بابا فرید گنج شکر
بابا فرید گنج شکر ؒ
حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ ایسے ولی اللہ تھے، جنہوں نے اپنوں کے علاوہ بیگانوں کے قلوب کو بھی نوراسلام سے بھر دیا۔ ولی ہوتا ہی وہی ہے جو کسی کا ہاتھ تھام لے تو پھر اسے بھٹکنے نہ دے۔ اولیاء کا کردار ہی ان کی ولایت کی علامت اور پہچان ہوتا ہے اور وہ اپنے ارادت مندوں کو صرف اور صرف درس شریعت دیتے ہیں۔ وہ بہترین انسان اور عمدہ اخلاق و آداب کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ دانشمند اور عالم ہوتے ہیں اور لوگوں کو علم کی دولت عطا کرتے ہیں، مگر اس کا کسی سے معاوضہ نہیں مانگتے۔ ان کی خدمات فی سبیل اللہ ہوتی ہیں، وہ صرف اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالی کو پہچانتے ہیں اور اس سے پیار کرتے ہیں۔ وہ پاکیزہ ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالی بھی ان سے پیارکرتا ہے۔ اولیائے اللہ نے ہمیشہ اطاعت الہی اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا۔
بابا فرید ؒ ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جس کا سلسلہ خلفائے راشدین کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر خطابؓ سے جا کر ملتا ہے۔ ان کے والد کا نام جمال الدین سلیمان تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آ پ کا خاندان پہلے لاہور آیا اور بعد میں ملتان کے قریب موضح کوٹھوال یا کہتوال میں آباد ہوا۔ آپ 1173 ء میں پیدا ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا، جس وقت ہندوستان میں اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی۔ پیدائش کے وقت آپ کا نام فریدالدین مسعود رکھا گیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر میں ہی پائی۔ ان کی والدہ ماجدہ قرسم خاتون ایک پاک دامن اور پرہیز گار خاتون تھیں۔ والد کی وفات کے بعد ان ہی کے زیر سایہ آپ نے تعلیم حاصل کی، جس کی بدولت وہ خود ایک پاکباز اور نیک طنیت بنے۔
روایت ہے کہ بابا فرید گنج شکر ؒ ابھی کم سن تھے تو ان کی والدہ نے انھیں نماز پڑھنے کی تلقین کی تو آپ نے ان سے دریافت کیا کہ جو بچے نماز پڑھتے ہیں تو انہیں کیا ملتا ہے۔ والدہ نے جواب دیا جو بچے نماز پڑھتے ہیں، انھیں شکر ملتی ہے۔ یہ بات آپ نے پلے باندھ لی اورباقاعدگی سے نماز ادا کرتے۔ ان کی والدہ ان کے مصلے کے نیچے ایک کونے میں شکر رکھ دیتیں۔ بچے میٹھے کے شوقین ہوتے ہیں، آپ نماز ادا کر کے شکر مصلے کے نیچے سے اٹھا کر کھا لیتے۔ ایک دن والدہ شکر رکھنا بھول گئیں جب یاد آیا تو بیٹے سے پوچھا کہ آج شکر نہیں ملی۔ بیٹے نے جواب دیا کہ مجھ تو شکر مل گئی تھی۔ والدہ سمجھ گئیں کہ شکر ان کو اللہ تعالی کی طرف سے مل گئی ہے۔ اس پر ان کا نام گنج شکر پڑ گیا۔
دوسری روایت ہے کہ جب بابا فرید ؒ نے اپنے مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے حکم کے مطابق طے روزہ رکھا اور افطاری کے لئے کچھ نہ پا کر انہوں نے کنکر منہ میں بھر لئے تو وہ کنکر ان کے منہ میں شکر بن گئے اس پر خواجہ کی طرف سے انھیں ً گنج شکرً کا لقب عطا ہوا۔
گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ مزید تعلیم کے لئے ملتان چلے گئے۔ ملتان ان دنوں اسلامی علوم و فنون کا ایک بڑا مرکز تھا، جہاں بغداد و ایران سے علما ء و فضلاء آ کر تعلیم و تدریس میں مصروف ہوتے تھے۔ یہیں آپ کو اپنے روحانی و دنیوی مرشد حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا جو آپ کے اشتیاق حصول تصوف و ذہانت سے بہت متاثر ہوئے اور انھیں اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ بابا فرید ؒ کی اپنے مرشد کے لئے خدمات اور مرشدکی ان کے لئے نظر عنایت کا اتنا اثر ہوا کہ آپ خواجہ قطب الدین کے ہمراہ دہلی روانہ ہو گئے۔ بابا فرید، خواجہ قطب الدین کی صحبت و خدمت اور حصول علم کے لئے بہت عرصہ تک دہلی میں قیام فرما رہے۔
دہلی میں قیام کے آخری دنوں کی ایک روایت جواہر فریدی میں درج ہے۔ ان کے مرشد شیخ نے انھیں وضو کرانے کی خدمات پر معمور کیا۔ ایک مرتبہ رات کو آگ ختم ہو گئی۔ سردیوں کے دن تھے۔ وضو کے لئے پانی گرم کرنا لازمی تھا، اس لئے آپ کا منہ اندھیرے آگ کی تلاش میں قریبی بستی جانا ہوا۔ ایک گھر میں کچھ آہٹ پا کر آپ نے دروازے پر جا کر آگ کا سوال کیا۔ گھر کی مالکن نے دروازے پر آ کر جھانکا تو ایک وجہیہ اور نورانی صورت والے شکیل وجمیل نوجوان کو دیکھ کر وہ آپ پر فریفتہ ہو گئی۔
وہ خود بھی کافی حسین تھی، لگاوٹ کے انداز میں پوچھنے لگی ً کہیں آگ لگانا مقصود ہے ً۔ بابا فرید نے اس کی بات کونظراندازکر دیا اورکہا کہ انہوں نے اپنے مرشد کو وضو کروانا ہے اس لئے پانی گرم کرنے کے لئے انھیں آگ کی فوری ضرورت ہے۔ آخرکار اس فتنہ خیزگر نے شرارتی انداز میں کہا کہ آگ کا معاوضہ آنکھ ہے۔ تم مجھے اپنی آنکھ دے دو، میں تمہیں آگ دے دوں گی۔ مرشد کی محبت اور خدمت نے آپ کو اس سودے پر آمادہ کر لیا۔ انہوں نے فرمایا۔
ً میں اینی آنکھ نکال تو نہیں سکتا، البتہ پھوڑ سکتا ہوں۔ اس پر آپ نے اپنی آنکھ پھوڑنے کی کوشش کی۔ وہ عورت یہ دیکھ کرحیرت سے گنگ ہو گئی اور اس نے فوراً آگ دے دی۔ آپ نے پانی گرم کیا جب وضو کرانے لگے تو حضرت شیخ نے دریافت کیا کہ آنکھ پر پٹی کیوں بندھی ہے۔ آپ نے کہا کہ آنکھ آئی ہے۔ ارشاد ہوا کہ کھول لو اگر آئی ہے تو سوائی ہے۔ پٹی کھولی تو آنکھ بالکل ٹھیک تھی۔
دہلی میں قیام کے بعد خواجہ قطب الدین ؒ اور خواجہ معین الدین چشتی ؒ سے نعمت ہائے باطنی وعلم و ادب کے خزانے حاصل کر کے اپنے مرشد کامل سے خلافت حاصل کر کے پنجاب لوٹ جانے کی اجازت چاہی۔ ان کی اجازت سے واپسی کے سفر کا قصد کیا اور وہاں سے مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ہانسی ضلع حصار میں ٹھہرے وہاں آپ نے بارہ سال قیام کیا اور تصوف کا مرکز قائم کر کے ملتان آ گئے اور یہاں سے پھر اجودھن کا رخ کیا۔ اگرچہ یہاں اس وقت مسلمانوں کی واضح تعداد تھی۔ لیکن غیر مسلموں کی بھی ایک
اکثریت یہاں آباد تھی۔ اجودھن پہنچ کر آپ نے شہر سے باہر درختوں کے ایک جھنڈ میں قیام فرمایا جہاں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی۔ یہاں پر آپ کے قیام کے بعد کی درجنوں روایات اور کرامات آپ کے ساتھ منسوب ہیں۔ آپ نے ایران، بغداد اور حجاز مقدس کا سفر کیا وہاں بہت عرصہ گزارا۔ حج کی سعادت حاصل کی اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلی وصلعم پر حاضری دی۔ بغداد میں غوث الاعظم شیخ عبداقادر جیلانی ؒ کے مزار پر بغیر معاوضہ کے مزدوری کرتے رہے۔ آپ نے ہندوستان کے دوردراز علاقوں کا سفر کیا۔ اجمیر شریف اور لاہور حضرت داتا گنج بخش ؒکے مزارات پر بھی کافی دفعہ حاضری دی۔ آپ نوے سال تک اس فانی دنیا میں زندہ رہے اور 1265 ء میں نہایت راحت و سکون سے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔
حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ نے ہمیشہ امراء و سلاطین سے دوری اختیار فرمائی۔ وہ دوسروں کو بھی ان کی صحبت سے الگ رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ آپ نے اپنی نوے سال سے زیادہ کی زندگی میں شہاب الدین غوری، قطب الدین ایبک، شمس الدین شمس، رضیہ سلطانہ، بہرام شاہ، ناصرالدین محمود کا عہد دیکھا۔ ان سب بادشاہوں نے اپنی سلطنت کے لئے لڑایاں توکیں لیکن اپنی رعایا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ کا کام صوفیائے کرام اور بزرگان دین نے کیا جن کے کردار اور عین اسلامی اصولوں پرطرز زندگی کو دیکھ کر لوگ جوق در جوق حلقہ اسلا م میں داخل ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ بادشاہ سلطان ناصر الدین محمود اچ شریف جاتے ہوئے آپ سے ملنے کے لئے اجودہن آیا اور اس کا وزیر بلبن آپ کے لئے کئی گاؤں کا پٹہ ساتھ لایا تاکہ آپ اپنا خاطر خواہ اچھا گزارہ کر سکیں۔ آپ نے صبر وقناعت کی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے وہ ہدیہ واپس کر دیا اور کہا
شاہ مارا دہ دود منت نہد
رازق ما رزق بے منت نہد
بادشاہ ہمیں گاؤں دے کر احسان کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا خدا ہمیں بغیر احسان کے رزق پہنچاتا ہے۔
آپ نے اپنی ساری زندگی سادگی سے گزاری۔ آپ کی کٹیا دین کی تبلیغ کا گڑھ تھی جہاں علاقے کے لوگ حاضری دیتے۔ آپ نے ان کے لئے لنگر کا انتظام کر رکھا تھا۔ لیکن آپ نے خود کبھی اس لنگر سے نہیں کھایا۔ آپ کی خوراک پیلاں اور کریر کے درخت کا پھل جسے ڈیلے کہتے تھے۔ کبھی پیلوں دودھ میں ابال کر کھا لیتے اور کبھی ڈیلے باٹے پانی میں ابال کر نمک چھڑک کر کھا لیتے۔ زندگی میں بہت کم روٹی آپ نے کھائی۔ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی حیاتی کے بارے میں پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ وہ پنجاب میں رہتے تھے، لیکن انہوں نے کافی جگہوں کی سیر کی۔
وہ کئی دفعہ دہلی اور بہت سی دوسری جگہوں پر گئے، لیکن ان کی شاعری میں صرف پنجاب ہی بستا تھا۔ آپ اپنے مریدوں اور ماننے والوں کو شرعی احکام کی وضاحت کر کے اس پر کاربند ہونے کا درس دیتے اور ایک دوسرے کا ادب و احترام کرنے کا درس دیتے۔ آپ علمی تکبر کو بہت برا سمجھتے اور اپنے مریدوں کو ہدایت کرتے کہ اگر آپ کے علم حاصل کرنے کا مقصد لوگوں سے بحث یا علمی جنگ کرنا ہے تو اس علم کے حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ فرماتے تھے کہ کسی سے انتقام لینے سے اسے معاف کر دینا بڑا کام ہے جس کا وہ عملی مظاہرہ بھی کرتے تھے۔ آپ کی شخصیت کا دوسرا پہلوآپ کی صوفیانہ شاعری ہے جس میں آپ نے اپنے وقت کی سماجی، اقتصادی اور معاشرتی حالت بیان کی۔
مولابخش کشتہ اپنی کتاب ً پنجابی شاعراڈ دا تذکرہ ً میں آپ کے متعلق لکھتے ہیں کہ بابا فرید ایک نیک، پاک اور روشن درویش تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ربی اصولوں کا پرچار سمجھا اور یہ حقیقت ہے کہ دنیا کو نیکی اور ہدایت کا رستہ دکھانے کا کام بادشاہوں نے نہیں کیا بلکہ انھیں جیسے فقیروں اور درویشوں نے یہ کام کیا۔ ان کی باتوں میں ایک الہامی کشش اور طاقت ہوتی تھی۔ لوگ آپ کی باتوں کو دل وجان سے سچا مانتے تھے کیونکہ ان کی ہر بات ذاتی نفع اور لالچ سے پاک ہوتی تھی۔
ایک غلط معاشرے سے علیحدگی اختیار کر لینا اور اس کو اللہ تعالی کی بلا شرکت غیرے محبت کے ساتھ منسلک کر لینا اولین طبقہ صوفیاء کی بنیادی کیفیت قرار دی جا سکتی ہے۔ اس قسم کی کیفیت ہندوستان میں مسلمان معاشرے کے اولین زمانہ قیام کے وقت بھی مسلمانوں کے حساس عناصر میں پائی جاتی ہے۔ ان حساس عناصر میں جنہوں نے اس کیفیت کو اپنے عمل اور شعور میں اظہار کیا، ان اولین بزرگوں میں حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کا پایہ بہت بلند ہے۔ بابا فرید ایک اچھے انسان دوست شاعر تھے آپ نے زندگی کے ہر شعبے اور سب طبقوں کے متعلق واضح لکھا۔ ان کے شلوکوں میں جو پنجابی شاعری کا سر آغاز سمجھے جاتے ہیں یہ کیفیت بار بار جھلکتی ہے
فریدہ رت پھری دن کہنیا، پت جھڑیں جھڑ پائیں
چارے کنڈاں ڈھونڈیاں رہن کتھاؤں نائیں
اے فرید موسم بدلا ہے تو جنگل اس کے اثرات سے کانپ اٹھاہے، اتنے لاتعداد پتے جھڑے ہیں کہ جھڑ ہو گیا ہے جیسے بادل کا اندھیراچھا گیا ہو۔ ان ننگی ڈالیوں اور بے برگ
درختوں میں چاروں طرف تلاش کر کے دیکھ لیں، کہیں بھی رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ ایک ایسے ظالمانہ معاشرے کی اس سے بہتر جذباتی تصویر پیش نہیں کی جا سکتی جس میں کسی راست
باز اور ایک دین دار نیک شخص کے لئے کوئی جائے فرار باقی نہیں رہتی۔
پنجاب یونیورسٹی پٹیالہ کے گوربچن سنگھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بابا فرید گنج شکر ؒ نے عالمگیر مذہبی اخوت کے تخیل اور تصوف کی اعلی روایات کو یکجا کیا۔ انہوں نے متحدہ ہندوستان میں اسلامی دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا۔ دہلی کے حضرت نظام الدین اولیاء مشہور و معروف صوفی شیخ آپ کے مرید اعلی اور خلیفہ تھے۔ آپ ایک صوفی منش اور روحانی پیشوا تھے۔ ان کا کلام ربانی ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ جو کہ روح کو متاثر کرتا اور دل میں گھر کرتا ہے۔
ایسا پاک و بابرکت کلام انسان کے لئے کشف اور الہام ثابت ہوتا ہے۔ اور خدمت انسان کی ترغیب دیتا ہے۔ دل میں جذبہ و جوش موجزن کرتا ہے دل کو پاکیزہ بناتا ہے۔ ان کے کلا م میں بے حد شیرینی ہے۔ تمام شلوک گہرے جذبات سے بھرپور ہیں۔ وہ ہنر اور فن اور شعر و سخن کا اعلی نمونہ ہیں۔ یہ کلام پنجابی زبان کا بیش بہا خزانہ اور قیمتی اثاثہ ہے۔ کلا م میں روانی اور موسیقی ہے۔ تشبہیات اور استعارات پنجاب کی زندگی سے لئے گئے ہیں۔
ا اللہ تعالی سب جہانوں پر قادر ہے عرش بھی اسی کا ہے اور فرش بھی اسی کا ہے۔ انسان کے لئے فرش یعنی زمین ہی سب سے پہلی سچائی اور یقین ہے۔ آپ فرماتے ہیں
فریدہ خاک نہ نندیے خاکو جیڈ نہ کو ء
جیوندیاں پیراں تلے مویاں اپر ہؤ
(اے فرید مٹی کو کبھی برا نہ کہو کیوں کہ اس مٹی جیسا کوئی