بابا فرید گنج شکرؒ کی فکری اور شعری تعلیمات
بابا فرید گنج شکرؒ کی فکری اور شعری تعلیمات
پنجاب میں چشتیہ تعلیمات کی تجسیم بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی صورت میں ہوئی۔ ان کی ذہنی رویے کی نشاندہی علامتی انداز میں اس واقعہ سے ہوتی ہے کہ جب ایک عقیدت مند نے بابا فرید ؒ کو ایک قینچی پیش کرنا چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے قینچی نہ دو کہ میں کاٹنے والا نہیں ہوں۔ مجھے سوئی دو کہ میں جوڑنے والا ہوں۔ بابا فرید ؒ کا ترکیبی رویہ اس حد تک وسیع تھا کہ انہوں نے ریاضت کے بہت سے ہندوؤانہ طریقہ اعلانیہ اختیار کرلئے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا سلسلہ ہند کے وسیع و عریض علاقے تک پھیلا ہوا تھا ۔ ہزاروں لاکھوں افراد اس سے باقاعدہ طور ر وابستہ تھے ۔ اس کی اہمیت محض روحانی نہیں رہی تھی بلکہ عوام کی بے پناہ عقیدت کی بنا پر اسے روز بروز سیاسی اہمیت بھی حاصل ہونے لگی تھی۔ یہاں تک کہ سلاطین دہلی اسے اپنے تخت وتاج کے لئے خطرہ تصور کرنے لگے تھے۔
اقتدار سے بیزاری اور سادگی بابا فریدؒ کی شخصیت میں بہت تھی ۔ اس لئے انہوں نے کوشش کی کہ تصادم شدید نہ ہو۔ وہ ریاستی معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھتے تھے۔ حکمرانوں سے دور رہتے تھے، اور اپنے ساتھیوں اور مریدوں کو بھی دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دارالسلطنت سے دور رہنے کو ترجیح دی۔ دہلی کو تیاگ دیا اور پنجاب میں اجودھن پنجاب کا سب سے بڑا ثقافتی ،علمی اور روحانی مرکز بن گیا۔ یہاں ہندو مسلم ثقافتوں کے ملاپ سے ایک نئی اسلامی ثقافت پروان چڑھنے لگی ۔ بابا فرید کی بنا ر تصوف پنجاب میں ایک عوامی تحریک بن گیا۔ روحانی نجات کی جستجو میں لوگ جوق در جوق دور دراز سے اجودھن کا رخ کرنے لگے ۔ روحانیت کا چرچا ہونے لگا ، تعصبات مٹنے لگے، شاعری اور موسیقی رواج پانے لگی اور خود بابا فرید نے اسی زبان میں شاعری کی۔
ان کا تعلق عوام سے تھا، ان کے مفادات عوام سے وابستہ تھے ۔ وہ عوامی ثقافت کے محافظ تھے۔ طبقاتی نظام اور اونچ اونچ کے مخالف تھے ۔ سادگی پسند تھے ۔ مساوات کے قائل تھے ، انسان دوستی کا درس دیتے تھے ۔ حاکم و محکوم کی تقسیم ختم کرنا چاہتے تھے ۔ سب کے لئے یکساں انصاف کے طالب تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دن بدن حکمران طبقوں سے کٹ کر عوام کے ساتھ گھل مل گئے ۔
بھگتی تحریک اصل میں چشتیہ مکتبہ فکری ہی کی ایک ترقی یافتہ اور ہندو پس منظر میں یش کی جانے والی تحریک تھی ۔ پنجاب میں اسے فروغ بابا گورونانک کی جدوجہد سے ملا ۔ اس دانشور گورو نے بھگت کبیر کے گہرے اثرات قبول کئے تھے۔ یہاں تک کہ گورو گوبند سنگھ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ بھگت کبیر کا مذہب اب خالصہ ہوگیا ہے ۔ صوفیوں اور بھگتوں کی طرح بابا گورو نانک نے بھی مذہب کی ظاہری صورتوں اور عبادتوں پر اس کی روح کو ترجیح دینے کا درس دیا ۔ کہ حقیقی مذہبی زندگی، باطن پاکیزگی سے عبارت ہے ۔ صداقت ای ہے ، جو ظواہر کی لا محدود سطحوں کے پس پردہ کار فرما ہے ۔ ہندومت اور اسلام اسی ایک صداقت کے دو مظاہر ہیں۔ جب تک طبقات موجود ہیں یکساں اور عالمگیر محبت کے آدرش شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے ۔
پنجاب میں سید علی ہجویری کے بعد جس صوفی بزرگ نے ایک نمایاں مقام حاصل کیا وہ بابا فرید الدین مسعو د گنج شکر ہیں ان کا تعلق تصوف کے چشتی مکتبہ فکر سے تھا۔ تصوف کی چشتیہ روایت کا آغاز دسویں عیسویں میں اس وقت ہوا جب سلطان محمود غزنوی کے حملوں کے دوران اس روایت کے علمبردار بہت سے بزرگوں نے پنجاب کا رخ کیا اور یہیں آباد ہوگئے۔ بابا فرید خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے بعد ہند میں اس روحانی سلسلے کے رہنما مقرر ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنے عہد کے مروجہ ظاہری علوم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اس کے بعد انہوں نے دہلی کا قصد کیا اور اپنے مرشد کی نگرانی میں روحانی تربیت کا آغاز کیا اور دہلی پہنچنے کے بعد انہوں نے شدید ریاضت اور مجاہدے شروع کئے۔ اس سلسلے میں خصوصی طور ر چلہ معکوس( چالیس دن تک کنویں میں الٹے لٹکے رہنا) کا ذکر کیا جاتا ہے، اس کے بعد انہوں نے اپنے مرشد کی اجازت سے ہانسی میں رہائش اختیار کی ۔ اسی دوران مرشد کا انتقال ہوگیا ۔ اور انہیں چشتیہ سلسلے کا سر بارہ بنادیا گیا اور انہوں نے پنجاب میں واقع اجودھن نامی قصبے کو اپنا مرکز بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ رفتہ رفتہ یہاں بھی ان کی شہرت ہونے لگی اور لوگ جوق در جوق ان کی جانب رجوع کرنے لگے ۔ بابا فرید نے یہاں صوفیانہ روایت کے مطابق ایک جماعت خانے کی بنیاد رکھی ۔ اجودھن کی خانقاہ میں ایک صوفیانہ درس گاہ کی تمام جملہ خصوصیات موجود تھیں۔ جماعت خانے میں بہت سے دانشور اور صوفی ہر وقت موجود رہتے ۔ بابا فرید ؒ کی شاعری ہم تک آدگرتھ کے شلوکوں کے ذریعے پہنچی ہے ۔
…