطہ کو وسعت ہے آج برصغیرتین ممالک کا منقسم ہے مگرنصف صدی بیشتر یہ ایک تھا ایسا جس کی تاریخ بہت قدیم تھی-جس میں مختلف اوقاتمیں مختلف زبانیں
آکر اباد ہوتے رہی-یہان اباد ہونے والے گروہ اقوام اور متنوع اپنے ثقافت اساطیر رسمیں لباس،خوراکاور زبانیں بھی ساتھ لئی اگرچہ کحچھ کی بودباش کے بعد اس خطہ کی ہو کر رہ گئی لیکن انکی زبانثقافت اور اساطیر کے قومی عناصر نے اپنا تشخش برقرار رکھا شاید یہی وجہ ہے کہ ایک رنگی کےباوجود اختلافات کی زیریں لہروں کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے کبھی تو پنجاب سرحد چترال جداگانہنظر اتے ہین بھارت میں تو یہ اساس اور بھی شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب تامل ناڈواور بنگالی صوبے نہیں بلکہ جداگانہ خطے محسوس ہوتے ہیں-جب ساڑھے چار ہزار برس قبل آریہ وسطی یورپ سے نکلے اور پنجاب میں وارد ہوئے تو پہلے سےآباد واراوڑ کول وغیرہ نسلوں سے شمالی ہند کا خطہ خالی کروا لیا-دراوڑوں نے جنوب کا سفر اختیارکر لیا اور چند بلوچستان بھی جا بسے-بلوجستان کے مکرانی اور تامل ناڈو کے باشندے آسام اور
ا ٰڑ ٰٰیسہ کع بعض قبائل جیسے کول بنتھال وغیرہ دراوڑ نسل سے مطلق سمجھے جاتے تھے-اب یہ بھہ دعوہ کیا جا رہا ہے کہ اس خطہ میں دراڑو سے پہلے منڈا نسل کے لوگ آباد تھے-
اسکا مطلب یہ ہوا کہ مغل لشکر مین مختلف قومون کے باہمی میل ملاپ سے ایک ایسی بولی نے جنملیا جس مین ہر زبان کے الفاظ کی آمیزش اور لہجون کا امتزاج شامل تھا-ہوں دیکھیں تو اردو زبانکو( خودرد ) پودے سے مشابہ قرار دی جا سکتی ہے-کسی کو شعوری کاوش سے بغیر عوام سےزریعہ سے عوامی طور پر اس نے وجود پایا اس سے اردو کے عوامی مزاج کا تعین بھی ہوتا ہے اردعایسے زبان ہے جو عوامی ضرورت کیلیے عوامی تقاضوں کی تکمیل کیلیے عوام نے وضع کی-
ترکی زبان میں لشکر کیلیے اردو استمعال ہوتا ہے- شہنشاہ اکبر کے عہد میں زبان کی ساخت کیلیےجس عمل کا آغاز ہوا، شاہ جہاں کے عہد تک وہ واضع صورت اختیار کر جاتا ہے کہ گلی محلہ کےساتھ ساتھ اردو شاہی دربار اور محلات تک جا پہنچی ورنہ شاہ جہاں اسے اردو معلئے نا کہتا-
ان چند سطروں میں ہم نے جو کچھ بیان کیا یہ بے یہ بے حد متنازہ اور الجھے مباحث ہیں- لسانیاتاساطیر اور علم اللسان کے محقیقین نے اس ضمن میں تحقیقات بھی کیں اور خاصی خاصی فرسانی بھیپھر بھی یہ اساس باقی رہا کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نا ہوا-ہندوستان میں صوبوں سے تہ ٰذیبی ثقافت اور لسانی عوامل کا تال میل جاری تھا کہ مسلمانوں نے اسخطہ کا رخ کیا مگر شمال سے انے والی دیگر اقوام کی مانند مسلمان صرف ایک طرف سے ہیہندستان مین وارد نہ ہوئے بلکہ تین طرف سے یعنی شمال ( پنجاب) مغرب (سندہ) اور جنوب ( جنوبیہند کا مغربی ساحل) پنجاب اور سندہ پر مسلمان حملہ آور ہوئے،قابض ہوئے حکومت قائم کی جبکیانکے برعکس جنوب میں بغرض تجارت مسمانون کی آمد کا آغاز ہوا-
2سوال نمبر 2
نقوش سلیمانی “ میں کون سا نظریہ پیش کیا گیا ہے وضاحت سے بیان کریں ۔
علامہ سید سلیمان ندوی (22 نومبر 1884 ۔ 22 نومبر 1953) مرحوم ایک مایۂ ناز عالمِ دین، اسلامی تاریخ کے ماہر اور زبان و ادب کے محقق و ناقد ہیں۔ ان کا اصل میدان تو اسلامی تاریخ ہے اوراردو ادب سے ان کا تعلق ثانوی ہے۔ تاہم اس باب میں بھی ان کا نام بڑی عظمت سے لیا جاتا ہے۔
اس نقطے پر تو تما م اربابِ نظر متفق نظر آتے ہیں کہ علامہ سید سلیمان ندوی اسلامی علوم کے ماہر اور اس کے اسرار و رموز سے واقف و با خبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شبلی جیسی تاریخ ساز ہستی کی شاگردی نصیب ہوئی، پھربعد میں یہی شاگرد شبلی کے علوم و معارف کا حقیقی وارث و امین بھی ٹھہرا۔ شبلی 1914 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ان کی وفات کے بعد نومبر 1914 کو دارالمصنّفین اعظم گڑھ کی بنیاد ڈالی گئی اور جولائی 1916 میں سید صاحب نے ماہنامہ ’معارف‘ کے اجرا کی شکل میں اپنے استاذ کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جس کا شاندار سلسلہ اب ایک صدی عبور کرنے کو ہے۔ علامہ شبلی کا ایک عظیم خواب ’سیرت النبیؐ‘ کی تکمیل بھی ہے۔ اس کے علاوہ سیرتِ عائشہؓ، حیاتِ شبلی، حیاتِ امام مالک، خیام، تاریخِ ارض القرآن، اور ایک معروف اسکول ٹیکسٹ بک رحمتِ عالم وغیرہ ندوی صاحب کی علمی، تحقیقی اور تاریخی قد آوری کی زندہ تصویریں ہیں۔
نقوشِ سلیمانی کا شہرہ اس لیے بھی ہے کہ اردو زبان کے آغاز کے سلسلے میں سید صاحب کا جو ’ نظریۂ سندھ ‘ ہے،اس کا انکشاف پہلی بار اسی کتاب کے ذریعے ہوا۔ سید صاحب اپنے اس دعویٰ کے پیچھے مضبوط دلائل بھی رکھتے ہیں۔فرماتے ہیں: ’’ مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں، اس لیے قرینِ قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ اسی وادیِ سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔ ‘‘(نقوشِ سلیمانی، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ (1993) چوتھا ایڈیشن،ص31)
یہ الگ بحث ہے کہ اس باب میں ان کے اس نظریے کو زیادہ اعتبار حاصل نہیں ہے لیکن سرے سے اس نظریے کو مسترد کرنا بھی آسان نہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا خیال ہے : ’’ اردو زبان کے آغاز اور ابتدائی نشوو نما سے وابستہ مباحث کے لحاظ سے بیشتر ماہرینِ لسانیات میں اسے کسی خاص خطے سے مشروط کرنے کا رجحان قوی تر نظر آتا ہے۔ چنانچہ پنجاب، دکن، اور سندھ کو اردو کی جنم بھومی ثابت کر نے کے لیے جو نظریات پیش کیے گئے انھیں خصوصی شہرت حاصل ہے بلکہ بیشتر لسانی مباحث بھی انھیں نظریات کی ضمنی پیداوار قرار پاتے ہیں‘‘۔ (اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی (2013) دوسرا ایڈیشن، ص63-64)
عرب و ہند کے تعلقات بھی چوں کہ سید صاحب کا موضوع رہا ہے اور اس سلسلے میں ان کی ایک مستقل کتاب ’’ عرب و ہند کے تعلقات ‘‘بھی ہے۔ اس لیے وہ اپنے ’نظریۂ سندھ‘ کی دلیل یوں پیش کرتے ہیں: ’’ ایک ایسا ملک جو مختلف نسلوں، مختلف قوموں، مختلف زبانوں کا مجموعہ تھا، نا گزیر ہے کہ وہاں باہمی میل جول کے بعد ایک زبان پیدا ہو۔ وہ پیدا ہوئی اور اسی کا نام اردو ہے‘‘۔ (نقوش،ص5)
سید صاحب کا خیال ہے کہ اردو کا نام اردو بھی غلط ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ ہندوستان کی اس مشترک زبان کو اردو کہنا، میں اصطلاح کی غلطی سمجھتا ہوں۔ اردو کے ابتدائی مصنّفین نے اس کو ہمیشہ ہندی کہا ہے اور انگریزوں کی زبان میں اب تک اس کا نام ’’ ہندوستانی‘‘ ہے‘‘۔( نقوش،ص7)اسی کی وضاحت کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ اس زبان کا نام ’ اردو‘ تیرہویں صدی کے اوائل کی بات ہے یعنی آج سے تقریباً ڈھائی سو سال پہلے کا یہ نام ہے۔
سید سلیمان ندوی اس بات پربہت مصرنظر آتے ہیں کہ ہندوستان کی مشترکہ زبان کا نام اردو غلط ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح عرب کی زبان عربی، چین کی زبان چینی،جاپان کی جاپانی اور روس کی زبان روسی کہلاتی ہے اسی طرح ہندوستان کی اس مشترکہ زبان کا نام بھی ہندوستانی ہونا چاہیے۔ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں: ’’ایک شائستہ اور مہذب زبان کا خاصہ ہے کہ اس کے نام لینے کے ساتھ وہ قوم یا ملک سننے والے کی سمجھ میں آجائے۔… لفظِ اردو سے اس قسم کی کوئی مدد ذہنِ انسانی کو نہیں ملتی اس لیے اس کی جگہ اس کے اصلی نام ’ہندوستانی‘ کو رواج دینا چاہیے‘‘۔( نقوش،ص105)
انھوں نے اس سلسلے میں اہلِ وطن کے سامنے بڑی قیمتی تجاویز بھی رکھیں اورانھیں نظر انداز کرنے کی صورت میں اس کے خطرناک انجام سے بھی آگاہ کیا۔سید صاحب اس ہندوستانی کے قائل تھے جس کا رسمِ خط فارسی تھا لیکن وہ اس بات کے سخت مخالف تھے کہ اس پیاری اور شیریں زبان کو عربی وفارسی اور سنسکرت کے بھاری بھرکم الفاظ سے بوجھل کر دیا جائے۔ ’ہماری زبان بیسویں صدی میں‘ میں سید صاحب نے پورے ملک میں اردو زبان کی وسعت و ترقی، مختلف تحریکوں کے زیرِ اثر اردو زبان و ادب کے قائم ہونے والے نئے نئے جزیروں، اردو کی جامعات اور اداروں، اردو کو عالمگیر حیثیت عطا کرنے میں دینی مدارس کے کرداروں اور مختلف اردو اخبار ات و رسائل کے اجرا کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اخیر میں مختلف موضوعات پر مشتمل اردو کی مطبوعہ کتابوں کی ایک طویل فہرست بھی درج کی گئی ہے۔
ایسے ہی مشمولہ ’ہماری زبان‘ میں بھی اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کی سید صاحب نے پر زور وکالت کی ہے۔ یہ مضمون در حقیقت اردو ہندی تنازع کے سلسلے میں اردو کے خلاف اٹھائے گئے چند سوالات کا جواب ہے جس میں سید صاحب نے بڑی دردمندی کے ساتھ اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر اس مشترکہ وراثت ’ہندوستانی‘ کو نظر انداز کیا گیا تو ملک کے ہزار سالہ تہذیب و تمدن کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔
سید صاحب کے خطبات کی روشنی میں اردو زبان کے تئیں ان کے نظریات کے ذکر کے بعد اب ان کی تحقیق و تنقید کی طرف قلم کا رخ موڑا جاتا ہے۔ سید صاحب نے اپنے تحقیقی مقالات اور تقریظ و مقدمے میں جو ادبی گفتگو یا آرا پیش کی ہیں انھی تحریروں کے تناظر میں ان کے تحقیقی و تنقیدی مقام و مرتبے کو متعین کرنے کی سعی کی جائے گی۔
مقالات کے ضمن میں پندرہ مضامین شاملِ کتاب ہیں۔ ان میں بیشتر مضامین کا رنگ تحقیقی ہے۔ ان کے خطبات کا رنگِ تحقیق بھی خاصا شوخ ہے لیکن خطبات کے مقابلے میں مقالات زیادہ مفصل اور مدلل ہیں۔ متذکرہ مقالات میں ’اکبر کا ظریفانہ کلام‘، ’ ہاشم علی کا مجموعۂ مراثی ‘ کے سوا بقیہ کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ تحقیق ہی سے ہے بطورِ خاص ’بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘‘ (بالاقساط ) ’ تہنید‘ اور ’ جواہر الاسرار میں کبیر کی بات چیت‘۔ ان مقالات میں ’انڈیا آفس لائبریری میں اردو کا خزانہ‘ کو سفرِ انگلینڈ کا اور ’ سفرِ گجرات کی چند یادگاریں ‘ کو سفرِ گجرات کا رپورتاژ کہنا چاہیے۔
’’ انجمن اردوئے معلی کے چند سوالوں کا جواب ‘ اور ’زبانِ اردو کی ترقی کا مسئلہ‘۔اردو ہندی تنازع کے تصفیے اور اردو کو قومی زبان کا مقام دینے کے سلسلے میں رشید احمد صدیقی نے مختلف اصحابِ نظر اور دانشوران سے چند سوالات کیے تھے۔ سوالنامہ سید صاحب کے پاس بھی آیا تھا۔ اول الذکر انھیں سوالات کے جواب پر مشتمل مضمون ہے۔ کسی بھی زبان کی ترقی کے حوالے سے پروفیسر براؤن ( مستشرق ) نے چند معروضات پیش کیے تھے۔ ان ہی معروضات کی روشنی میں مہدی حسن صاحب نے دارالمصنفین اعظم گڑھ کے سامنے کچھ تجاویز رکھی تھیں۔ آخر الذکر اسی تجویزی خط کا مدلل جواب ہے۔اس سے قبل سید صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اردو میں ایک جامع انسائیکلو پیڈیا تیار کرنے کی تجویز ر کھی تھی اور اردو ادب میں انسائیکلو پیڈیا کا یہ تصور شاید پہلا تھا۔ اس کی ترتیب کی معقول دلیل بھی انھوں نے پیش کی تھی لیکن قوم کی بہت سی محرومیوں کے ساتھ ایک اور محرومی کا اضافہ ہوا کہ سید صاحب کا یہ خواب خواب ہی رہا۔ مہدی حسن صاحب کو انھوں نے اس مضمون کا بھی حوالہ دیا کہ بازار میں ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ منصوبہ ناکام رہا اس لیے کہ پروفیسر براؤن کے یہ مشورے یہاں کی فضا کے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ سید صاحب فرماتے ہیں :
’’ ہمارے نزدیک یہ اس وقت تک ناقا بلِ عمل ہیں جب تک ملک میں اس کی مانگ اور اس کی قدر دانی کا جذبہ نہ پیدا ہو ‘‘۔ ( نقوشِ سلیمانی، ص 184)
اپریل 1692 میں شاید کانگریس کی طرف سے ’ہوم رول ‘ کی تجویز آئی تھی تو سید صاحب نے یہ مضمون ’’ ہوم رول سے پہلے ہوم لنگوئج‘‘ تحریر کیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ ہوم رول کے تخیل سے پہلے کم از کم ساتھ ساتھ ہوم لنگوئج کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔( نقوش،ص194) اس مضمون میں بھی ملکی زبان میں تعلیم دیے جانے پر سید صاحب نے خاصا زور دیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ہمارے نزدیک تو صرف اس کا علاج اردو زبان ہے جس کی عملاً ہمہ گیری اور عمومیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ (نقوش،ص197-98) ’اردو کیوں کر پیدا ہوئی ‘ میں السنۂ عالم کے جملہ خاندانوں کا جائزہ لیا گیا ہے، اردو کی پیدائش کے اسباب و عوامل اور پس منظر سے بھی بحث کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ اسلامی عہد کی ادبی تاریخ کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مخلوط زبان سندھ، گجرات، اودھ، دکن، پنجاب اور بنگال ہر جگہ کی صوبہ وار زبانوں سے مل کر ہر صوبے میں الگ الگ پیدا ہوئی‘‘۔ (نقوش،ص251) ایک لسانی اصول کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’ ہر زبان تین قسم کے لفظوں سے بنتی ہے۔اسم، فعل، حرف۔ اس بولی میں جس کو اب اردو کہنے لگے ہیں، فعل جتنے ہیں وہ دہلوی ہندی کے ہیں۔ حرف جتنے ہیں ایک دو کو چھوڑ کر وہ ہندی کے ہیں البتہ اسم میں آدھے اس ہندی کے اور آدھے عربی،فارسی، اور ترکی کے لفظ ہیں‘‘۔ ( نقوش،ص255)
اردو لسانیات کے باب میں یہ مضمون بہت وقیع ہے۔ یہ خیال کہ سید صاحب علمِ لسانیات سے سرے سے واقف نہیں تھے زیادہ صحیح نہیں ہے البتہ عالمی سطح پر لسانیات کی مہارت ان کے یہاں ڈھونڈنا مشکل ہے تاہم مشرقی زبانوں بطورِ خاص عربی، فارسی اور ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانوں میں سید صاحب کو دسترس حاصل تھی اور وہ بحسن و خوبی ان زبانوں کی باریکیوں سے با خبر تھے۔ ’بہار کے نو جوان اور ادب کی خدمت‘ کو اَسّی سال قبل کی اردو ادب کی تاریخ کا ایک اہم جز قرار دیا جاسکتا ہے۔ آٹھ دہائیوں پہلے کا لکھا ہوا یہ ایک تجزیاتی مضمون ہے لیکن آج کے تناظر میں بھی اگر اس مضمون کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سید صاحب کے پیش کردہ یہ سارے نکات اور مفید مشوروں کی معنویت علیٰ حالہ برقرار ہے۔ نئے شعرا و ادبا کے لیے انھوں نے جو رہنما خطوط پیش کیے تھے وہ سب کے سب آج بھی منتظرِ عمل ہیں۔
’ بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘ دو قسطوں کا ایک طویل مضمون ہے جس میں بالدلیل قدیم الفاظ کی دل چسپ تحقیق پیش کی گئی ہے۔ علامہ ندوی کو چوں کہ عربی، فارسی اور انگریزی پر یکساں عبور حاصل تھا اور اردو تو ان کی مادری زبان تھی اس لیے لفظوں کی تحقیق میں مزید دلکشی پیدا ہو گئی ہے۔ ’ تہنید‘ کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے بلکہ بعض اعتبار سے یہ مضمون اول الذکر سے زیادہ جامع اور پر لطف ہے۔ ’ تہنید‘ میں یہ بتایا گیا ہے کہ عربی، فارسی اور سنسکرت سے ’ہندوستانی‘ تک کس طرح لفظوں کا سفر طے ہوا اور بالآخر یہا ںآکر ان کی حتمی شکل کیا بنی۔ اس باب میں سید صاحب کا خیال یہ ہے کہ جس طرح سے ایک مہاجر ہجرت کر کے جس خطۂ ارضی کو اپنا مستقل مسکن بناتا ہے اور اسے وہیں کے قانون کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے اسی طرح لفظوں کی ہجرت کا حال ہے۔ اس ردو بدل اور شکست و ریخت کو سید صاحب نے ہر زندہ زبان کا حق قرار دیا ہے۔
’ اکبر کا ظریفانہ کلام ‘ میں علامہ مرحوم نے اکبر الٰہ آبادی کی ظریفانہ شاعری پر بھر پور گفتگو کی ہے۔ اہلِ ادب واقف ہیں کہ اکبر مرحوم نے ہندی معاشرے کو مغربی طرزِ زندگی کی خرابیوں سے آگاہ کر کے اس کے نقصانات سمجھائے بلکہ مغرب کا کھلم کھلا مذاق بھی اڑایا۔ سید صاحب نے اپنے سات نکات کے ذریعے اکبر کی شعری خصوصیات و امتیازات کو بیان کیا ہے اور مثالوں کے ذریعے کلامِ اکبر کی تفہیم کو آسان کرنے کی خوب صورت کوشش کی ہے۔ ’جواہر الاسرار میں کبیر کی بات چیت‘ یہ ایک تشنہ اور ادھورا تاثراتی مضمون ہے۔ ’ہاشم علی کا مجموعۂ مراثی‘ یہ مضمون بظاہر ہاشم علی کے مرثیوں کے مجموعے پر ایک تبصراتی مضمون ہے لیکن اس ضمن میں سید صاحب کی دکنی زبان پر دسترس اور اس پر گہری نظر کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔
اردو میں تعمیری ادب میں بھی سید صاحب کا نام نمایاں ہے۔ غیر افسانوی نثر میں سوانح نگاری اور سفرنامہ نگاری میں بطورِ خاص انھوں نے اپنی توجہ صرف کی۔ ادبی صحافت سے بھی ان کی گہری وابستگی رہی ہے جس کی گواہی ’معارف ‘ اعظم گڑھ سے بآسانی لی جاسکتی ہے۔ انورسدید مرحوم نے انھیں شبلی اسکول کا رکنِ رکین قرار دیا ہے۔ انور سدید لکھتے ہیں : ’’ وہ اعلیٰ پائے کے نقاد تھے۔ حالی و شبلی، جگراور شاد پر ان کے مضامین جمالیاتی تنقید کی مثالیں ہیں ‘‘۔ ( تاریخِ اردو ادب،ص387)
سید صاحب کی اس کتاب میں مکتوب نگاری پر بھی دو اہم مضامین شامل ہیں۔اول ’مکاتیبِ شبلی‘ دوسرا ’مکاتیبِ مہدی‘۔ اول الذکر میں شبلی کے اولین مجموعۂ خطوط کی جمع آوری اور خطوط کی خصوصیات و امتیازات پر عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔ آخر الذکر میں خط کی تاریخ و تعریف اور اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے مہدی افادی کے خطوط کے امتیازات بھی بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ مرحوم کا قلم حد سے زیادہ چلبلا اور البیلا تھا۔ نوکِ قلم پر جو بات آگئی وہ نا گفتنی بھی ہوتی تو گفتنی ہو کر نکل جاتی اور پھر اس طرح نکلتی کہ شوخی صدقہ ہوتی اور متانت مسکراکر آنکھیں نیچی کر لیتی‘‘۔ ( نقوش،ص: 385)لیکن کہیں کہیں سید صاحب کا قلم تنقید کرتے کرتے ذاتی یادوں اور محبت و عقیدت کی سرحد میں جا گھستا ہے جو تنقید کے مزاج کے خلاف ہے۔اس کے با وجود یہ مضمون سید صاحب کی تنقیدی بصیرت کا واضح ثبوت ہے اور اردو مکتوب نگاری کے باب میں ایک خاصے کی چیز بھی۔
عبادت بریلوی نے سید صاحب کی عملی تنقید پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ سید سلیمان ندوی کی عملی تنقید کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاعری کی خصوصیات تو بیان کر دیتے ہیں لیکن اس سلسلے میں محض اصولوں سے کام نہیں لیتے۔ اسی وجہ سے کوئی معقول تجزیہ ان کے یہاں نہیں ملتا‘‘۔ ( اردو تنقید کا ارتقا، ص269)
حق یہ ہے کہ سید صاحب کا اصل میدان تحقیق ہے خواہ اس کا تعلق ادب سے ہو یا تاریخ سے، تاہم اردو تنقید میں بھی وہ اپنی ایک نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ مشرقی تنقید کے حوالے سے عبادت بریلوی خود لکھتے ہیں : ’’ تنقید کی مشرقی اصطلاحات سے وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں ضرور کام لیتے ہیں۔ فصاحت و بلاغت، تشبیہات و استعارات، لطافت و روانی، بے ساختگی، آمد، آورد، جدتِ ادا، غرض یہ کہ اس قسم کی تمام اصطلاحات ان کی تنقید میں ملتی ہے۔ کہیں کہیں انھوں نے سادگی اور جوشِ بیان وغیرہ کی اصطلاحات سے بھی کام لیا ہے جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی عہدِ تغیر کی تنقید سے متأثر ہیں‘‘۔ (اردو تنقید کا ارتقا، ص269)
3سوال نمبر۔
اردوزبان کی تشکیل اور اس کے پھیلاؤ میں صوفیائے کرام کے کردار پر مثالوں کی مدد سے بات کر یں۔
جواب۔
اردو زبان کی ابتدائی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے فروغ صوفیائے کرام کا نمایاں کردار تھا۔ زبان کے تشکیلی مراحل سے اس کی ترقی تک صوفیا کرام کے مختلف سلسلوں نے اس کو اختیار کیا اور اس سے قربت کا محرک بنے۔ اگرچہ صوفیا کرام کا اصل مقصد تبلیغ و اصلاح تھامگر بندگان خدا تک ترسیل و ابلاغ کے ایک ذریعے کے طور پر انھوں نے اس زبان کو اختیار کیا۔ کچھ تو ان کا خلوص اور جدوجہد اور کچھ اردو زبان کا عوامی لہجہ دونوں نے مل کر ایک دوسرے کو تقویت بخشی۔ واقعہ یہ ہے کہ صوفیائے کرام ایک ایسی دنیا کی تعمیر میں منہمک تھے جہاں دنیا داری کا شائبہ تک نہیں تھا بلکہ ایثار و اخلاص کی کارفرمائی تھی۔ اثیارواخلاص کے اسی ماحول میں اردو زبان نے اپنا سفرشروع کیا۔
شمس الرحمن فاروقی نے شیخ بہاء الدین باجن (1388۔ 1506)کو اردو کا پہلا باقاعدہ ادیب قرار دیا ہے۔ شیخ باجن نے خزائن رحمت اللہ کے نام سے اپنا فارسی اور ہندوی کلام کا مجموعہ مرتب کیا۔ اس میں صوفیا کی معروف ومقبول صنف سخن جکری بھی شامل تھی۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے :
’’خزائن رحمت اللہ ‘‘میں شیخ نے ایک عرصۂ طویل کے لیے اردو زبان اور ادب کے حدود اربعہ بیان کردیے :اس کی زبان ہندوی ہے، اس کی بحریں ہندستانی بھی ہیں اور فارسی بھی۔ اس کے مضامین مذہبی/صوفیانہ بھی ہیں اور دنیاوی بھی اس شاعر کی جڑیں عوام میں گہری ہیں۔ اور ہردلعزیز بن جانے کی صفت اس میں پوری طرح موجود ہے۔ اس کے معاملات میں زہد، روحانی اور صوفیانہ پاکیزگی نمایاں ہے۔ وطن کی محبت بھی ایک نمایاں وصف ہے۔ (ارود کا ابتدائی زمانہ ص: 70۔ 69)
انسان دوستی اور وطن سے غیر معمولی محبت نے ہی صوفیا کے آستانوں کو مرجع خلائق بنا دیا تھا۔ ان کے یہاں خویش و بیگانے کا لفظ ہی نہیں تھا۔ عام انسانوں کی بھلائی اور رہنمائی کے جذبے کے تحت ہی صوفیا نے ان زبانوں /بولیوں کو اختیار کیا جس کا دائرہ وسیع تھا۔ اور جس میں اتنی قوت تھی کہ اس سے پیغام رسانی ممکن ہو سکے۔ مخلوط زبانوں کا معیار خصوصا مقامی بولیوں اپ بھرنش اور مخلوط زبان فارسی صوفیا کے یہاں زیادہ ملتی ہے۔ قاضی محمود دریائی ( 1419 تا 1534ء) سنت کبیر (وفات 1578) شیخ عبدالقدوس گنگوہی (1455۔ 1538) اور شیخ علی محمد جیوگام دھنی (وفات 1565) کی تخلیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پندرہویں صدی کے آغاز تک گجرات میں فارسی زبان کے ساتھ ہندوی الفاظ کا بھی استعمال شروع ہوگیا تھا۔ قاضی محمود دریائی سے منسوب کرامتوں کے ذیل میں بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جس کی کشتی بھنور میں پھنس کر ڈوبنے والی ہوتی تو اس وقت اگر وہ قاضی صاحب کو یاد کرتا یا ان کا ورد کرنے لگتا تو کشی بھنور سے نکل جاتی اسی لیے ان کا لقب دریائی پڑگیا۔ مولوی عبدالحق نے ان کے بارے میں لکھا ہے :
ان کا(قاضی محمود دریائی) مشرب عشق و محبت تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کا سارا کلام اسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ زبان ہندی ہے جس میں کہیں کہیں گجراتی اور فارسی عربی کے لفظ بھی آجاتے ہیں۔ کلام کا طرز بھی ہندی ہے۔ چونکہ موسیقی کا خاص ذوق تھا اس لیے ہر نظم کی ابتدا میں راگ راگنی کا نام بھی لکھ دیا ہے۔ …
نینوں کا جل مکھ تنبو لاناک موتی گل ہار
سیں نماؤں نیہ پاؤں اپنے پیر کروں جوہار
(یعنی آنکھوں میں کاجل، منہ میں پان، ناک میں موتی، گلے میں ہار، اس سج دھج سے میں سرجھکاؤں، محبت کروں اور اپنے پیر کو آداب کروں )
(اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیا ئے کرام کا کام، مولوی عبدالحق، ص:58)
شیخ خوب محمد چشتی کا شمار گجرات کے اکابر صوفیا میں ہوتا ہے۔ گجری کے سب سے بڑے شاعر کے طور پر بھی ان کا ذکرکیا جاتا ہے مگر عبدالقدوس گنگوہی اور سنت کبیر کو یہ اولیت حاصل ہے کہ ان سے پہلے کسی صوفی نے ہندوی /ہندی شمالی ہند میں استعمال نہیں کی۔ خوب محمد چشتی کی مشہور تصنیف ’’خوب ترنگ ‘‘ہے۔ مولوی عبدالحق نے اسے خالص تصوف کی کتاب قرار دیا ہے۔ البتہ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
شاہ علی محمد جیوکی کتاب ’’جواہر اسرار اللہ ‘‘اس سے مختلف ہے۔ اس میں عشق و محبت کا رنگ ہے اور قلبی واردات کا ذکر ہے۔ ’خوب ترنگ ‘اس کے مقابلے میں ایک خشک کتاب ہے جس میں صوفیانہ اصطلاحات میں تصوف کے مقامات کا بیان ہے۔
(اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیا ئے کرام کا کام، مولوی عبدالحق، ص:64)
شمالی ہندکی یہی کھڑی بولی ترقی کرتے کرتے اردو زبان کی شکل اختیار کر گئی۔ ان لوگوں سے پہلے بھی گرچہ شمالی ہند میں دو صوفی شاعروں کا ذکر خصوصیت سے کیا جاتا ہے۔ ایک مسعود سعد سلمان (1121۔ 1046) اور دوسرے امیر خسرو (3125۔ 1253) لیکن جہاں تک ان شعرا کا کے ہندوی کلام کا تعلق ہے تو مسعود سعد سلمان کا ہندوی کلام ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن ان کے ہندوی کلام کا حوالہ فارسی کے پہلے تذکرہ نگار محمد عوفی اور خود امیر خسرو نے دیا ہے۔ اور امیر حسرو کے ہندوی کلام کے بارے میں اگرچہ ہم پورے وثوق سے تو نہیں کہہ سکتے کہ جو کلام زبانوں پر آج بھی جاری ہے وہ امیر خسرو کا ہی ہے۔ لیکن یہ کلام ان سے منسوب ضرور کیا جاتا ہے۔ صوفیا کرام کی زبان کے تئیں یہ ساری باتیں ابتدا سے لے کر اردو کی ترقی تک جاروی وساری رہیں۔ ذکر و اذکار کی مختلف صورتیں جو ان کے توسط سے عوام تک آئیں ان میں ہی زبان کے فروغ اور وسعت کا راز پوشیدہ تھا۔
سطور بالا میں جس صوفی صنف سخن جکری کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسے ذکری بھی کہا جاتا ہے جسے عوامی بول چال نے جکری کردیا۔ اس کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ دراصل یہ محنت و مشقت کا ایک گیت تھا جسے عورتیں چکی پیستے وقت گاتی تھیں اس میں کام کے ساتھ ساتھ ذکر بھی ہوتا ہے۔ یہی ذکر ذکری اور پھر جکری ہوگیا۔ البتہ شمس الرحمن فاروقی نے شیخ بہاء الدین باجن کے ذکر میں اس صنف کے ذیل میں لکھا ہے :
اس مجموعے(خزائن رحمت اللہ )میں انھوں نے اپنی تصنیف کردہ ہندی /ہندوی جکریاں بھی شامل کیں۔ جکری اس زمانے میں شمال و جنوب کی معروف ومقبول صوفی صنف سخن تھی (اردو کا ابتدائی زمانہ ص:69)
زبان کی تشکیل اور ترقی کے انھیں مراحل میں راہ سلوک اور فنا فی اللہ کے جذبے نے حقیت اور مجاز کے پہلو کو نمایاں کیا، جس کا بہت واضح رنگ اردو کی غزلیہ شاعری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ شاعری میں حقیقت و مجاز کی یہ کار گزاری صوفیا کی رہین منت ہے۔ اٹھارہویں صدی تک آتے آتے صوفیانہ مضامین ہماری شاعری میں داخل ہونے لگے۔ بعد میں ان شعرا کی تعداد زیادہ ہوگئی جو تصوف کے حقیقی پہلو سے ناآشنا تھے مگر اس مستحکم روایت کا غیر شعوری طور پر حصہ بن گئے، جو ز بان کے تشکیلی مراحل سے گزر رہی تھی۔
اس میں شک نہیں کہ اردو شاعری کی ابتدا ان متصوفانہ خیالات سے ہوئی تھی، جہاں راہ سلوک کی مزلیں طے کرنے کے لیے عشق ضروری تھااور یہی مجازی عشق حقیقی عشق کا زینہ ثابت ہوا۔یہاں تلاش میر سے میر تقی میرکا وہ اقتباس دہرالینا ضروری ہے جو میر کے والد نے انھیں نصیحت کے طور پر کہے تھے:
بیٹا عشق کرو، عشق ہی اس کارخانے میں متصرف ہے، اگر عشق نہ ہوتا تو نظم کل قائم نہیں رہ سکتا، بے عشق زندگی وبال ہے۔
عشق میں جی کی بازی لگادینا کمال ہے، عشق بناتا ہے عشق ہی کندن کردیتا ہے، دنیا میں جو کچھ ہے عشق کا ظہور ہے۔ آگ عشق کی سوزش ہے، پانی عشق کی رفتار ہے، خاک عشق کا قرار ہے، ہوا اس کا اضطرار ہے، موت عشق کی مستی ہے، زندگی عشق کی ہوشیاری ہے، رات عشق کا خواب ہے اور دن عشق کی بیداری ہے۔ مسلمان عشق کا جمال ہے، کافر عشق کا جلال ہے، نیکی عشق کا قرب ہے، گناہ عشق کی دوری ہے، جنت عشق کا شوق ہے، دوزخ عشق کاذوق ہے، عشق کا مقام عبودیت و عارفیت و زاہدیت و صدیقیت و خلوصیت و شفافیت و خلیت و حبیبیت سے بہت بلند ہے۔ (تلاش میرمترجم پروفیسر نثار احمد فاروقی ص 55)
ایرانی روایت میں عاشق مرد ہے جبکہ صوفیا کے یہاں مقامی بولی میں عشق کی جوخود سپردگی ہے وہ خالص ہندی روایت ہے۔ کیونکہ ہندی روایت میں پریتم کی اصطلاح کے تحت عشق کا اظہار عورت کرتی ہے۔
ولی ؔنے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا جو راستہ دکھایا دراصل اسی تصوف کے زیر اثر تھا، جس کی نہایت روشن مثالیں فارسی شعرا کے یہاں ملتی ہیں۔ دراصل یہ تزکیۂ قلب کا ایک ذریعہ ہے۔ واضح مذہبی تعلیمات کے علی الرغم انسان نے دنیا کی جن نفسانی خواہشات کو اپنایا اور انھیں اپنا رہنما بنایا ان کی شدت اور جذبے کو ختم کرنے کے لیے صوفیاء کرام نے نفس کشی کی تعلیم کو عام کیا۔ جس میں انسانی خواہشات کے مقابلے توکل اور قناعت کو مرکزیت حاصل تھی۔ شعراء نے صوفیا کے انھیں نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ معاشرے میں انھیں موضوعات کو مقبولیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان موضوعات کومعاشرے میں جو مذہبی اعتبار حاصل تھا، ولی نے اسے اپنی شاعری کی مقبولیت کا ذریعہ بنایا۔ و لی نے کہا کہ:
عشق میں لازم ہے اول ذات کو فانی کرے
ہو فنا فی اللہ دائم یا د یزدانی کرے
ولی کوں نہیں مال کی آرزو
خدادوست نئیں دیکھتے زر طرف
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
نفس سرکش پر جو کئی پایا ہے یاں فتح و ظفر
دارعقبی کے بھتر الحق وہی منصور ہے
پہلے شعر میں فنا فی اللہ کی تعلیم دی گئی ہے، جب کہ دوسرا شعر توکل اور قناعت پر مبنی ہے۔ تیسرے شعر میں عشق کے تیر کاری کے بعد زندگی کا بھاری لگنا گویا عاشق محبوب کے وصال کا تمنائی ہے۔ اور اسی لیے یہ دنیا بھاری لگ رہی ہے۔ آخری شعر میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ نفس پر قابو پانا ہی اصل فتح مندی اور کامیابی ہے۔
ہماری شاعری میں میر کے یہاں خود سپردگی کی روایت اسی ہندی روایت کا حصہ ہے، جبکہ غالب کی انانیت کا سلسلہ ایرانی روایت سے استوار ہوتا ہے۔
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
بندگی میں بھی وہ آزاد ہ خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
خواجہ میر درد (1720– 1785) کو صوفی شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اردو شعر وادب کی تاریخ میں درد کی قدر و منزلت اور معیار و مرتبہ صوفیانہ شاعر کی حیثیت سے ہی متعین کیاجاتا ہے۔ درد بذات خود نقشبندیہ سلسلے سے تھے، دلی کے پر آشوب دور میں جبکہ تمام شعرا دلی سے لکھنؤ یا بعض دوسرے مقامات کو ہجر ت کررہے تھے مگردرد نے دلی کی چوکھٹ نہیں چھوڑی بلکہ حالات کی حد درجہ خرابی کے باووجود وہ یہیں رہے۔
ْخواجہ میردرد کے کلام میں جہاں ایک طرف ایقان وعقیدہ اور توکل و قناعت ہے تو دوسری طرف یاس وتشکیک کے پہلو بھی نمایاں ہیں قابل غور نکتہ یہی ہے کہ صوفی تو اپنی ہستی کو ایک ایسی ہستی/ذات میں ضم کرنے کا خواہاں ہو تا ہے جو اس سے بلند تر ہی نہیں بلکہ عظیم تر ہوتی ہے او ر ایسے مواقع پر جذبہ کی کارفرمائی زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کی شاعری میں نا امیدی اور خوف نہیں ہوتا ہے، جب کہ درد کے یہاں دونوں طرح کے اشعار پائے جاتے ہیں اسی لیے شمس الرحمن فاروقی نے درد کو ایک شاعر صوفی قراد یا ہے نہ کہ صوفی شاعر۔ فاروقی نے درد کے کلام کی بنیادی خصوصیت تفکر کا تصوروتفعل قرار دیا ہے۔
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
ارض وسماکہاں تری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما ں سکے
آتش عشق قہر آفت ہے
ایک بجلی سی آن پڑتی ہے
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
اردو کے بیشتر کلاسیکی شعرانے صوفیانہ مضامین باندھے ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں تو یہ بات زبان زد خاص و عام تھی کہ ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است ‘‘۔ اردو شاعری کے سربرآوردہ شعرا میں میروغالب کا شمار ہوتا ہے ان کے یہاں بھی صوفیانہ مضامین کی کمی نہیں اور اس میں انھوں نے اعلی سے اعلی مضامین باندھے ہیں۔
اردو زبان و ادب کی انتہائی ترقی کے باوجود اردو کے یہ ابتدائی نقوش آج بھی نہایت اہم ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری تاریخ کے وہ ابواب جہاں جہاں مذہبی رجحانات کی کارفرمائی رہی ہے ہمارے ادبی مورخوں نے دیدہ و دانستہ اسے نظر انداز کردیا ہے۔ اس تناظر میں قرآن مجید کے اردو تراجم کی ابتدائی کوششوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خانوادہ وللہی کے بزرگوں نے اس خدمت سے نہ صرف قرآن پاک کے معنی و مفاہیم لوگوں تک پہنچائے بلکہ اس سے اردو زبان کو تقدس کا درجہ بھی حاصل ہوگیا۔ اس حقیقت کے اعتراف میں کیا تردد ہے اردو کے فروغ اور اس کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیا اور صوفیانہ افکار کا غیر معمولی کردار ہے۔ اس زبان میں شیرینی اور حلاوت ہے وہ انھی بزرگوں کا فیضان ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ جہاں بانی اور کشور صرف شہنشاہوں کا کام نہیں۔ تلواروں کی جھنکار حکومتوں کو زیر نگیں کرسکتی ہے مگر دلوں پر حکمرانی کا اصول ہی کچھ اور ہے۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں صوفیااسی اصول پر کار بند رہے۔ وہ خواہ علم و فن اور ادب کا میدان رہا ہو یا سلوک و معرفت کا۔ انھوں نے عشق کی وارفتگی اور جنوں کے پیرہن کے ساتھ دنیائے علم وادب پر جو اثرات مرتب کیے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ صوفیا کے حکیمانہ جمال و جمال کے سامنے بادشاہوں کا جاہ وجلال بھی نہیں ٹھہر سکا۔ انجذاب و انقیاد اور اخلاص و ایثار کا جو خمار ان بزرگوں کے عمل میں نظر آتا ہے اس کی جھلک ان کی تحریروں میں بھی ملتی ہے۔
4سوال نمبر۔
اردوزبان کے آغا زوار اٹھا کے حوالے سے ڈاکڑ مسعود حسین خان ، ڈاکٹر سہیل بخاری اور ڈاکٹر شوکت سبز داری کے نظریات کا تقابل پیش کریں
”اردو قواعد کی جتنی کتابیں موجود ہیں وہ سب عربی ، فارسی یا انگریزی کے تتبع میں لکھی گئی ہیں۔ کسی نے اردو زبان کے مزاج و منہاج کو سامنے رکھ کر اس کے اصول و قواعد مرتب نہیں کئے۔ میں قواعد کی ایسی ہی کتاب لکھنا چاہتا ہوں“۔ اس تمنا کا اظہار معروف ماہر لسانیات ڈاکٹر شوکت سبزواری نے سن ساٹھ کی دہائی میں کیا تھا اور پھر عملاً اس کا آغاز بھی کر دیا تھا یعنی اردو گرامر کی ایک مبسوط اور جامع کتاب لکھنے کے لیے مواج جمع کرنا شروع کر دیا لیکن اپنی دفتری مصروفیات کے باعث وہ اس کام کو مو ¿خر کرتے رہے۔ سن ستر کا عشرہ شروع ہوا تو انہوں نے تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر اردو کی ایک نئی قواعد مرتب کرنے کا بیڑا اٹھایا لیکن ابھی پہلا ہی باب مکمل کر پائے تھے کہ اوپر سے بلاوا آگیا اور 19مارچ 1973 ءکو گرامر کی کتاب ادھوری چھوڑ کر وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئے۔ آج ان کی وفات کے چوالیس برس بعد تک بھی کوئی مرد قواعد ان کے کام کو آگے نہیں بڑھا سکا۔سبزواری کے نامکمل مسودے کا کیا ہوا ،اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ آئیے پہلے اس قول کا تجزیہ کیا جائے کہ اردو کی کوئی مستند گرامر آج تک شائع نہیں ہوئی اور اب تک جو کتابیں بھی سامنے آئی ہیں وہ عربی، فارسی یا انگریزی کے نمونے پر لکھی گئی تھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو قواعد کے قدیم رسالے لاطینی گرامر کی طرز پر لکھے گئے تھے حتیٰ کہ ان میں اردو اسما کی ’حالت‘ کو بھی لاطینی گردان کی شکل میں بیان کیا گیا تھا۔
اب تک کی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ اردو کی اولین معلومہ قواعد ہالینڈ کے ایک باشندے نے مرتب کی تھی۔ جان جوشوا کٹیلر نامی یہ ڈچ باشندہ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں ہندوستان آیا تھا اور سورت کے شہر میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ناظم تجارت مقرر ہوا تھا۔ ہندوستان میں اس کے قیام کی تاریخوں سے اندازہ لگا کر مولوی عبدالحق نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ہندوستانی زبان کی یہ اولین گرامر 1715 ءکے لگ بھگ لکھی گئی تھی لیکن اب سے چند برس پہلے معروف محقق محمد اکرم چغتائی نے خود یورپ جا کر جو تحقیق کی اس سے ثابت ہوا کہ یہ کتاب مذکورہ زمانے سے پچیس برس پہلے لکھی گئی تھی۔ کتاب لاطینی میں ہے اور ہندوستانی زبان کے الفاظ اور جملوں کی مثالیں رومن رسم الخط میں دی گئی ہیں۔ یہ کتاب محض اپنی اولیت کی وجہ سے اہمیت کر گئی ورنہ اس میں ہندوستانی زبان کا کوئی مفصل تجزیہ موجود نہیں ہے۔۔اردو گرامر کی دوسری معروف کتاب 1743 ءمیں شائع ہوئی۔ اس کو ایک جرمن مشنری بنجمن شلزے نے مرتب کیا تھا۔ یہ بھی لاطینی زبان میں تھی لیکن اردو کے الفاظ اردو ہی کے رسم الخط میں درج تھے۔ یہ کتاب بھی ایک ایسے شخص کے نقطہ نظر سے لکھی گئی تھی جو لاطینی کو ام لالسنہ گردانتا تھا۔ اردو کو بھی لاطینی قواعد کے اصولوں پر پرکھتا تھا۔ شلزے کو جتنی بھی ہندوستانی (اردو) آتی تھی، اس پر بنگالی کا اثر نمایاں تھا اور بہت سے الفاظ جو اس نے اردو یا ہندوستانی کے نام پر درج کئے ہیں، دراصل بنگالی الفاظ ہیں۔
اردو گرامر کی ابتدائی کتابوں میں ایک اہم نام جان گلکرسٹ کی ’قواعد زبان اردو‘ کا ہے جو بنیادی طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازمین کو مقامی زبان سے آشنا کرانے کے لیے لکھی گئی تھی۔ متن انگریزی میں تھا اور اردو کے اسما و افعال کا تجزیہ لاطینی، یونانی اور انگریزی اصولوں کے مطابق کیا گیا تھا۔
انیسویں صدی کے دوران مغربی انداز میں لکھی ہوئی گرامریں اتنی بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں کہ ان کے سرسری تذکرے کے لیے بھی ایک پوری کتاب درکار ہو گی البتہ جان ٹی پلیٹس کی گرامر ان میں نمایاں ترین مقام رکھتی ہے۔ اس کی تمام عمارت بھی لاطینی بنیادوں پر استوار کی گئی ہے لیکن کتاب چونکہ انگریزی میں ہے اس لیے لاطینی، ڈچ، پرتگیزی اور جرمن زبان میں لکھے گئے متون کے مقابل اہل ہند کے لیے زیادہ مفید رہی اور 1874ءمیں شائع ہونے والی یہ کتاب آج ڈیڑھ صدی گزرنے کے بعد بھی مقامی اہل قواعد کے لیے اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے۔
خود اہل ہند میں انشا اللہ خان انشا پہلے شخص تھے جنہوں نے اردو زبان کے قواعدی ڈھانچے کا مطالعہ کیا اور ’دریائے لطافت‘ کی شکل میں ایک سدا بہار تحفہ اردو کو دیا گیا۔
انیسویں صدی میں چھپنے والی اردو گرامر کی تین کتابوں کا ذکر یہاں بے جا نہ ہو گا۔
1 ۔ مولوی احمد علی دہلوی کی فیض کا چشمہ : 1825 ئ
2 ۔ سرسید احمد خان کا رسالہ ’اردو صرف و نحو‘ : 1842
3 ۔ مولوی امام بخش صہبائی کی ’اردو صرف و نحو‘ : 1849 ئ
یہ تینوں کتابیں بھی عربی، فارسی قواعد کے زیر اثر ہیں اور اردو کو ایک مقامی اور ہندوستانی زبان کے طور پر دیکھنے کا رجحان ان میں نہیں پایا جاتا۔
بیسویں صدی کے شروع میں سب سے زیادہ مقبول ہونے والی گرامر تھی فتح محمد جالندھری کی مصباح القواعد، لیکن اس کی مقبولیت کا راز اردو زبان کی ساخت کا تجزیہ نہیں بلکہ ہر قواعدی زمرے میں حسب حال دیے ہوئے اشعار تھے۔ چونکہ زبان کا تعلق اس وقت تک صرف شعر و ادب سے جوڑا جاتا تھا اور (سوائے انشا کے) کسی نے بھی عوامی بول چال کو تجزیہ کے قابل نہ جانا تھا، اس لیے فتح محمد جالندھری کی کتاب بھی اعلیٰ و ارفع زبان کے خصائص بیان کرتی ہے۔ مرتب کلاسیکی عربی کے عالم تھے اور ان کا کیا ہوا قرآن پاک کا ترجمہ آج بھی ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ عربی سے اپنے گہرے شغف کے باعث وہ اردو زبان کا تجزیہ کرتے ہوئے کہیں بھی عربی کے اثر سے آزاد نہیں ہوئے۔ مولوی عبدالحق اردو کے پہلے قواعد نویس ہیں جنہوں نے اردو کو ایک آریائی زبان کے طور پر دیکھا ہے۔ اپنی معروف کتاب قواعد اردو کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں ’اردو خالص ہندو زبان ہے اور اس کا شمول آریاوی السنہ میں ہے۔ بخلاف اس کے، عربی زبان کا تعلق سامی السنہ سے ہے لہٰذا اردو زبان کی صرف و نحو لکھنے میں عربی زبان کا تتبع کسی طرح جائز نہیں۔ دونوں زبانوں کی خصوصیات بالکل الگ ہیں ….‘۔
آگے چل کر مولوی صاحب نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اردو کے ہندی الاصل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا موازنہ سنسکرت سے کیا جائے(جیسا کہ کچھ یورپی سکالرز کرتے تھے) تاہم اس تمام تر جدت طرازی کے باوجود مولوی عبدالحق کی لکھی ہوئی قواعد بھی اسم، فعل اور حرف کی کلاسیکی تقسیم ہی پر استوار ہوئی ہے اور اس میں بیسوی صدی کے ان رجحانات کی جھلک نہیں دکھائی دیتی جو مطبوعہ حرف کی بجائے صوتی اکائیوں کو زبانکی بنیاد مانتے ہیں۔
صوتی اصولوں کا ہلکا سا پرتو ہمیں 1971 ءمیں شائع ہونے والی جامع القواعد میں نظر آتا ہے جس کے مو ¿لف ہیں ابواللیث صدیقی۔ تاہم اس کتاب میں بھی جدید لسانیاتی اصولوں کا ذکر محض حواشی میں نظر آتا ہے اور اردو جملے کے تجزیے میں کلاسیکی اصول ہی کارفرما نظر آتے ہیں۔
اس تمام پس منظر میں ڈاکٹر سبزواری کا یہ اعلان انتہائی حوصلہ افزا تھا کہ وہ اردو زبان کو عربی، فارسی، انگریزی، لاطینی یا سنسکرت کی بجائے خود اردو ہی کے اصولوں پر پرکھنا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی اور وہ اپنے تمام تر علمی سرمائے اور تحقیقی جذبے سمیت اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ ان کے نامکمل کام کو 1971ءمیں کراچی کے مکتبہ اسلوب نے ڈاکٹر قدرت نقوی کے حواشی اور مشفق خواجہ کے دیباچے سے آراستہ کر کے شائع کر دیا تھا۔ اس ادھورے کام میں بھی اردو اسم کی بحث مکمل طور پر موجود ہے اور یہ شائقین اردو کے لیے ایک گراں قدر تحفے کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج جبکہ پاکستان میں ادارہ برائے فروغ قومی زبان، مجلس ترقی ادب اور اردو سائنس بورڈ جیسے جید ادارے موجود ہیں، توقع کرنی چاہیے کہ ڈاکٹر شوکت سبزواری کے کام کو آگے بڑھایا جائے گا اور اردو زبان کی ایک مکمل اور مستند گرامر منظر عام پر آ سکے گی۔
5سوال نمبر۔
پنجاب میں اردو کا تنقیدی جائز ہ پیش کر یں ۔
پنجاب ہندوستان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ مختلف ادوار میں اس خطے کا نام تبدیل ہو کر اب ”پنجاب” نام سے جانا جاتا ہے جو کہ فارسی زبان کے دو لفظوں ”پنج” اور ”آب” کا مرکب ہے اس کا مطلب ہے پانچ پانیوں کی دھرتی اور وہ پانچ آب یا دریا ہیں ستلج،راوی،بیاس،چناب اور جہلم۔پروفیسر ناشر نقوی لکھتے ہیںکہ:
”اِس دھرتی کو خدا نے پانچ دریائوں کی نعمتوں سے سرفراز کیا اور اِن دریائوں کو اس قدرسیراب رکھا کہ حرص و ہوس کی پیاس انکے قریب سے بھی نہ گزر سکی۔” ١خطہ پنجاب تہذیبی، تاریخی اور ادبی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامِل ہے۔ پنجاب ایک مشترکہ تہذیب و کلچر کی علامت ہے اور اس مشترکہ کلچر میں صوفیوں، سنتوں اور سِکھ گوروصاحبان نے اہم کردار نبھایا ہے جیسے بابا فرید، بُلھے شاہ، شاہ حسین وغیرہ یہ وہ صوفی بزرگ تھے جنھوں نے اپنے کلام میں وحدت، اخوت، بھائی چارگی، ہمدردی انسانیت جیسی عظیم صفات کا درس دیا۔سِکھ مذہب کی مقدس کتاب گورو گرنتھ صاحب میں جن شعراء کا کلام موجود ہے ان میں مسلمان بزرگ بابا فرید، ہندوسنت کبیر اور نامدیو بھی شامل ہیں۔یہ صوفی سنت، درویش گوروصاحبان سر زمینِ پنجاب میں اتنے ہر دلعزیز ہوئے کہ ان سب کے پیغامات پنجاب کی شناخت بن گئے۔عباداﷲ لکھتے ہیںکہ:
”گورو گرنتھ صاحب میں اُردو زبان کی جو شکل و صورت ملتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گورو صاحبان اور وہ شعراء جن کا کلام اِس میںشامل ہے نے اپنے خیالات کی تبلیغ کے لئے اس زبان کا بھی سہار ا لیا۔”٢
اس خطہ میں ہندو، مسلم،سِکھ، عیسائی سب بغیر مذہبِ ملت پنجاب کے مشترکہ کلچر کو آپسی رواداری اور بھائی چارگی کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔ اس مشترکہ کلچر کے مختلف عناصر میں قومی جذبہ حبُ الوطنی، جذبہِ ایثار و قربانی، ایک دوسرے کا احترام پنجاب اور پنجابیت کی شناخت بنے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر جسبیر سنگھ اہلووالیہ کہتے ہیں:
”سرزمینِ پنجاب کو گیان اور دھیان کی دھرتی کہا جاتا ہے۔یہاں کے منفرد کلچر یہاں کے گیت اور سنگیت یہاں زندگی کو جی بھر کے جینے کی خواہش اور یہاں چونکا دینے والی فکر و نظر پنجاب کے لئے ہی نہیں پورے ہندوستان کے لئے باعث فخر ہے۔” ٣
اُردو اور پنجاب کا گہرا رشتہ شروع ے ہی رہا ہے۔اُردو کے شاعروں اور ادیبوں نے اپنے کلام میں اہلیان پنجاب کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔علا مہ اقبال بھی پنجاب کا ذکر گورو نانک دیو جی کے حوالے سے اس طرح کرتے ہیں:
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو ایک مرد کامل نے جگایا تھا خواب سے
پنجاب کے مشترکہ کلچر نے ہندوستان کو پنجابی زبان کے ساتھ ساتھ اُردو زبان سے بھی مالا مال کیا۔ جس کے متعلق اکثر ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ اُردو کی اصل جائے پیدائش پنجاب ہی ہے۔ پنجابی اور اُردو زبان میں کثیر الفاظ مشترکہ بھی پائے جاتے ہیں۔اُردو ہندوستان کی وہ قدیم زبان ہے جو نئے ہندآریائی دور میں شروع ہو کر پورے ملک میں پھلی پھولی ہے۔ ابتدا میں اِسے ہندوی ‘اور ہندی’ کے نام دیئے گئے لیکن اِس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اُردو زبان پنجاب میں پیدا ہوئی اور یہی جوان ہوئی اِس زبان کی ترویج و ترقی میں سب سے نمایاں خدمات پنجاب کے قلم کاروں کی رہیں ہیں۔پروفیسر محمود شیرانی کی معرکتہ الآرا کتاب ” پنجاب میں اُردو” اِس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔پروفیسر محمود شیرانی لکھتے ہیںکہ:
”اُردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہیدونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے اور جب سیانیہوگئی ہیں تب اِن میں جدائی واقع ہوتی ہے۔”٤
اُردو چونکہ پنجاب میں پیدا ہوئی اِس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو پنجابی کے مماثل ہو یا اُس کی قریبی رشتہ دار ہو۔ بہر حال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان اپنے ہمراہ لے کر روانہ ہوتے ہیں جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے بات کرسکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے۔پروفیسر محمود شیرانی لکھتے ہیںکہ:
”خضر خاں کی تمام فوج پنجاب سے تعلق رکھتی تھی جس طرح کہ وہ خود پنجابی تھے اور جب وہ بادشاہ بن گیا تو ظاہر ہے کہ دہلی کی زبان پر پنجاب کا ترمجدداً ہوگیا۔”٥
پنجاب ہر میدان میں اپنی برتری منواتا رہا ہے۔ علم و ادب اور تہذیب کے ارتقاء میں بھی اس علاقہ نے اہم رول ادا کیا ہے۔ یہاں تک کہ اُردو ادب کی تاریخ کا جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے ارتقائی پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ پنجاب کے قلمکاروں کا ذکر کئے بغیر اُردو ادب کی تاریخ کسی طرح مکمل نہیں ہوسکتی۔ پنجاب نے اُردو شاعری اور نثر کے حوالے سے اُردو ادب کو ایسے معتبر، معتمد شاعر اور ادیب عطا کئے جنھوں نے اُردو ادب کے حوالے سے مختلف اصناف میں گراں قدر کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ شاعری کے حوالے سے اقبال، فیض، حفیظجالندھری، ساحر لدھیانوی وغیرہ ۔نثر کے حوالے سے الطاف حسین حالی،مولوی محمد حسین آزاد،شبلی نعمانی،سرسید احمد خاں،ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔علاوہ ازیں یہاں کے ادیبوں نے طنزو مزاح اور صحافت کے میدان میں معرکتہ الآرا کام انجام دیئے۔اس کے متعلق داکٹر ناشر نقوی لکھتے ہیں:
”اِس طرح جہاں پنجاب کی سر زمین یہاں کے لوگوں کے طرزِفکر اور طرزِ زندگی نے اُردو کے نقش و نگار بنانے اور انہیں سنوارنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے وہاں پنجاب کے اہل قلم نے اُردو ادب میں ان گلابوں کی مہک بھی سمودی ہے جن کی خوشبو میں پنجاب کی مٹی ہے۔”٦
پنجاب بیرونی حملہ آوروں کے لئے دروازے کا کام کرتا رہا۔آریائوں سے احمد شاہ ابدالی تک اکثر آنے والے اسی راستے سے ہندوستان داخل ہوئے ہیں۔ لہذا محمود غزنوی نے بھی پنجاب کو فتح کرنے کے بعد ہندوستان کے دوسرے صوبوں اور شہروں کو اپنا نشانہ بنایا۔صرف پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ ١٩٤٧ء ہندوستان کی تاریخ کا وہ عجیب و غریب سال ہے کہ جس نے راتوں رات اس ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی ۔ لوگ گھر سے بے گھر ہوگئے اور وہ زبان جو ہر خاص و عام بولتا تھا اور جس میں تمام سرکاری اور نیم سرکاری کام ہوتے تھے ،وہ غیر ملکی زبان قرار پائی۔١٩٤٧ء سے قبل پنجاب کا ماحول اُردو کے لئے نہایت ہی خوشگوار تھا۔ پنجاب اردو زبان کا و ادب کا اہم مرکز تھا۔اسکولوں اور کالجوں میں اس کا چلن تھا ۔یہ زبان روزگار سے وابسطہ تھی ۔ اُردو یہاں بولی،پڑھی،لکھی اور سمجھی جاتی تھی۔ اس زبان کو فرماروائوں کی سرپرستی حاصل تھی اور ریاستوں میں سرکاری سطح پر تمام کام اسی زبان میں ہوتے تھے۔مثلاً محکمئہ مال گزاری،انتظامی اور عدالتی کاروائی اسی زبان میں ہوتی تھی۔ساتھ ہی درباروں میں اس زبان کا کافی بول بالا تھا۔اُردو کی محفلیں سجتی تھیں،مشاعرے ہوتے تھے۔ شعراء ان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے اور اپنی تخلیقات کا جادو جگاتے تھے۔ڈاکٹر ستنام سِنگھ خمار رقمطراز ہیں :
”١٩٤٧ میں ہم نے وطن کی آزادی کا استقبال اپنی اندرونی شکست و ریخت سے کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔پنجاب کے سینے پر گہری سرخ
لکیر تراش دی گئی۔ہمارا مشترکہ کلچر سیاست کے مجنون ہاتھیوں کے بھاری قدموں کے نیچے کچل کر رہ گیا۔ذہنوں کے تعصب نے پنجاب کو کاٹ کر پاکستان بنا دیا ۔مہذب سماج کے افراد مسلم اور غیر مسلم بن کے ہجرت اور نقل مکانی کے سیلاب میں بہنے لگے۔ پاکیزہ راستوں میں دراڑیں آگئیں۔پنجاب کے مسلم اور غیر مسلم بھائیوں کے بیچ فاصلے اور سرحدی دیوار اُبھر آئی راوی،جہلم،ستلجاور بیاس کی لہریں اب پانی کے نہیں آنسوئوں کے دریالگنے لگے۔”٧
پنجاب ہندوستان کا سرحدی صوبہ ہے ظاہر ہے کہ ہندوستان کے شمال سے جتنے بھی حملہ آور یہاں پر باہر سے آتے ان کا پہلا پڑائو پنجاب ہی میں رہا۔ حملہ آوروں کے آنے اور آکر یہاں بس جانے کا سلسلہ ایک دو بار نہیں بلکہ صدیوں رہا ہے۔ باہر کے حملہ آوروں سے پنجاب کے لوگوں نے لڑائیاں لڑیں اور دلیری کے ثبوت دئے۔بیرونی حملہ آوروں پر پنجابیوں نے اپنی تہذیب کے نقوش بھی چھوڑے اور ان کی تہذیبوں سے بھی بہت کچھ حاصل کیا ۔معاشرے میں جب تبدیلی رونما ہوتی ہے تو نئے الفاظ بھی وجود میں آتے ہیں اور پرانی زبانوں کے بہت سے لفظ خارج بھی ہوجاتے ہیں۔محمود شیرانی رقمطراز ہیں :
”اُردو دہلی کی قدیم نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اِس لئے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھلے کر گئے ہوں۔” ٨
وہ مسلمان جو پنجاب میں داخل ہوئے۔ اور جنہوں نے جنگ و جدال سے الگ ہوکر اس دھرتی کو اپنا وطن بنایا اور انہوں نے مقامی پنجابیوں کے دلوں میں گھر کر لئے۔عوامی میل ملاپ بڑھا تو اظہار میں عمل حرکت پیدا ہونے لگا۔زبانوں اور معاشروں کے قریب آنے سے پنجاب میں ایک نئے معاشرے اور ایک نئی زبان کی تشکیل کا آغازہوا۔حقیقت یہ ہے کہ اُردو جس طرح ہندوستان کے اور صوبوں میں اسی طرح پنجاب میں برابر بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اُردو پنجاب میں پیدا ہوئی وہاں یہ بھی ایک سچائی ہے کہ تقسیم ملک کے بعد اُردو کو صرف مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا جبکہ زبانیں مذہبوں کی نہیں تہذیبوں کی علامت ہوتی ہیں۔بی۔ڈی۔کالیہ ہمدم لکھتے ہیں :
جو گلی کوچوں سے چلی آئی تھی ایوانوں تک
جس کی آواز پہنچ جاتی تھی انسانوں تک
کیا گلہ تم کو اس اُردو سے ہے بولو ہمدم
یہ جو محدود ہوتی جائے مسلمانوں تک
(بی۔ڈی۔کالیہ ہمدم)
پنجاب کے مزاج میں مہمان نوازی کا عنصر ہمیشہ نمایاں رہاہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد تک زبانوں اور تہذیبوں کے جذب و قبول سے پنجاب گزرتا رہاہے۔ظاہر ہے کہ شروع سے یہاں مختلف اور مخلوط زبانیں بولی جاتی رہی ہیں۔ مختلف زبانوں اور بولیوں کے بولنے کا سلسلہ یہاں آج بھی جاری ہے پھر بھی پنجاب میں قومی زبان ہندی اور سرکاری زبان پنجابی ہے۔پنجاب میں مسلمانوں کی آمد سے سِکھ مذہب کے دس گوروئوں کے دور تک اور پھر برطانوی حکومت سے تقسیم درتقسیم کے ادوار اور موجودہ عہد تک جب ہم پنجاب اور اُردو کے باہمی تعلق کا جائزہ لیتے ہیں تو اُردو کی ہر ترقی پسند تحریک کے روشن تانے بانے پنجاب ہی مربوط نظر آتا ہے۔ اُردو نے پنجاب کی تہذیب یہاں کے رسم و رواج، یہاں کے عوامی مزاج ان کی متنوع زندگی کی ترجمانی بھی کی ہے۔دوسرے لفظوں میں پنجاب کے جوہر ایک طرف توخود کو پنجابی زبان میں اور دوسری طرف اُردو زبان میں منعکس کیا ہے۔آزاد گلاٹی کچھ اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ:
”سچ تو یہ ہے کہ پنجاب اپنی تمام ترثقافتی توانائی اور برنائی کے ساتھ اُردو کی رگ رگ میں جاری و ساری ہے۔”٩
اُردو زبان و ادب اور اس کا لب و لہجہ ہر آدمی کی شخصیت کو نکھار دیتا ہے۔گفتگو میں دلکشی پیدا کر دیتاہے ۔اُردو زبان دنیا کی بہترین زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔پنجاب اور اُردو کا ماں اور بیٹی کا رشتہ ہے ۔اُردو زبان و ادب کی ترقی میں پنجاب کا بھی ایک اہم اور نمایاں رول رہاہے۔اس صوبے میں اُردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ خاصی تعداد میں اُردو کے شاعراور ادیب موجود ہیں۔ ہندوستان کے بڑے شاعروں اور ادیبوں کا تعلق بھی اس صوبے سے رہا ہے۔اس کی آب و ہوا نے شاعروں اور ادیبوں کے کلام کو تازگی اور توانائی بخشی ہے۔ آج بھی بہت سے شاعر ،ادیب ایسے ہیں جن کا تعلق پنجاب سے بنا ہوا ہے۔پنجاب شروع ہی سے اُردو شعر و ادب کا مرکز رہا ہے۔ یہ ادیبوں، شاعروں، مصّنفوں ،فنکاروں اور دانشوروں اوراربابِ ذوق کا صوبہ رہا ہے۔ اگر پنجاب میں موجودہ زمانے میں اُردو تعلیم کی بات کریںتو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ پنجاب میں اسکولی سطح سے یونیورسٹی سطح تک طلبا کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔اُردو کی اس موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہمیں خوش ہوکر نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ ہم کو اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہے۔ہم نے یہ سوچنا ہے کہ اُردو کو روزگار کے ساتھ کیسے جوڑا جائے۔ہمیں نئی نسل کو اُردو سکھانے پڑھانے کے لیے موجودہ ٹیکنالوجی سے مزین طریقے اپنانے ہوں گے۔ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ نئی نسل کیا چاہتی ہے؟
e